فریدہ انجم، پٹنہ ( اندیا)
رابطہ:۔7739032672
شوکت محمود شوکتؔ صاحب کا تعلق ہند و پاک کے ان شعرا میں سے ہے جو کسی تعارف وتعریف کے محتاج نہیں ،’’ تعریف کے محتاج کے الفاظ میں نے آپ کے لیے دانستہ استمعال کیے ہیں کیوں کہ آپ ( اتنے بڑے تخلیق کار ہوتے ہوئے) نے کبھی ستائش اور صلے کی پروا نہیں کی، حال آں کہ آپ کی آفاقی شخصیت دنیائے اردو ادب کے افق پر نہایت ہی آب و تاب کے ساتھ جگمگا رہی ہے ،یہی وجہ ہے کہ دبستان اٹک کے ممتاز شعرا میں شوکت محمود شوکتؔ صاحب کا نام سر فہرست ہے ،آپ نے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا ایک مخصوص رنگ جمایا ہے، جہاں تک آپ کی اردو شاعری کا تعلق ہے تو اس میں بھی آپ کا اپنا ایک خاص اسلوب اور منفرد رنگ ہے۔
ؔ آپ نہ صرف شاعر ، محقیق،ادیب، استاذِزبان و ادب اردو اور ماہر قانون ہیں بلکہ کئی زبانوں پر دسترس بھی رکھتے ہیںآپ فارسی اور پشتو جیسی ادق زبانوں میں بھی شاعری کرتے ہیں ۔آپ کا کلامِ ِ فارسی بھی ویسے ہی ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے جیسا کہ سعدی شیرازیؔ کا فارسی کلامِ ۔۔۔۔۔ آپ کا ایک فارسی شعر اس وقت حریمِ ذہن میں گردش کر رہا ہے۔جو آپ کے دوسرے شعری مجموعے ’’ رقص شرر‘‘ میں شامل ہے،شعر ملاحظہ فرمائیں :۔
فگن روزے بہ قلبِ طورِ نا شادم تجلی را
بیا اے جلوئہ جاناں کہ من تابِ نظر درم
۔۔۔
اس کے علاوہ، آپ کی علمی و ادبی خدمات پر تحقیق بھی ہورہی ہے ،آپ کی مزکورہ بالا شعری کتاب ’’ رقصِ شرر ‘‘پر ،جی۔سی۔یونیور سٹی ، لاہور نے اپنے ایک طالب علم سے، ایم اے(اردو)کا مقالہ ۲۰۱۷ع میں مکمل کرایا ،نیز ناردرن یونیورسٹی،نوشہرہ نے ’’شوکت محمود شوکتؔ کی شعری جہات‘‘پر ایم فل(اردو)کا مقالہ اپنے طالب علم سے تحریر کروایا۔آپ اردو غزلیات اور منظومات کے علاوہ نعتیہ شاعری میں بھی اپنا ایک مخصوص مقام رکھتے ہیں،اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ،محمد ﷺ سے آپ کو انتہا درجے کا عشق ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کی پہلی شعری کتاب’’زخم خنداں‘‘ کا انتساب حضوراکر م ﷺ کے نامِ گرامی کے نام ہے جب کہ آپ کی دوسری کتاب ’’ رقصِ شرر‘‘ کا انتساب اللہ تعالی کے نام ہے، جب کہ آپ کی تیسری کتاب (معراجِ سخن)،جو کہ نعتیہ شاعری پر مشتمل ہے، کا پہلا انتساب ،اللہ تعالی اور دوسرا انتساب حضوراکرم ﷺکے نامِ مبارک کے نام ہے۔
آپ کی آفاقی شخصیت پر میں نے جب خامہ فرسائی کا ارادہ کیا تو میرے دل نے کہا کہ آپ کے کسی ایک زبان کی صنفِ سخن کو موضوع بنانا ذیادہ اچھا ہوگا اور یوں بلا انتخاب آپ کی اردو ٖغزلیہ شاعری کا باالاستیعاب مطالعہ کیا،وہ اس لیے کہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے یعنی غزل کے بغیر اردو شاعری کا تصور نہیںکیا جاسکتا ، غزل کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس نے زندگی کے ہر موضوع کو نہ صرف یہ اپنے اندر سمویا ہے بلکہ ہرموضوع کی خاطر خواہ پذیرائی بھی کی ہے۔ مذہب،سیاست،عشق،جنگ،معاشرہ،داخلی اور خارجی مسائل غرض کہ غزل نے سب کے لیے اپنے ایوان کے دروازے کھولے ہیں،۔۔۔۔ جیسا کہ مقالہ ہذا میں شوکتؔ صاحب کی اردو غزلیہ شاعری کا اجمالی پیش کرنے کی ایک سعی کی گئی ہے لہذا اس مقالے میں آپ کی اردو غزلیہ شاعری کی کچھ جہتیں بیان کی جائیں گی۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کی سخن طرازی پر وہ قدرت کاملہ عطا فرمائی ہے جسے دیکھ کر جی اش اش کر اٹھتا ہے کہ اپنے محسوسات تجربات ،مشاہدات ،اور واردات قلبی کے اظہار کے وسیلے سے جس صنف کو باتھ لگاتے ہیں اسے ایک نئی آب و تاب اور نیا رخ دیتے ہیں،ایسے اشعار جن میں عشق کا بیان ایسے لفضوں میں کیا گیا ہے یا جو محبت کے مفاہیم پر حاوی ہوں یا محض عشق روحانی ، عشق الہی یار عشقِ رسولٌ پر محمول ہوسکیں ،اور جن کا مطلوب و مقصود مرد یا عورت کی ذات مطلق نہ ہو،ایسی ، غزل کے چنداشعار بطور نمونے دیکھیے :۔
؎شوکت ترے جنون کی شدت نہیں گئی
کرتا ہے آج بھی جوتمنائے دار ،دل
۔۔۔
؎تمہارے بعد کسی کو نہ آج تک چاہا
تمہارے بعد نظر میں جچا نہیں کوئی
زبان و قلب سے کہتا ہوں لاشریک لہ‘
مرا یقین ہے تیرے سوا نہیں کوئی
۔۔۔
؎ہے کام انہیں جگ میں فقط عشق و وفا سے
دل ان کے صفا ایسے کہ رکھتے ہی نہیں کد
کیا سمجھے خرد رمز بھلا عشق و جنوں کی
جو وادئی ادراک میں رہتی ہے مقید
۔۔۔
؎تری تمنا جو قلبِ حزیں نہیں کرتا
تو زہرِ زیست کو پھر انگبیںنہیں کرتا
تمہاری بات جدا ہے وگرنہ وحشی دل
کسی بھی در پہ خمیدہ جبیں نہیں کرتا
۔۔۔
؎سینے میں کس لیے نہ ہو پھر بے قرار دل
ناکام حسرتوں کا ہے جب اک مزار دل
اس بے وفا جہان سے مانگے ہے پیار دل
کتنا ہے سادہ لوح مرا غم گسار دل
شاید اسی کا نام ہے معراج عاشقی
دل پر ہیں وہ نثار اور ان پر نثار دل
۔۔۔
اگر دیکھا جائے تو کائنات کے ہر ذی روح کا دل جذبئہ محبت سے خالی نہیں ہے ،یہی وجہ ہے کہ محبت جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو عشق کہلاتی ہے یعنی عشق اور تعشق وہ جذبے ہیں جن کا نتیجہ غزل کے طور پر سامنے آتا ہے، ہر شاعر اپنے عہدکا نمائندہ ہوتا ہے اس لیے ہر شاعر اپنے اپنے عہد میں جو دیکھا اور سمجھا ہے اسے شعری پیرہن پہنا دیتا ہے، یہ وہ فن ہے جس میں شاعر ہر زخم کو بھی پھول بنا کر پیش کرنے کاہنر جانتا ہے ،شوکتؔ صاحب کے درج ذیل اشعاردیکھیے :۔
؎داغ دل کے کبھی دیکھا مجھ کو
رونے والے ذرا رلا مجھ کو
مجھ کو اپنی سمجھ نہیں آتی
کون سمجھے گا پھر بھلا مجھ کو
۔۔۔
؎دل وحشی تلا ہے ان دنوں مجھ کو مٹانے پر
کہ جس کو بھولناچاہوں،اسی کو یاد کرتا ہے
اگر جذبے ہوں صادق اور شوکت ؔ عشق سچاہو
تو پھر کارِنمایاںتیشئہ فرہاد کرتا ہے
۔۔۔
؎اے ساکنانِ شہرِ محبت خدا گواہ!
قاتل سے بھی خیالِ عداوت نہیں مجھے
۔۔۔
شوکتؔ صاحب غزل کے مزاج کو خوب پہچانتے ہیں غزل کی نزاکت سے بہ خوبی واقف ہیں، حسن کیا ہے ؟عشق کیا ہے ؟ مزاج عاشقی ہی داستانِ حسن و عشق میں رنگ آمیزی کی بنیاد ہے ۔اس حوالے سے آپ اپنے تجربات یوں بیان کرتے ہیں :۔
؎دن ڈھلا ،شام ہوئی،شام ڈھلی رات ہوئی
زندگی صرف تمنائے ملاقات ہوئی
دل بھی حسنِ رخِ زیبا کا طلب گار ہوا
میں کہ جس بات سے ڈرتا تھا، وہی بات ہوئی
۔۔۔
؎لیتا ہے دلِ ناداں، پھر نام محبت کا
معلوم نہیں ہے کیا، انجام محبت کا
گلیوں سے تری گرچہ، گزرے ہیں بہت بچ کے
ہم پہ بھی مگر آیا، الزام محبت کا
ہم قیس کی صورت ہیں، فرہاد کے پیرو ہیں
ہم لوگ تو کرتے ہیں، بس کام محبت کا
۔۔۔
؎کس سادگی سے آپ نے گھائل کیا ہمیں
نظر یں ملا کے پیار سے اک بار دیکھ کر
۔۔۔
ہے کسی کی یاد ہی پنہا اسی میں، اس لیے
میں اگر سو جائوں بھی تو رات بھر جاگے گا دل
۔۔۔
شوکتؔ صاحب ،طوافِ کوچئہ جاناں کو بھی عبث خیال نہیں کرتے بل کہ آپ اس مٹر گشت سے ایک مخصوص قسم کا حظ اٹھاتے ہیں، دراصل آپ ’’ وحدت الشہود ‘‘ کے قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ساری کائنات میں ہر طرف اللہ تعالیٰ ہی کے جلوے موجود ہیں، اس لیے ’’ طوافِ کوچئہ جاناں ‘‘ عبث نہیں ۔ اس حوالے سے آپ یوں کہتے ہیں:۔
؎اس حسن بے مثال کے جلوے ہیں چار سو
اس واسطے یہ دیدہء حیراں ،عبث نہیں
کرتا ہے انبساط و مسرت کشیددل
شوکت ؔ ! طوافِ کوچہ ء جاناں ، عبث نہیں
۔۔۔
شاعر ،چوںکہ معاشرے ہی کا پروردہ اور پرداختہ ہوتا ہے، گویا وہ ایک ایسا سماجی ذی روح ہوتا ہے جو زمانے کی گردش اور حالات و واقعات سے آنکھیں بند کر کے نہیں گزر سکتا ، شوکتؔ صاحب بھی اسی معاشرے کا فرد ہیں اسی لیے آپ کی غزلیہ شاعری میں بھی معاشرتی مسائل کا در آنا ایک فطری امر ہے، شوکت صاحب کہتے ہیں:۔
؎یہ حالِ انساں خراب کیوں ہے
زمیں پہ اتنا عذاب کیوں ہے
۔۔۔
؎ہوں گی ہمارے شہر سے کب ختم نفرتیں
ہونٹوں پہ یہ سوال لیے ، جی رہا ہوں میں
۔۔۔
؎غموں کے، درد کے، موسم ہزار ہا دیکھے
سکون و چین کی شوکتؔ فضا نہیں دیکھی
۔۔۔
؎عمر بھر کرتے رہے ماتم کسی کے ہجر میں
شاعری کیا؟ درحقیقت نوحہ خوانی ہو گئی
جب کسی شے کو میسر ہی نہیں شوکتؔ، ثبات
غم کی دولت کس لیے پھر جاودانی ہو گئی
۔۔۔
؎بن گئے جب سے مقدر یہ دھماکے شہر کے
تب سے یہ بچے مرے ہتھیار کی باتیں کریں
کاش ایسا ہو سکے ،شوکتؔ کہ یہ اہلِ جہاں
رنجشیں ساری بھلا دیں، پیار کی باتیں کریں
۔۔۔
ان دنوں کشمیر میں جو حالاتِ ناگفتہ بہ ہیں، ان سے کوئی بھی صاحب ِ عقل ،صاحبِ علم اور ذی شعور چشم پوشی نہیں کر سکتا، عالمی سطح پر کشمیر کا معاملہ ہرفورم اور ہر جگہ پر زیرِ بحث رہتا ہے ، شوکتؔ صاحب چوں کہ ایک حساس دل رکھنے والا صاحب ِعلم اور صاحبِ نظر شاعر اور دانش ور ہیں ، آپ اس حوالے سے یوں رقم طراز ہیں :۔
؎کہسار پھر لہو سے ہیں ، رنگین آج کل
مقتل بنا ہے پھر مرا کشمیر ان دنوں
۔۔۔
؎خوش ہے جو کاشمر کے جلنے پر
اس کو اپنا مشیر کیسے کہوں
ظلم ہوتا ہے جس جگہ شوکتؔ
اس کو جنت نظیر کیسے کہوں
۔۔۔
؎خون بہتا ہے جب نہتوں کو
ہوک اٹھتی ہے بے طرح دل میں
چین مجھ کو ملے تو کیا شوکتؔ
کاشمر ہے مرا جو مشکل میں
الغرض ،شوکتؔ صاحب کی غزلیہ شاعری میں روایتی عشق و محبت، مینا و بلبل،بادہ و کاکل اور ہجر و فراق کے عناصر نہ ہونے کے برابر ملتے ہیں ، جب کہ آپ کی غزلیہ شاعری میں حقیقت پسندی، مقصدیت، معاشری مسائل کی عکاسی،دیگر سماجی مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل جیسے، تلازمئہ حیات نمایاں اور اہم ہیں ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی ،شوکتؔ صاحب کے علمی بصیرت و بینش میں مزید اضافہ فرمائے۔اللھم زدفزد
ؤؤؤ
؎ؔ
ٔ ؐؐ