اِس خاموش قتل کا قاتل کون۔۔۔؟

0
0

 

شگفتہ خالدی
دختر کشی کا رجحان دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا ہے۔ آئے روز اخباروں میں دختر کشی کی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ جو قابل افسوس بات ہے۔ دختر کشی کا رجحان مغربی ممالک میں عام ہیں لیکن اب دختر کشی کی جڑ وادیٔ کشمیر میں بھی پھیلنے لگی اور جو اس کام کو انجام دیتے ہیں وہ کسی قاتل سے کم نہیں۔
اسلام سے قبل یعنی دور جہالت میں دنیا میں ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی انسانیت کو خوفناک تمدنی بحران پیش تھا اور کوی راہ نجات نہ تھی یہاں تک کہ لڑکیوں کی ولادت ہوتے ہی موت کی تاریکی میں ڈال دیا جاتا تھا بعض اوقات لڑکیوں کو جنم دیتے ہی یا لڑکیاں جب دس سال یا اس سے کم عمر کی ہو جاتی تھی تو انہیں ان کے والدین قتل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے لیکن قرآن اورحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے جہالت کا وہ دور اختتام کو پہنچا اس طرح آپ ﷺ کی سیرت پاک قیامت تک تمام فرز ندان ِتوحید کے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔آپﷺ نے قرآن پاک کے حوالے سے عوام تک اللہ تعالیٰ کی بات پہنچائی اور لوگوں تک یہ بات پھیلائی کہ اسلام میں عورت کا کتنا بڑامقام ہے خود آپﷺ نے بھی عورت کو بلند درجہ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں یہ اعلان کیا تھا کہ میری اُمت کو میرے بعد قرآن مجید اور آپ ﷺ کی سنت پر سختی سے عمل کرنی چاہئے تاکہ اُمت مسلمہ کے دونوں جہاں آباد ہو جائیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اُمت رسول ﷺاسی عورت کے مقام کو اپنے ہاتھوں سے خاک میں ملارہی ہے
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور اس کی بہتر تربیت اور اس کی شادی کردی تو میرے ساتھ جنت میں(اپنی دو انگلیوں کو باہم ملا کر بتایا) اس طرح ہوگا ۔بعض روایات میں دو لڑکیوں کی پرورش پر بھی جنت کی بشارت دی گئی ہے ، راویوں کا قول ہے کہ اگر ہم ایک لڑکی کے بارے میں پوچھتے تو اس پر بھی یہی بشارت دی جاتی۔
دختر کشی ایک خاموش قتل ہے۔ اس قتل کو انجام دینے والا اس بچی کا باپ ہوتا ہے اس کے بعد اس کی ماںوہ ماں جو اپنے شوہر کے اس خاموش قتل کا ساتھ دیتی ہے۔ اس کے بعد وہ بے ضمیر ڈاکٹر جو چند روپیوں کی لالچ میں آکر اُس بچی کا اُس کی ماں کے رِـحم میں ہی قتل کرتا ہے جس نے ابھی روشنی کی کرن بھی نہ دیکھی ہو۔اسلام نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ جو مختلف صلاحیتیں اور قوتیں اس سے و دیعت کی گئی وہ انہیں آزمائے اور کام میں لائیں،اور جو نعمتیں اسے دی گئی وہ اس پر شکر کرتا ہے یا کفر اس میں اس کا امتحان مقصود ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے نفس اور اپنے اعضائوجو ارح کو مسخر کرے اور ان پر قابو پائے اپنی خواہشات اور جذبات کو خیر و بھلائی کے راستے پر چلائے لیکن آج ہمیں اس کے برعکس دیکھنے کو ملتا ہیںاور دختر کشی یہاں اس کی زندہ مثال ہے۔
دختر کشی کی اصل وجہ کیا ہے؟ میرے خیال سے اس کی سب سے بڑی وجہ سماج میں بدعات وخرافات کا عروج پانالوگوں کا بے انتہا مادیت کی طرف رجوع ہونا۔دین سے دوری سب سے بڑی وجہ ہے کیوں کہ دین سے دوری کی وجہ سے ہی معاشرے میں بدعات و خرافات کا عروج ہوتا ہے۔ سماجی بدعات جب معاشرے میں بڑھ جاتے ہیں تو اس کا منفی اثر غربت ومفلسی میں زندگی گزر بسر کرنے والے لوگوں میں زیادہ پڑتا ہے۔ سماجی بدعات میں شادی بیاہ پر رسومات بد،
جہیز جیسی لعنت وغیرہ۔ اس کے علاوہ اور بھی برائیوں نے وادی میں جنم لیا ہے۔ مغربی تہذیب اپنا کر بیشتر لوگ سیدھے سادھے لوگوں کی زندگی اجیرن بناتے ہیں اتنا ہی نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہیں۔ جس سے بے پردگی، بے راہ روی جیسی برائیوں نے اپنی جڑیں مضبوط بنالی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ دختر کشی کے اس خاموش قتل اور بدترین گناہ کے خلاف ایسے قوانین لاگو کرنے کی تاکہ اس جرم میںملوث افراد کو قانونی کارروائی کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ساتھ ہی ایسے تشخیصی کلینک کو سربمہر کر دیا جائے جہاں یہ عمل کیا جاتا ہے۔ علماء دین، محققین اور مصلحین کو بھی اس ضمن میں آگے آکر عوام تک قرآن واحادیث کی روشنی میں دختر کشی پر بیداری پیدا کرنا چاہئے۔انہیں بتایا جائے کہ مغرب اور دوسرے ازم کی نقالی میں انسانیت سوز حرکت نہ کی جائے جو کہ نہ صرف یہ کہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں کہیں اول اور کہیں دوسرا درجہ دیا گیا ہے اور جس کے مرتکبین کو جہنم میں ٹھکانا ملے گا۔صرف یہی نہیں کہ آخرت میں جہنم ٹھکانا بنے گا بلکہ دنیا میں بھی زندگی جہنم زار بن جاتی ہے ۔آج ہر جگہ لڑکوں کے مقابلہ لڑکیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے جو انسانی آبادی کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں۔اسلام کی تعلیمات میں بہت ساری حکمتیں ہوتی ہیں جو لوگوں کو اس وقت سمجھ میں آتی ہیں جبکہ وہ اپنا سب کچھ لٹا چکے ہوتے ہیں ۔اس لئے اس پر روک لگائیںٔورنہ وادی بھی ان عذاب میں گھرے جس میں بھارت کی دوسری ریاستیں گھری ہیں اور جس میں پنجاب و ہریانہ سب سے آگے ہے جہاں دوسری ریاستوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد کافی کم ہے۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولادوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں تاکہ وہ دختر کشی جیسے خاموش قتل کو انجام نہ دیں۔
[email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا