*رمضان اور ہم*

0
0

*از یسریٰ بنت گوہر علی*

رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، بخشش اور مغفرت کا مہینہ ہے۔
اس قدر مالدار مہینہ آخر کن لوگوں کے لیے ہے؟
یہ بخششیں کون حاصل کرے گا؟
یہ برکت کن لوگوں کے حق میں اتریں گی؟
سامانِ مغفرت کس کے دامن کی زینت بنے گا؟
رحمتوں کی بارش کن لوگوں پر ہوں گی؟
آخر وہ کون خوش نصیب لوگ ہیں جو اس مالدار مہینے کے سایوں تلے رحمتیں و برکتیں اور بخشش کا سامان لوٹ لیں گے !!!
کیا یہ سب کچھ ان لوگوں کے لیے حصے آئیں گی جو رمضان کے خاطر اپنے روٹین بدل دیتے ہیں اور بعد فجر ظہر تک سوتے ہیں یا انکے لئے جو سال بھر نہیں بنانے والے پکوان کو رمضان ہی میں دسترخوان پر سجاتے ہیں؟ یا پھر انکے لئے جو بجائے روٹین اور شیڈیول کے عمل بدل لیتے ہیں؟ ظاہر ہے۔۔۔ بد اعمالیوں تبادلہ نیک اعمال میں کرنے والوں کے لیے رمضان نعمتوں اور برکتوں، بخششوں اور مغفرتوں کا مہینہ ہے اور ایسے ہی لوگ جنت پہ قابض ہونے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ *بےشک جنت جنگجوؤں کے لیے ہے۔۔۔۔مگر اسے تلوار کی نہیں بلکہ نیک اعمال کی نوک پر جیتا جا سکتا ہے۔اب عمل کیا کِیا جاوے؟ چونکہ یہ دنیا ایک عارضی دنیا ہے۔ اس کا مقصد ہی انسانوں کا امتحان ہے۔ اِس دنیا میں جن لوگوں نے "اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا راستہ اختیار کیا” قیامت کے دن وہ سرفراز ہوں گے۔ الله کے احکامات ہی جنت کی جنگ ہے اور اس کی فرمانبرداری ہماری تلوار، صبر و شکر ہماری ڈھالیں ہیں جس کے بل پر ہماری رسائی جنت تک ممکن ہے، جبکہ جنگ اپنے نفس سے ہے!!!* اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے یہ پورا مقدمہ ماننا نہایت مشکل ترین کام ہے، کیونکہ یہاں خدا نظر نہیں آتا، فرشتے دکھائی نہیں دیتے، قیامت بہرحال ایک مستقبل کا واقعہ ہے، جنت اور جہنم کسی نے نہیں دیکھی۔ اب یہ بات مانی جائے تو کیونکر مانی جائے۔ اور پھر اپنے نفس سے جنگ کس بناء پر کی جاۓ۔

بحرحال دیکھتے ہیں ماہ رمضان ہمارے لیے باعث رحمت و برکت کیسے بنتا ہے۔
"رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہوتا ہے۔ رمضان کی اہمیت کے بارے میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ سے ارشاد فرمایا کہ اگر مجھے آپ ﷺ کی اُمت کو جہنم میں ہی جلانا ہوتا تو رمضان کا مہینہ کبھی نہ بناتا۔ یعنی یہ مہینہ جہنم سے رہائی اور جنت میں داخلہ کا مہینہ ہے۔ اب داخلہ کے لیے دیکھتے ہیں کیا کیا ڈاکیومنٹس درکار ہیں۔ چونکہ یہ اتنا مالدار مہینہ کہ ہر مومن عبادتوں میں لوٹ مار مچا دیتے ہیں، نیکیوں میں سبقت کے حصول کے سبب قطار میں صف اول کھڑے ہوتے ہیں، پرہیزگاری و تقویٰ اختیار کرتے ہیں، الله کا قرب حاصل کرنے کے لیے نیکیوں اور عبادتوں کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہیں، اور روزہ تو ہے ہی ماہ رمضان کا مرکزی عبادت ۔

رمضان کے علاوہ بقیہ گیارہ مہینوں میں ہمیں اپنی نیکیوں کا اجر طۓ کردہ اجر پر ہی ملتا ہے۔ مثلاً، نفل عبادات کا بدلہ نفل عبادت کے لحاظ سے ملتا ہے، سنت کا سنت سے اور فرض کا بدلہ فرض ہی کے عوض ملتا ہے جبکہ۔۔۔۔۔۔ ماہ رمضان میں نفل عبادت کا اجر سنت کے برابر ہوجاتا ہے ، سنت کا فرض کی چوٹیاں چھوتا ہے اور فرض کی ادائیگی کا ہم اندازا بھی نہیں لگا سکتے۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جھوٹ کے گناہ اللہ نے بتا دیے ہیں، غیبت کرنے کے گناہ بتا دیے گئے ہیں ، غرض یہ کہ جس طرح گناہوں کی سزاؤں سے آگاہ کر دیا گیا ہے عین اسی طرح نیکیوں کے اجر سے بھی واقفیت کروا دی گئی ہے لیکن پھر بھی کچھ نیکیوں کے اجر اللہ نے سرپرائز کی صورت اب تک نہیں بتاۓ۔۔۔ یعنی نفل کو سنت اور سنت کو فرض کے اجر تک جو رسائی حاصل ہے ہم نہیں جانتے کہ پھر فرض کی ادائیگی کا اجر کون سا آسمان چھوتا ہوگا۔ انہیں لحاظ سے ماہ رمضان ہمارے لیے ناکہ باعث رحمت ہے بلکہ برکت کا بھی باعث بنتا ہے۔

*اس ماہ کے نزول کا مقصد:*
انسان، چاند ، سورج، پہاڑ زمین غرض یہ کہ زرہ زرہ بھی بنا مقصد کے وجود میں نہیں آیا۔ یعنی الله کی ہر تخلیق کردہ شۓ ایک مقصد کے تحت وجود میں آتی ہے۔ پھر رمضان کی آمد کا مقصد کیونکر نہ ہو۔۔۔ماہِ رمضان ایک دفعہ پھر اہلِ زمین کے سروں پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔رمضان مغفرت اور سراسر جہنم سے نجات کا مہینہ ہے، یہ ایمان کی تجدید کا مہینہ ہے، یہ آدمی کے لیے مادّی علائق اور کھانے پینے جیسے فطری اور لازمی تقاضوں سے رک کر اپنے اندر ربانی شخصیت اور ایمانی و اخلاقی اقدار کی پرورش کا سالانہ موقع ہے۔روزوں کے ذریعے تقویٰ اختیار کرنے کا مہینہ ہے۔چونکہ آخرت کی کامیابی اور اس کے لیے پاکیزگی کے حصول پر انسان کو متحرک کرنے والی سب سے بڑی چیز خدا کے حضور اسکی کی پکڑ کا اندیشہ، اس کے عذاب و غضب کا ڈر ہے جس سے تقویٰ کا حصول آسان ہے۔ اور یہ تقویٰ ہی وہ چیز ہے جو روزوں کی فرضیت کا اصل مقصود ہے:
’’اۓ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ۔‘‘، (البقرہ ۲،١۸۳)
*تقویٰ کیسے پیدا ہوتا ہے:*
چونکہ قرآن کا نزول اسی ماہ میں ہوا جس کے سبب مسلمان تلاوتِ قرآن اسی ماہ میں بقیہ مہینوں کی نسبت کثرت سے کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کے حصول کے اسباب بھی اسی ماہ میں زیادہ ہیں۔ رمضان میں قرآن کی بار بار تلاوت انسان کو جہنم کے عذاب اور خدا کی پکڑ سے بے خوف نہیں رہنے دیتی۔ دوسری طرف روزے میں کھانے پینے سے رکنا انسان کو نہ صرف پرہیزگاری کے آداب سکھاتا ہے بلکہ اسے اُس مضبوط قوت ارادی سے آگاہ کرتا ہے جسے استعمال کرکے وہ ہر اخلاقی ناپاکی سے بچ سکتا ہے اور بےلگام نفس کو لگام دینے کی طاقت حاصل کرتا ہے۔ جو ماہِ رمضاں کا سب سے ٹھوس مقصد ہے۔

*قرآن کا نزول:*
یہ ماہ برکت کا مہینہ ہے کیونکہ اسی مہینے میں ایک ایسی کتاب کا نزول ہوا جو دنیا میں پھیلی ہر اخلاقی مرض کی دوا کا علاج رکھتا ہے۔افراط و تفریط کی بھول بھلیاں میں بھٹکنے والی دنیا کو اگر کوئی سیدھا راستہ دکھانے والا ہے تو وہ قرآن اور اس میں موجود حکمت سے لبریز قوانین و احکامات ہیں اور ساری گتھیوں کے حل موجود ہیں۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے قرآن کو محض ختم کرنے کی حد تک محدود کر دیے ہیں۔ بلاشبہ تلاوت قرآن ثواب کا کام ہے لیکن اسے صرف ثواب کے لیے نہیں پڑھنا ہے بلکہ اسکے مقصد نزول کو بھی حاصل کرنا ہے اور ہدایت بھی حاصل کرنا ہے ۔ اسی میں جنت تک پہنچنے کا راستہ ہے اور جہنم سے آزادی کا ٹوٹکا بھی ہے، اسی میں وہ روشنی ہے جو تاریک زندگی کو روشن کر دیتی ہے۔ اس لیے آئیے آج یہ عزم کرتے ہیں کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں گے۔ یہ جاننے کے لیے پڑھیں گے کہ قرآن جس دن کی مصیبت سے خبردار کرنے آیا ہے وہ کون سا دن ہے۔ فکر و عمل اور اخلاق و عقیدہ کی اُن گندگیوں کو جاننے کے لیے پڑھیں گے جن سے بچے بغیر جہنم کی آگ سے نہیں بچا جاسکتا۔رمضان کے ذریعے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اسوہ رسول ﷺ کے مطابق، اِس طرح قرآن کا قاری بنے کہ وہ قرآنی سانچے میں ڈھل کر خود ایک زندہ چلتا پھرتا قرآن بن جائے۔ اُس کا قول و عمل قرآنی تعلیمات پر مبنی ہو۔ وہ قرآن کی ہدایات کے مطابق چلنے اور رکنے والا بن جائے۔ وہ حقیقی معنوں میں متقی اور خدا شناس بنے۔ وہ تقویٰ اور اخلاق جیسے بلند ایمانی اور انسانی اقدار سے بہرہ ور ہوکر زندگی گزارنے والا بن جائے۔ اُس کا جینا اور مرنا خدائی ہدایات کے مطابق ہو اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو انسان کو جنت کی طرف گامزن کرتی ہیں۔

*رمضان کے ساتھ ہمارا رویہ:*
رمضان ہم تک بھیجا گیا تاکہ ہم تقویٰ کی صفت پیدا کر سکیں۔۔۔ لیکن ہم نے فقط بھوکے پیاسے رہنے ہی کو روزہ سمجھ لیا۔ یہ ہم تک بھیجا گیا تاکہ قرآن پر عمل کرنے کے لیے اسے پڑھیں، سمجھیں اور دوسروں تک پہنچائیں۔۔۔ مگر ہم تو ختم قرآن تک ہی محدود رہ گئے۔ ہمیں اس عظیم ماہ سے نوازا گیا۔۔۔ مگر ہم نے اسے نت نئے پکوان کی نذر کر دیا۔ یہ ہم تک آیا۔۔۔ تاکہ ہم راتوں کو رو رو کر خود سے روٹھے ہوئے رب کو منا لیتے، معافیاں مانگ لیتے، مغفرت کروا لیتے، جہنم سے چھٹکارا پا لیتے۔۔۔۔ مگر ہم نے اسے بازاروں کے سپرد کر دیا کبھی افطاری کے لیے تو کبھی عید کی ڈھیروں تیاری کے لیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس ماہ میں صدقہ و خیرات جیسی موتیوں کے ذریعے اپنے نامۂ اعمال کو نیکیوں سے ایسے سجا لیتے جیسے اسکول اور کالج میں اپنے اسائنمنٹس اور پروجیکٹس کو سجایا کرتے تھے مگر۔۔۔۔ ہم نے اسے دکھاوے اور نام و نمود کا سامان بنادیا اور ریاکاری جیسے گناہ میں ڈبکیاں لگا بیٹھے۔
خدارا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ماہِ رمضاں تو آۓ مگر ہم نہ ہوں … درحقیقت رمضان نہیں۔۔۔ انسان ہے مہمان۔ رمضان کی عظمت سمجھ کر اور اسکی آمد پر خود کی موجودگی کو غنیمت جان کر ان خودساختہ رسموں سے کنارہ کریں اور خود کو پرہیزگاری کا جامعہ پہنا کر جہنم کی آگ سے چھٹکارا حاصل کریں۔ بےشک تقویٰ و پرہیزگاری ہی جہنم سے بچنے کے لیے بہترین ڈھال ہیں۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا