ریاض فردوسی۔ 9968012976
اللہ تعالیٰ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اورنہ تمہیں گھروں سے نکال کرلائے کہ تم اُن سے نیکی کرو اورتم اُن کے ساتھ انصاف کرواللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے یقیناًمحبت رکھتا ہے۔درحقیقت اللہ تعالیٰ تمہیں صرف اُن سے منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے بارے میں تم سے جنگ کی اورتمہیں تمہارے گھروں سے نکالاہے اورتمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی یہ کہ تم اُن سے دوستی کرو اورجو اُن سے دوستی کریں تووہی لوگ ظالم ہیں۔(سورہ ممتحنہ۔پارہ۔28۔آیت۔8۔9)
جو غیر مسلم مسلمانوں سے نہ جنگ کرتے ہیں،نہ ان ظالموں کا ساتھ دیتے ہیں جو ہمیں ملک سے نکالنا چاہتے ہیں، اور نہ ہمیں کوئی تکلیف دیتے ہیں، ہم پر فرض ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا برتاو ٔاور نیکی کا سلوک کریں، یہ اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے،ہر ایک کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرنا قانون الہیہ کی رو سے فرض ہے۔جو شخص یا تنظیم ہمہارے ساتھ عداوت نہیں برتتے انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی ان کے ساتھ عداوت نہ برتے۔ہمیں ان لوگوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا حق ہے جنہوں نے ایمان لانے کی پاداش میں ہم پر ظلم توڑے اور ہم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کیا یا ایسے ماحول تیار کی، یا ایسے ظالموں کا ساتھ دیا۔ مگر ان نیک غیر مسلموں نے اس ظلم میں کوئی حصہ نہیں لیا،نہ ان کا ساتھ دیا،اس کے بر عکس انہوں نے ہمارا ساتھ دیا،ہم انصاف یہ ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔انسانیت کے لحاظ سے ان کے جو حقوق ہم پر عائد ہیں انہیں ادا کرنے میں کمی نہ کریں۔
حضرت عمر بن خطابؓ خلافت سنبھالنے کے بعد بیت المال میں آئے تو لوگوں سے پوچھا کہ حضرت ابوبکر ؓ کیا کیا کرتے تھے، تو لوگوں نے بتایا کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر کھانے کا تھوڑا سا سامان لے کر ایک طرف کو نکل جایا کرتے تھے۔آپ ؓنے پوچھا کہ کہاں جاتے تھے،لوگوں نے بتایا کہ یہ نہیں پتہ بس اس طرف کو نکل جاتے تھے۔
آپؓ نے کھانے کا سامان لیا اور اس طرف کو نکل گے لوگوں سے پوچھتے ہوئے کہ حضرت ابوبکر ؓ کس جگہ جاتے تھے پتہ چلتے چلتے ایک جھونپڑی تک پہنچ گئے وہاں جا کر دیکھا کہ ایک بوڑھا آدمی دونوں آنکھوں سے آندھا ہے اور اسکے منہ پر پھالکے بنے ہوئے ہیں اس نے جب کسی کے آنے کی آواز سنی تو بڑے غصے میں بولا کہ پچھلے تین دن سے کہاں چلے گئے تھے تم؟
آپؓ خاموش رہے اور اس کو کھانا کھلانا شروع کیا تو اس نے غصے سے کہا کہ، کیا بات ہے ایک تو تین دن بعد آئے ہو اور کھانا کھلانے کا طریقہ بھی بھول گئے ہو؟
آپؓ نے جب یہ سنا تو رونے لگے اور اسے بتایا کہ، میں عمرؓ ہوں اور وہ جو آپ کو کھانا کھلاتے تھے، وہ مسلمانوں کے خلیفہ ابوبکر ؓ تھے، اور وہ وفات پا چکے ہیں۔جب اس بوڑھے نے یہ بات سنی تو کھڑا ہو گیا اور کہا کہ، اے عمر ؓمجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیں۔ پچھلے دو سال سے وہ آدمی روز میرے پاس آتا اور کھانا کھلاتا رہا، ایک دن بھی اس نے مجھے نہیں بتایا کہ میں کون ہوں؟
آر ایس ایس کے قیام سے لے کر آج تک اس کی تمام سرگرمیاں برہمنوں کے اقتدار والے ہندوستان ہی پر گردش کرتی رہی ہیں۔ آر ایس ایس کا بنیادی مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنا ہے تاکہ زندگی کے سبھی میدانوں میں ہندوتوا کا بول بالا ہواور یہاں کی اقلیتیں یا تو ہندوتو اکے آگے ہتھیار ڈال دیں ،یا پھر دوئم درجے کے شہریوں جیسی ذلت آمیز زندگی قبول کرلیں،یا مرتد ہوجائیں ۔جیسا ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ تیسری صدی سے لے کر پانچویں صدی تک شمالی ہند میں گپتا خاندان کی حکومت تھی۔ اس دور کو ہند کا ایک سنہرا دور کہا جاتا ہے۔
گپتا سلطنت بُدھ کے زمانے کے اختتام پر مگدھ میں اس خاندان کی حکومت ہوئی جو گپت کے نام سے مشہور ہے 300ء سے 600ء تک تین سو برس کے قریب اس کا دور رہا۔ اس خاندان کے دو راجا بہت مشہور ہوئے ہیں: ایک سمدر گپت اور دوسرا چندرگپت بکرماجیت۔ اس چندر گپت کے ساتھ بکرماجیت کا لقب اس لیے شامل کیا گیا تھا کہ اس میں اور چندر گپت موریا میں فرق ہو سکے۔
گپتا دور میں مذہبی اصولوں میں تھا کہ جو گائے کا گوشت کھائے گا وہ دلِت ہے۔ گپت دور میں مانوسمرتی میں درج باتوں کا بول بالا تھا۔جسے ہندو قوانین کا سب سے اہم ماخذ سمجھا جاتا ہے، ذات پات کے نظام کو سوسائٹی میں تنظیم اور ترتیب کی بنیاد پر تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے حق میں دلائل دیئے گئے ہیں۔ذات پات کا نظام ہندوؤں کو برہمن، شتری، ویش اور شودر کے نام سے چار کیٹیگریوں میں تقسیم کرتا ہے۔ مانوسمرتی کے مطابق اس تقسیم کا ماخذ تخلیق سے متعلقہ ہندو دیوتا براہما ہے۔
اس طبقاتی تقسیم میں سب سے اوپر براہمن آتے ہیں جن کا کام تعلیم تربیت اور دماغی کاموں کی انجام دہی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برہما کے سر سے وجود میں آئے ہیں،اور سب سے مقدس ہیں،اور انہیں ہی صرف حکومت کرنے کا حق ہے۔باقی سب ان کے غلام ہیں۔وہ پاک اور طاہر ہیں۔ان کی باتوں کوماننا سب پر فرض ہے۔ان کے خلاف کچھ بھی کہنا گناہِ عظیم ہے۔
اس کے بعد شتریوں کا درجہ آتا ہے جو پیشہ کے لحاظ سے حکمران اور سپاہ گری سے متعلق ہیں اور وہ براہما کے بازوؤں سے وجود میں آئے ہیں،اور یہ برہمنوں کے معاون ہیں۔برہمنوں کی ہر بات ماننا ان پر فرض ہے۔تیسرے نمبر پر ویش ہیں جو تجارت پیشہ ہیں اور براہما کی رانوں سے وجود میں آئے ہیں۔ان کا کام برہمنوں کو معاشی مدد پہچانا ہے۔یہ کسی طرح کسی بھی حالت میں برہمن دیوتا کو ناراض نہیں کر سکتے ہیں۔
سب سے آخر میں شودروں کا نمبر آتا ہے جو براہما کے پیروں سے بنے ہیں اور وہ ہاتھوں سے کرنے والے کام اختیار کرتے ہیں۔برہمن اور سب اونچی برادری کے لوگ جس طرح چاہیں ان کا ان کی بیٹی،بہو،بی بی اور سب عورتوں اور مردوں کا استعمال کرسکتے ہیں۔حتّیٰ کہ جب کسی دلت بھائی کی شادی ہوتی تو اس کی نئی نویلی دلہن کو پہلے اونچی برادری کے لوگ اپنی جسمانی ضرورت پورا کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے اس کے بعد وہ نئی دلھن اس دلت بھائی کے گھر میں جاتی تھی۔سالوں ایسا ہوتا رہا۔گپتا حکومت کے خاتمے کے بعد بھی دلت بھائیوں پر یہ ظلم ہوتا رہا۔
گپت دور میں اونچی ذات کے ہندوؤں کی جانب سے گائے کی کھال اتارنے کی پاداش میں دلتوں کو بنا کپڑوں کے پورے شہر میں گھما کر سرعام کوڑے مارے جاتے تھے۔ان کی عورتوں کو اوپر کا شرم گاہ ڈکھنے کی اجازت نہیں تھی۔اگر غلطی سے دلت لوگ وید کے شلوک سن لیتے تو ان کی کانوں میں گرم شیشہ پگھلا کر ڈال دیا جاتا تھا۔دلتوں کی بچیاں مندروں کی کی سیوا میں لگی رہتی تھی۔ان کو دیوداسی کہا جاتا تھا۔ان سے مندر کے پجاری اور آشرم کے دیکھ ریکھ کرنے والے اپنی جسمانی ضرورتیں پوری کرتے تھے۔بعد میں وہی بچیاں اونچی ذاتوں کے لوگوں کے دل بہلانے کے کام آتی تھی،اور جب ان کے جوانی کی چمک پھیکی پرجاتی توانہیں جسم فروشی کے ناپاک کاروبار میں جبراََ داخل کرادیا جاتا تھا۔ اگر کوئی اونچی ذات کا لڑکا کسی دلت بچی کے ساتھ جبراََ زنا کرتا تھا، اس کی عزت کو تار تار کرتا تھا،تب وہ دلت اپنی شکایت لے کرگاؤں یا شہر کے ذمے دار یا کوتوال کے پاس پہنچتا تھا،تو انصاف کی شکل میں صرف اونچی ذات کے لڑکے کو ڈانٹ پھٹکار اور چند بوریا اناج کی اس دلت کو دی جاتی تھی۔جس کی بچی یا بہن کی عزت کو اونچی ذات کے لڑکے نے تار تار کر دیا تھا۔یہ ان کی عزت کا معاوضہ ہوتا تھا۔
اچھوت سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں چھونا تک برا خیال کیا جاتا ہو۔ یہ لوگ اپنے معاشرے میں کم تر خیال کیے جاتے ہیں نیز ان کی معاشی حالت بھی انتہائی ناگفتہ ہوتی ہے۔یہ لفظ دلتوں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔منو سمرتی کے مطابق شودر (اور اچھوت) برہمن کے پاؤں سے پیدا ہوئے لہٰذا وہ ذلیل ترین ذات ہے۔شودر کتنا ہی ذہین اور باصلاحیت ہو، وہ دولت و جائداد جمع نہیں کر سکتا۔شودر پر تعلیم حاصل کرنے کی ممانعت ہے۔براہمن چاہے، تو وہ شودر سے رقم چھین سکتا ہے۔ برطانوی دور میں انگریزوں نے دلتوں کی بہبود کے لیے انھیں الگ سے انتخابات لڑنے کا موقع دیا جس کی گاندھی جی نے مخالفت کی۔ بعد میں انھوں نے چند دلت سماجی کارکنوں سے معاہدہ کیا جسے پونا معاہدہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
آج بھی ہندوستان کی دلت خواتین صرف زبانی زیادتی، جسمانی زیادتی، جنسی ہراسانی اور حملہ، گھریلو تشدد اور عصمت دری کی شکار ہیں۔دلت مزدوروں کا استعمال اور ناجائز استعمال کئی پیشوں کے اندر عام ہے۔ دلت کے بچوں کو خاص طور پر ہر اعتبار سے کمزور کیاجاتاہے۔نوجوان دلت لڑکیوں کو مندروں میں منظم طور پر جنسی زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اونچی ذات کے مردوں کے جسمانی ضرورتیں پوری کرنے کے کام آتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں 1.3 ملین دلت غیر قانونی، غیر انسانی اور غیرقانونی طور پر غلاظت اٹھانے کے طریق کار سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے اعلان کیا کہ میں ہندو تو پیدا ہوگیا لیکن ہندو بن کر نہیں مروں گا، اور میں اسلام یا عیسائیت کو اپنا لوں گا،اس پر گاندھی جی نے اُنہیں روک لیا، جس کا آج تک مسلمانوں کو افسوس ہے، کہ اگر گاندھی نے روکا نہ ہوتا تو آج پوری دلت قوم مسلمان ہو چکی ہوتی، لیکن کیا جب اُنہوں نے یہ اعلان کیا تو کسی مسلمان نے آگے بڑھ کر اُنہیں گلے لگانے کی زحمت گوارہ کی؟
اے لوگو!یقیناہم نے تمہیں ایک مرد اورایک عورت سے پیداکیااورہم نے تمہیں قومیں اوربرادریاں بنادیاتاکہ تم ایک دوسرے کوپہچان لو، یقیناًاللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارا سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جوسب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہے، یقینااللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا،پوری طرح خبر رکھنے والاہے۔(سورہ۔الحجرات۔آیت۔13)
اس آیت میں پوری نوع انسانی کو خطاب کر کے اس عظیم گمراہی کی نشاندہی کی گئی ہے ،جو دنیا میں ہمیشہ عالمگیر فساد کی موجب بنی رہی ہے، یعنی نسل، رنگ، زبان، وطن اور قومیت کا تعصب قدیم ترین زمانے سے آج تک ہر دور میں انسان بالعموم انسانیت کو نظر انداز کر کے اپنے گرد کچھ چھوٹے چھوٹے دائرے کھینچتا رہا ہے جن کے اندر پیدا ہونے والوں کو اس نے اپنا، اور باہر پیدا ہونے والوں کو غیر قرار دیا ہے۔
یہ دائرے کسی عقلی اور اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقی پیدائش کی بنیاد پر کھنچے گئے ہیں ۔ کہیں ان کی بنا ایک خاندان، قبیلے یا نسل میں پیدا ہونا ہے، اور کہیں ایک جغرافی خطے میں یا ایک خاص رنگ والی یا ایک خاص زبان بولنے والی قوم میں پیدا ہو جانا۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی ہے وہ صرف اس حد تک محدود نہیں رہی ہے کہ جنہیں اس لحاظ سے اپنا قرار دیا گیا ہو کہ ان کے ساتھ غیروں کی بہ نسبت زیادہ محبت اور زیادہ تعاون ہو، بلکہ اس تمیز نے نفرت، عداوت، تحقیر و تذلیل اور ظلم و ستم کی بد ترین شکلیں اختیار کی ہیں ۔ اس کے لیے فلسفے گھڑے گئے ہیں ۔ مذہب ایجاد کیے گئے ہیں ۔ قوانین بنائے گئے ہیں ۔ اخلاقی اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ قوموں اور سلطنتوں نے اس کو اپنا مستقل مسلک بنا کر صدیوں اس پر عمل در آمد کیا ہے۔ یہودیوں نے اسی بنا پر بنی اسرائیل کو اللہ کی پسندیدہ قوم ٹھرایا اور اپنے مذہبی احکام تک میں غیر اسرائیلیوں کے حقوق اور مرتبے کو بنی اسرائیلیوں سے کمتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں ورن آشرم کو اسی تمیز نے جنم دیا جس کی رو سے برہمنوں کی برتری قائم کی گئی، اونچی ذات والوں کے مقابلے میں تمام انسان نیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے، اور شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو ظلم ڈھائے ان کو تاریخ کے صفحات میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔آرایس ایس ہماری حالت دلتوں کی طرح کرنا چاہتی ہے۔یا تو مرتد ہو جائو یا ذلت آمیز زندگی بسر کرو۔آر ایس ایس کے برہمن حکومت کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم ہیں۔وہ ہماری شناخت ہی ختم کردینا چاہتی ہے۔ہمیں دوئم درجے کا شہری بنا دینا چاہتی ہے۔ہندتو منو سمرتی لاگو کرنا چاہتی ہے۔اس لئے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی ضابطۂ حیات نہیں ہے۔صرف مسلمانوں کے پاس ہی پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کیسے بسر کریں ،کیا کیا حقوق ہم پر عائد ہیں ،کس طرح ہمیں غیرمسلموں کے ساتھ رہنا ہے،پڑوسی کا کیاحق ہم پر ہے، اور دنیاوی زندگی گزارنے کاہر طریقہ موجود ہے۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ دنیا کی چند دن کی آرام کی زندگی چاہیے یا آخرت کی ہمیشہ باقی رہنے والی اطمینان والی زندگی؟