شائید زندگی اور زمین کو سکون چاہئے !

0
0

الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
کوروناوائرس جس کو عالمی وباء قرار دیاجاچکا ہے نے، اب تک 190سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اقوامِ عالم کے تمام بڑی شہروں جہاں صبح وشام کبھی ہوتی ہی نہیں تھی،چوبیس گھنٹے زندگی اپنی تیز رفتاری سے چلتی رہتی تھی، بھی تھم سی گئی ہے۔دنیا کے سبھی بڑے تجارتی وکاروباری مراکز، دفاتر، ثقافتی وتاریخی مقامات، سیر وتفریح کی جگہیں ویران ہیں۔سڑکوں، گلی، کوچے، بازار، چوراہے سنسان ہیں۔سماجی دوری بنائے رکھنے اور زیادہ سے زیادہ تنہائی اختیار کرنے پرزور دیاجارہاہے۔وہ مذہبی مقامات جہاں عوام کی آواہی جاہی پر پابندی عائد کرنا ناقابل ِ تصور سمجھا جاتا تھا، وہاں بھی احتیاطی طور بندشیں ہیں۔اِس وباء نے بلالحاظ مذہب وملت، رنگ ونسل، ذات پات، امیر وغریب، سفید وسیاہ، تعلیم یافتہ وبے روزگار،حکمراں اور عامہ ، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سبھی ممالک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو اِس سے متاثر نہ ہو۔ اس نے عمر ، جغرافیائی محل وقوع یا موسم کا بھی کوئی پاس لحاظ نہ رکھا ہے اور سبھی کے ساتھ برابری کا سلوک کیا ہے۔دنیا بھر میں فحاشیات کے اڈے بند ہوگئے ہیں،جسم فروشی کادھندہ چوپٹ ہوا ہے، انسانوں کی خریدوفروخت کاعمل رُک گیا ہے۔ظلم وستم، حق تلفی، نا انصافی، زیادتی،نفرت، تعصب، حقارت کا عمل رُک چکا ہے، ہر ایک اِس ’وائرس ‘کے خوف سے پریشان حال ہے،غریبوں سے زیادہ امیر جن کے پاس ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں، کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔سڑک کنارے رہنے والے شخص کو بھی اور محلوں میں رہنے والوں کو بھی پکڑا۔ چین جہاں سے شروع ہوئی اِس وباء نے ہرخاص وعام کو متاثر کیا ہے ، جہاں سڑک کنارے ہتھوڑی، چھینی، ڈرل مشین ، پینٹ برش لیکر آجر کا انتظار کرنے والے مزدوروں اور ہرچھوٹے بازارے کے کون پر بیٹھ کر موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کرتاتھا، کو روزی روٹی کے لالے پڑے ہیں، تو وہیںفائیو اسٹار ہوٹل وریستوران بھی تو بند ہیں۔ دنیا کے بڑے صنعتی شہر اور کارخانے بند ہیں جن سے یومیہ کروڑوں ٹن کاربن ڈائی ایکسائڈ اور زہریلی گیس کا اخراج ہوتا تھا، وہ مقفل ہیں جس کی وجہ سے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کرئہ ارض کاماحولیاتی توازن توازن کافی حد تک بہتر ہوا ہے، گلوبل وارمنگ کے اثرات میں تھوڑی کمی واقع ہوئی ہے۔انسان کو خالقِ کائنات نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیکر اِس دنیا پر بھیجنے کے ساتھ ساتھ اُس کی آسائش، دلجوئی وتفریح کے لئے ہر قسم کی سہولیات بھی دستیاب رکھیں تاکہ وہ اِن سے مستفید ہوکر ربِ العزت کا شکر بجا لائے لیکن اِس کرئہ ارض کو تعمیر وترقی کے نام پر سب سے زیادہ نقصان انسان نے ہی پہنچایا ہے۔اِس دنیا بھی حیاتیات ونباتات میں کوئی بھی ایسی شے نہیں جس کو خالقِ کائنات نے بغیر کسی مقصد کے پیدا کیا یا بنایا ہے لیکن بہت ساری حیاتیات ونباتات ’بنی نوع ‘کی کارستانی کی وجہ سے مٹ چکی ہیں یا پھر خاتمے کے دہانے پر ہیں۔ آسمان سے بھی زیادہ خواہشات رکھنے والے اِس انسان نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑی، یہی وجہ ہے کہ آج حالت یہ پہنچ چکی ہے کہ متعدد ماہرین ماحولیات کا یہ کہنا ہے کہ اگرایک ماہ کے لئے ’دنیا سے انسان ‘ختم ہوجائے تو سارا کچھ اپنے آپ ٹھیک ہوجائیگا اور پھر سے کرئہ ارض اپناتوازن برقرار کر لے گی۔انسان کتنا ہی خود کو افلاطون سمجھ لے، وہ ترقی ، تخلیق وایجادات کی کتنی ہی منازل طے کر لے، پر اُس کی ایک حد متعین ہے جس کو وہ پار تو کرنا دو اِس کے نزدیک جانے کا بھی سوچ نہیں سکتا۔اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی یاگھمان رہے گا تو پھر نتائج بھیانک ہی ہوسکتے ہیں۔ایک معمولی ’وائرس ‘جس سے کووڈ۔19رکھاگیا ہے، نے انسان کی ساری عقل کو دھنگ کر دیا ہے، سائنسدان، ماہرین معالجین، محققین سب پریشانِ حال ہیں کہ یہ کیا ہے اور اِس پر قابو کیسے پایاجائے، ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں انسان اِس کا علاج نکال لے جس کا قوی امکان ہے، مگر یہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ انسان ’تخلیق کار ‘کو چیلنج کرنے کی کوشش نہ کرئے اور نہ ہی اپنے مفادات کے لئے حیاتیات ونباتات کوزِک پہنچائے۔دنیا کی تیز رفتاری، بھاگ ڈور کی وجہ سے انسان کہیں اپنے احساسات، جذبات، رشتے ، تعلقات کو بھلا چکا تھا، ہم ایک گھر میں بھی ہوکر ہم خیالات اور سوچ سے ایکدوسرے سے بہت دور ہوگئے تھے۔جموں وکشمیر میں تو 5اگست2019کے فیصلے کے بعد کئی ماہ تک بندوشوں، پابندیوں اور انٹرنیٹ خدمات بند کر کے کافی حد تک یہاں کی عوام کو تو اپنوں سے قربت کا احساس ہوگیا لیکن خالقِ کائنات کو شاہید پوری دنیا کو ہی ایسا احساس دلانا مقصود ہے۔ شاہید بنی نوع کے کارناموں سے تنگ آچکی دھرتی کی دکھی آواز کو اللہ پاک نے سُن لیا۔سنگ دل انسان کی کارستانیوں، غلم وستم، حق تلفی، زیادتیوں کی وجہ سے تنگ آچکی ’زمین اور زندگی ‘کو شاہید سکون چاہئے تھا!۔اللہ تباک وتعالیٰ نے احساس دلایا ہے کہ وہ چاہے تو پل بھر میں سب کچھ بدل سکتا ہے جس سے انسان کی عقل دھنگ رہ سکتی ہے۔
بقول شاعر مظفر وارثی
کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے ، نظر بھی جو آرہا ہے وہی خدا ہے
وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب ، سفر کریں سب اْسی کی جانب
ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے ، وہی خدا ہے
نظر بھی رکھے ،سماعتیں بھی ، وہ جان لیتا ہے نیتیں بھی
جو خانہء لاشعور میں جگمگا رہا ہے ، وہی خدا ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
[email protected]
نوٹ:کالم نویس روزنامہ اُڑان کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور وکیل ہیں!

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا