راشن بانٹو،فوٹوکھینچو!مگرشرم بھی کرو!

0
0

کروناکے قہرپہ قہربپاکرنے کیلئے ہندوستان لاک ڈائون ہے،زندگی تھم گئی ہے،غریب سرکارکی لاکھ کوششوں ودعوئوں کے باوجود چنددِنوں میں ہی فاقہ کشی پہ مجبورہوگیاہے،انتظامیہ گھرگھر راشن پہنچانے کی کوشش کررہی ہے،لیکن اتنی بڑی آبادی والے اس ملک میں یہ کہاں ممکن ہے اوروہ بھی لاک ڈائون کے چلتے کہ ہرگھرتک، ہردرپہ سرکاری راشن دستک دے، بات جموں وکشمیرکی کی جائے تو یہاں محکمہ عوامی رسدات وتقسیم کاری کاپھروہی پراناروناسنائی دے رہاہے جہاں راشن کارڈوں میں اغلاط،جہاںامیرکوغریب اور غریب کوامیربنادیاگیاہے اور اسی طرز پر راشن کی تقسیم کاری جاری ہے،کئی مقامات پر راشن ڈیلر زیادہ رقومات بٹوررہے ہیں اور ایک طرح سے سرکاری راشن کی کالابازاری کرکے صارفین کی مجبوری سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مشغول ہوگئے ہیں، جوانتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے، پولیس اس وقت میدان میں ہے اگر ایسے عناصرپرشکنجہ کسے تویقینایہ راشن مستحق صارفین تک پہنچ پائیگا،اِدھرجموں صوبہ میں شہروں میں غیرسرکاری رضاکارتنظیمیں ہوں یا سرکاری انتظامیہ، فوٹو نمائش میں خوب یقین رکھتے ہیں اور غریب کے ہاتھ میں پانچ کلو آتا، یا پانچ کلو چاو تھماکراس کیساتھ تصویر ضرورکھنچواتے ہیں تاکہ اس کی غربت کاسوشل میڈیاپرخوب مذاق بنے اور راشن دینے والے ہاتھوں کوخوب واہ واہی ملے، یہ کتنا شرمناک رجحان ہے کہ بناء دکھاوے کے آجکل کسی کوایک داناتک دیکرراضی نہیں،کئی محتاج،ضرورت مندوسفید پوش اپنی مجبوری میں ہی دفن ہوجاتے ہیں، وہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلاتک نہیں سکتے ، اگر پیٹ کی آگ بجھانے واپنے اہل وعیال کی فاقہ کشی کے سامنے مجبورہرکسی وہ ہیں کسی سے التجاکرہی لیں راشن کیلئے تواِس خوف سے وہ سامنے نہیں جاپاتے ہیں راشن دینے والے کم ذات اپنے ساتھ اس کی تصویر لیں گے، پھر ناجانے انٹرنیٹ پرکہاں کہاں میری بے بسی کامذاق بنے گا، لہٰذاوہ کم کھاتے ہیں،بھوکے پیٹ سوتے ہیں لیکن ایسی خودساختہ رضاکارتنظیموں کے کارندوں کے ہاتھوں راشن لینا گوارہ نہیں کرتے جن کے ہاتھ میں راشن کیساتھ ساتھ اپنے چیلے چاٹوں کوہاتھ موبائل تھامے ہوتے ہیں جو راشن دینے والے مغرور اور راشن لینے والے مجبور کی تصویر ایسے لیتے ہیں جیسے کسی کرکٹ مقابلے کافائنل جیت لیاہوا ور ٹرافی اانعامات بانٹے جارہے ہوں،مالکِ کائنات نے جنہیں راشن بانٹنے کی توفیق دی ہے انہیں پردے سے ضرورتمندوں کی مددکاہنربھی دیاہے،لہٰذازیادہ تر تصویری نمائش والی این جی اوز یقینا خوب بھکاریوں کی طرح ہوتی ہیں جو مشکل حالات کی منتظررہتی ہیں اور تھوڑی بہت تصویری نمائش کے بعد کئی سال تک اُن ہی تصاویرکے دم پر رقومات اینٹھتی وبھکاریوں کی طرح بڑے بڑے گھرانوں میں جھولی پھیلائے گھومتے ہیں، لہٰذا مددکرنے والے مددذرہ پردے سے کریں،غریب کے گھرراشن ایسے پہنچے کہ اُسے گھرکے اندرراشن پہنچنے کے بعد ہی معلوم ہو،اورکہاں سے آیایہ بھی اُسے علم نہ ہونے پائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا