ہزاروں بے یار و مددگار افراد کی کفالت کون کرے؟

0
0

از قلم۔خواجہ یوسف جمیل

چند ماہ قبل دنیا تیزگام گھوڑے کی رفتار چل رہی تھی۔وہیں ترقی یافتہ ممالک ترقی کی اس دہلیز پر پہنچ چکے تھے کہ انکا تکبر انہیں یہ بات کہنے پر مجبور کررہا تھا کہ اب اس دنیا کی حکومت انکے ہاتھوں میں آچکی ہے۔آئے دن نت نئے اوزار ایجاد کئے جارہے تھے ہر ملک دوسرے ملک پر سبقت حاصل کرنے میں شب و روز مصروف تھا۔وہیں دوسرے ممالک کے ساتھ برصغیر ہند و پاک میں بھی دونوں حکومتیں اپنے اپنے جزبات کا مظاہرہ کررہے تھے۔غریب افراد مظلومی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔اسلام مخالف منصوبے دن رات بنائے جارہے تھے اور یہ کوشش کی جارہی تھی کہ اسلام کا خاتمہ کیا جائے اور مسلمانوں کو جڑ سے ہی ختم کیا جائے۔اللہ کی زمین پر فتنے برپا ہورہے تھے۔کتاب اللہ کی بے حرمتی کی گئی مساجدوں کا مذاق اڑایا گیا۔وطن عزیز ہندوستان کی راجدھانی دھلی میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ نو زائد بچوں کو انکے والدین کے سامنے نظر آتش کیا گیا۔وہیں ہزاروں لوگ گھروں سے بے گھر ہوگئے۔پوری دنیا میں سنگ دل افراد نے اسلام کی توہین کی تو رب کعبہ نے ان مظلوم بے بس و لاچار لوگوں کی آہ پر لبیک کیا اور پوری دنیا کو ایک ایسی لاعلاج بیماری میں لپیٹ لیا کہ جس کے آگے تمام دنیا کے ٹھیکیدار گھٹنے ٹیک گئے۔لوگ مرغیوں کی طرح مرنے لگے اور پوری دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوگئی کہ اس دنیا کے نظام کو چلانے والی کوئی طاقت ہے کہ جس کی نگرانی میں دنیا کی ہر چیز ہے۔اس وقت پوری دنیا نے اس وبائی بیماری کے آگے ہاتھ کھڑے کرلئے ہیں۔کرونا وائرس کوویڈ 19 کی اس بیماری کے بعد تمام ممالک نے تحفظاتی اقدامات اٹھاتے ہوئے لاک ڈاون کا اعلان کردیا لیکن اسکے باوجود اموات کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔اور مزید لوگ اس بیماری کی پکڑ میں آتے جارہے ہیں۔ان حالات سے ہندوستان بھی بری طرح سے متاثر ہوچکا ہے۔وزیر اعظم ہند کی جانب سے ملک کی عوام کے تحفظ کے لئے لاک ڈاون کا اعلان کیا گیا ہے۔اور پولیس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ بخوبی طور پر اس حکم نامے پر عمل کررہی ہے۔اور زمینی سطح پر اس حکم کو فعال بنانے میں پیش پیش ہے۔لیکن اس ملک کے اندر ہزاروں کی تعداد میں ایسے لوگ زندگی بسر رہے ہیں جو دن کو کمائی کرکے شام کو اپنے اہل او ایال کا پیٹ بھرتے تھے۔اس کرونا وائرس نے ان لوگوں کے منہ سے گویا نوالہ چھین لیا ہو۔اب ایسا لگتا ہیکہ دنیا پر سکتہ تاری ہوگیا ہے۔اور دنیا کے بڑے سے بڑے دولت مند بھی حیران و پریشان ہیں کہ آخرکار یہ ہوکیا رہا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہورہا کہ ایسے حالات میں ان غریبی کے سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی کفالت کون کریگا۔سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری بنتی ہیکہ وہ بلا لحاظ مذھب و ملت غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے ضرورت مند لوگوں کی مدد کریں۔وہ سماجی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں گمشدہ گوشوں سےنکل کر ان لوگوں کی مدد کے لئے میدان میں آئیں۔ان حالات میں چند نام نہاد تنظیمیں آدھا کلو آٹا کسی غریب کو دیکر اسکا فوٹو کھینچ کر سماجی روابط پر شائع کردیتے ہیں اور ان غریبوں کے وقار اور عذت کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ہم سب کی ذمہ داری ہیکہ سماج میں پھیلنے والی اس برائی کے خاتمہ کے لئے آواز بلند کریں اور گھروں میں قید ہوئے بے بس و لاچار لوگوں کی مدد کے لئے ہم بلا کسی عداوت کے کھڑے ہوں۔وہیں اس وبائی بیماری سے بچنے کے لئے ضروری ہیکہ ہم حکومت کی جانب سے جاری کئےگئے احکامات پر سختی سے عمل کریں تاکہ اس وبائی بیماری کا جڑ سے خاتمہ ممکن ہوسکے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا