شادیوں کا سیزن وبا کی نذر ہونے سے آشپازوں کا روزگار متاثر

0
0
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں سال گذشتہ شادیوں کا سیزن ما بعد پانچ اگست پیدا شدہ صورتحال کی بھینٹ چڑھنے کے بعد رواں سیزن کورونا وائرس کے قہر کی روک تھام کے لئے نافذ لاک ڈاؤن کی نذر ہوگیا ہے جس کے باعث جہاں ایک طرف سینکڑوں شادیاں منسوخ ہوگئیں وہیں آشپازوں اور اس سے جڑے دوسرے تجارت پیشہ لوگوں کی روزی روٹی کی سبیل بھی اکارت ہوگئی ہے۔بتادیں کہ وادی میں سیال کے پیش نظر شادیوں کا سیزن ماہ اگست سے نومبر تک اور پھر سیال ختم ہونے کے بعد اپریل سے جون تک ہوتا ہے۔ سال گذشتہ یہ سیزن مرکزی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کو دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے تحت حاصل خصوصی اختیارات کی تنسیخ اور سابق ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کرنے کے پانچ اگست کے فیصلوں کے بعد پیدا شدہ صورتحال کی بھینٹ چڑھ گیا تھا اور سال رواں میں شادیوں کا سیزن شروع ہوتے ہی کورونا وائرس کے پیش نظر نافذ لاک ڈاؤن کی نذر ہوگیا۔ایک تخمینے کے مطابق وادی میں رواں سیزن کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں شادیاں منسوخ ہوگئیں اور اب اگر کہیں کوئی شادی انجام پذیر ہوئی بھی وہ انتہائی سادگی سے انجام دی گئی جن میں روایتی وازوان اور دیگر رسوم کا نام و نشان بھی نظر نہیں آیا۔وسطی ضلع بڈگام سے تعلق رکھنے والے غلام احمد ماگرے نامی ایک آشپازے نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ‘سال گذشتہ کا سیزن ختم ہونے کے بعد رواں سیزن میں کچھ کمانے کی امیدیں تھیں اور کئی گھرانوں، جن کے ہاں لڑکے لڑکیوں کی شادیاں تھیں، کے ساتھ وازوان (شادیوں کے موقع پر مہمانوں کی تواضع کے لئے تیار کی جانی والی ضیافتیں) تیار کرنے کے لئے بات بھی طے کی تھی لیکن وبا کی وجہ سے وہ سب شادیاں منسوخ ہوئیں جس سے ہماری روزی روٹی کی سبیل اکارت ہوگئی’۔انہوں نے کہا کہ میں ہر سیزن میں اچھی کمائی کرکے نہ صرف اپنے اہل عیال کا پیٹ پالتا تھا بلکہ بچوں کو بھی پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ فاقوں کی بھی نوبت آئے گی اور بچوں کی فیس ادا کرنا بھی ممکن نہیں ہوگا۔ڈار ٹینٹ ہاؤس نامی دکان کے مالک کا کہنا ہے کہ شادیوں کا سیزن ہی میری کمائی کا ذریعہ تھا لیکن وہ وبا کی نذر ہوگیا۔انہوں نے کہا: ‘شادیوں کا سیزن ہی دراصل میری کمائی کا ذریعہ ہے باقی سال بھر میرا کوئی خاص کام نہیں ہوتا ہے، اس سیزن میں کمائی کرکے میں نہ صرف اپنے عیال کی کفالت کرتا تھا بلکہ میرے ٹینٹ ہاؤس میں کام کرنے والے دو مزدور بھی روزی روٹی کماتے تھے لیکن سال گذشتہ نامساعد حالات اور رواں سیزن وبا کا نذر ہوگیا جس سے ہمارا روز گار تباہ ہوگیا’۔گوشت فروشوں کا بھی یہی عالم ہے وادی میں چونکہ شادی بیاہ کی تقریبوں پر مہمانوں کی خاطر تواضع گوشت کے مخلتف پکوانوں سے کی جاتی ہے جس سے گوشت فروشوں کے وارے نیارے ہوتے تھے لیکن ان کے روز گار کو بھی وبا نے برباد کرکے رکھ دیا ہے۔دریں اثنا لوگوں کا کہنا ہے کہ وبا کی وجہ سے شادیوں کا منسوخ ہونا ٹھیک بات نہیں ہے لیکن سادگی سے شادیوں کا انجام دیا جانا خوش آئند امر ہے۔مدثر احمد نامی ایک اسکالر نے یو این آئی اردو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ‘وبا کی وجہ سے بے شمار شادیاں منسوخ ہوئی ہیں جو ایک ٹھیک بات نہیں ہے اس کے معاشرے پر کسی نہ کسی طرح برے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن کم سے کم وبا کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ شادیاں جو اگر کہیں انجام پذیر ہوئیں انتہائی سادگی سے انجام دی گئیں’۔انہوں نے کہا کہ جس طرح دنیا میں وبا ٹل جانے کے بعد ایک نیا ورلڈ آرڈر منصہ شہود پر آنے کی امیدیں کی جارہی ہیں اسی طرح وادی میں کم سے کم مختلف سماجی تقریبات بالخصوص شادی بیاہ کی تقریبات سادگی کے ساتھ منائی جانے کا رجحان پروان چڑھ جانا چاہئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا