تعلیمی اداروں کو مزید ایک یا آدھ ماہ تک بند رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے : لیفٹیننٹ گورنر
لازوال ڈیسک
جموں؍؍جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر گریش چندرا مرمو نے کہا کہ کورونا وائرس کے پیش نظر نافذ لاک ڈائون کے دوران لوگوں پر سختی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم جہاں بھی کسی علاقے کو ‘ریڈ زون’ قرار دیا گیا ہے وہاں لوگوں کی نقل وحرکت روکنے کے لئے سختی کرنا ضروری ہے۔ بتادیں کہ یو ٹی انتظامیہ نے جموں وکشمیر میں لاک ڈائون پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کر رکھی ہیں۔ سڑکوں پر بھاری تعداد میں بندوق اور ڈنڈے بردار جموں وکشمیر پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو تعینات رکھا گیا ہے جن پر الزام ہے کہ وہ راہگیروں کی مجبوریوں کو سمجھے بغیر انہیں مارنا پیٹنا شروع کرتے ہیں۔ اس مبینہ بربریت کی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوچکی ہیں۔لیفٹیننٹ گورنر نے جموں میں ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران لوگوں پر کی جانے والی سختی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا: ‘ابھی تک ہم نے کوئی سختی نہیں کی ہے۔ پولیس نے کہیں کہیں پر ہجوم کو قابو کرنے کے لئے کارروائی کی ہے جس کی کبھی کبھی ضرورت بھی پڑتی ہے۔ ہمیں نہیں لگتا ہے کہ لوگوں پر سختی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہاں یہ بات ہے کہ جہاں بھی کسی علاقے کو ریڈ زون قرار دیا گیا ہے وہاں لوگوں کی نقل وحرکت روکنے کے لئے سختی کرنا ضروری ہے’۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘ہمیں امید ہے کہ لوگ رضاکارانہ طور پر قرنطینہ اختیار کریں گے۔ سماجی دوری اختیار کریں گے۔ دور دراز علاقوں میں لوگوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے دیہات کو سیل کیا ہے۔ نہ وہاں کے لوگ کسی کو اپنے گائوں میں داخل ہونے دیتے ہیں اور نہ کسی کو باہر جانے دیتے ہیں۔ ایسے علاقوں کے لوگوں نے خود ہی جنتا کرفیو نافذ کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ خود ہی اپنی ذمہ داری سمجھیں تاکہ طاقت کا استعمال کرنے کی ضرورت نہ پڑے’۔ مسٹر مرمو نے کہا کہ جموں وکشمیر میں گذشتہ چار ہفتوں سے بند تعلیمی اداروں کو مزید ایک یا آدھ ماہ تک بند رکھنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘ہم نے تعلیمی ادارے بند رکھے ہیں۔ ہم نے ان کو اگلے ایک آدھ مہینے تک بند رکھنے کا فیصلہ لیا ہے’۔لیفٹیننٹ گورنر نے کہا کہ جموں وکشمیر میں اب تک کورونا وائرس کے جو کیسز سامنے آئے ہیں ان میں سے بیشتر متاثرین میں کورونا کی کوئی علامتیں نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا: ‘کورونا وائرس ہر ایک شخص کی لڑائی ہے۔ حکومت ہند نے ایک موبائل ایپ بنائی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جن کے پاس بھی موبائل فون ہے وہ اس ایپ کا استعمال کریں’۔ مسٹر مرمو نے دربار مو کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا: ‘کورونا وائرس کے زیادہ کیسز کشمیر سے سامنے آئے ہیں۔ اس کے پیش نظر دربار مو دفاتر کی سری نگر منتقلی ضروری بن گئی ہے۔ دونوں جگہوں پر دفتری کام چلانے کی کوششیں جاری رہیں گی’۔ دریں اثنا کشمیر میں لوگوں کا ماننا ہے کہ لوگوں کو مارنا پیٹنا یہاں تعینات جموں وکشمیر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی عادت جیسی بن گئی ہے۔ لوگوں کے مطابق ہر کوئی کشمیری کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے جاری لاک ڈائون پر راضی ہے لیکن اب اگر کوئی کسی مجبوری میں سڑک پر نکلتا ہے تو اس کا مطلب نہیں کہ اس کو مارا پیٹا جائے اور سرعام ذلیل کیا جائے۔ تاہم حکومت کے ترجمان روہت کنسل کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی طرف سے ناقابل قبول رویہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ایسا رویہ نوٹس میں آنے یا لائے جانے پر ملوث اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو پابندیاں نافذ کرنے کے دوران کسی بھی شخص کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز کرنے کی ہدایت دی۔ ہائی کورٹ نے یہ ہدایت ایڈوکیٹ نتن بخشی کی ای میل عرضی پر ویڈیو کانفرنس کے ذریعے سماعت کرتے ہوئے جاری کی تھی۔