حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

0
0

از: محمد عارف رضانعمانی مصباحی
ایڈیٹر : پیام برکات ، علی گڑھ

موجودہ دور میں قومی اور عالمی سطح پر مسلمانوں کے حالات ناقابلِ بیان ہیں۔ ہر طرف قتل وخوں ریزی کا بازار گرم ہے۔انسانی حقوق کی پامالی عام ہوتی جارہی ہے۔ ایک خاندان میں پیدا ہونے والے،دوسرے کو ترقی کی راہ پر نہیں دیکھنا چاہتے۔ سماج میں مل جل کر رہنے والے ایک دوسریکے جانی دشمن بن گئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ انسان ،انسانیت کا دشمن بن گیا ہے۔توہم پرستی کے نام پر خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں۔میں بات کر رہا ہوں اس پیارے ملک ہندوستان کی جسے سونے کی چڑیا کہاجاتا تھا۔یہ کسی دورکی بات ہوگی لیکن اب ایساکچھ نظر نہیں آتا۔ حالیہ چھ سات سالوں میں ہندوستان کی جو سیاسی، سماجی اور معاشی صورت حال ابھر کر سامنے آئی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ہر طرف نفرتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں۔نامساعد حالات گھیرے ہوئے ہیں۔اب تک نہ جانے کتنے اس کی نذر ہوگئے۔ماوں بہنوں کی عزتیں لوٹی جارہی ہیں۔غریب روزگار کو ترس رہے ہیں۔ روزگار کے وعدے پر نہ جانے کتنے نوجوانوں نے اپنی جوانی اسی انتظار میں گزار دی کہ ہوسکتا ہے شبِ دیجور کے بعد صبحِ مراد آئے گی لیکن نامرادی ہی ہاتھ لگ رہی ہے۔اس وقت مسلمانوں کی سیاسی ،سماجی حالت کے ساتھ تعلیمی حالت بھی کچھ اچھی نہیں ہے جب کہ قرآن و حدیث میں جگہ جگہ علم اور تعلیم کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ایسا مذہب جس کے دستور میں علم پر زور دیا گیا ہو وہی اس سے کوسوں دور ہے۔امت مسلمہ علم و حکمت کی بنیاد پر دنیا میں صدیوں حکمرانی کرتی رہی۔جب سے علم سے دور ہوئی،اقتدار سے دور ہوتی چلی گئی۔ علم ہی کے ذریعے یہ امت اپنا کھویا ہوا وقار حاصل کر سکتی ہے۔علم کی اہمیت امام مالک بن انس کے اس قول سے اجاگر ہوتی ہے’’علم صاحب علم کے لیے روشنی ہے۔اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے،اسیداخل فرماتا ہے۔’’( موطا امام مالک، ج ۱،ص۲۶۰)
علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ہے۔علم کی روشنی سے جہالت کی تاریکی دورکی جاسکتی ہے۔تعلیم کے متعلق نوبل انعام یافتہ نیلسن منڈیلا کا مشہور قول ہے ؛
Education is the most powerful weapon which you can use to change the world.Nelson Mandela
’’تعلیم سب سے طاقتور ہتھیار ہے جسے آپ دنیا کو بدلنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ تعلیم سے معاشرہ اور خاندانی نظام تبدیل کرکے ملک و ملت کو کامیابیوں سے ہم کنار کیا جا سکتا ہے۔تو یہ وقت ہے کہ تعلیم کے ذریعے ملک و ملت کے حالات بدلے جائیں۔اورقوم مسلم کی عظمت رفتہ کو بحال کیا جاسکے۔
اس وقت امت مسلمہ جن پریشانیوں میں مبتلا ہے ان میں آپسی اتحاد کا نہ ہونا ایک بڑی وجہ ہے۔جب سے زعفرانی پارٹی اقتدار میں آئی ہے تب سے مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح زق پہنچائی جارہی ہے۔حالاں کہ پچھلے بھی کچھ زیادہ ہمدرد نہیں تھے۔پڑوسی ممالک سے دہشت گردی ختم کرنے اور کالا دھن واپس لانے کے نام پرنوٹ بندی کی گئی۔ اس میں واضح ناکامی کا سامنا ہوا۔ تین طلاق کا مسئلہ لایا گیا۔ بابری مسجد کا مسئلہ ختم کیا گیا ،چاہے فیصلہ جس کے بھی حق میں آیا ،مسلمان خاموش رہے۔ علما ے کرام اور خانقاہوں کے مشائخ عظام کی رہنمائی خصوصاً خانقاہ مارہرہ سے امن و شانتی بنائے رکھنے کا پیغام دیا گیا۔ پھر اس کے بعد این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کا مسئلہ لایا گیا۔پہلے تو انکار کیا کہ این پی آر نہیں آئے گا۔پھر کرونولوجی سمجھانے لگے۔پھر کہنے لگے کہ ہم ہر ہندوستانی مسلمان کو شہریت دیں گے۔ان کو کوئی خطرہ نہیں۔صاحب پہلے تم ہندوستانی مانوگے تب نا۔جانے ہندوستانی ثابت کرنے کے لیے کتنے جتن کرنے پڑیں گے۔مولیٰ ہی ہمارا حامی و ناصر ہے۔غرض کہ ہر طرح سے مسلمانوں کو جانچنے کی کوشش کی گئی۔ صبر کا امتحان لیا گیا لیکن جب اس قانون سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دوسری اقلیتیں خطرہ محسوس کرنے لگیں ،تو رنگ و نسل اور مذہب سے اوپر اٹھ کر بیشترہندوستانی شہری میدان میں نکل آئے۔ تو اس میں کہیں نہ کہیں مسلمانوں کواتحادکا درس ملا۔دوسرے علاقوں میں اتحاد کی فضا ہموار ہوئی۔2019 ء کے الیکشن کے بعد مسلمانوں کو لگاتار آزمانے کی کوششیں کی گئیں لیکن خدا کو اور ہی منظور تھا۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کی مدد آئی۔دوسرے بھی ہمارے ہم زبان ہوگئے۔جوکہیں نا کہیں اس ظلم کے شکار تھے۔ لیکن دشمن سے ہر وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جب کہ اس وقت مسلمان بڑی آزمائشوں میں گھرے ہیں۔ان پر ظالم و جابر حکمران مسلط کر دیے گئے ہیں۔مسلمان ہر طرف نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ان کی ایک نہیں سنی جارہی ہے۔کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ مسلمان اس قدر پریشان کیوں ہے۔ اس کے اسباب کیا ہوسکتے ہیں۔ اس قدر پسپائی کے پیچھے ضرور کوئی وجہ ہوگی اور وہ وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کا خالق سے رشتہ کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔اللہ عزوجل بندوں پر کبھی مصیبتیں تو اس وجہ سے ڈالتاہے کہ ان کے ایمانی جذبے کا امتحان لے اور کبھی تو ان کیاپنے کرتوتوں کی سزا ہوتی ہے۔اللہ عزوجل نے امت مسلمہ کو سب سے بہترین امت بنا کر بھیجا ہے اور بہتری کی وجہ بھی بتا دی کہ تم بہتر ہو اس لیے کہ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔لیکن جب ہم اپنے حالات پر غور کرتے ہیں تو ہمارے حالات بالکل الٹ ہیں۔ نہ ہم بھلائی کا حکم دیتے ہیں نہ برائی سے روکتے ہیں بلکہ کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے ہیں کہ ’’ہمارا کیا جاتا ہے فلاں شخص برائی کر رہا ہے وہ بھگتے گا۔‘‘پھر بھی ہم’’خیرِامت‘‘بہترین امت بنے رہنا چاہتے ہیں۔ برائی ہمارے معاشرے میں زیادہ ہے۔ غربت ہمارے معاشرے میں ہے۔دوسروں کے حقوق ہم مار رہے ہیں۔ایک بالشت زمین کے لیے اپنی عاقبت ہم برباد کر رہے ہیں۔نااتفاقی ہمارے معاشرے اور خاندانوں میں ہے۔لیکن پھر بھی ہم سنبھلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے درپے ہیں۔کامیابی اور بہتری حاصل کرنیکے لیے سب سے پہلے ان کمیوں کو ہمیں دور کرنا ہوگا۔اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ہمیں آپسی بھائی چارہ کو بڑھاناہوگا۔اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے؛
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْْنَ أَخَوَیْْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُون۔(سورہ حجرات49، آیت 10)
ترجمہ: مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔
اس آیت میں رحمت کا مدار بھائیوں سے صلح کرانے پر رکھا گیا ہے کہ بھائیوں سے محبت کرو، ان کے درمیان صلح کراؤ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ہم نے صلح کو چھوڑ دیا ہے اور ان سنگ دل حکمرانوں سے رحم کی امید کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے آپ کو قرآنی تعلیمات سے دور کر دیا ہے اور ناکامی کا رونا روتے ہیں۔قرآنی احکامات پر عمل کرنے میں ہم شرم محسوس کرتے ہیں ، جب کہ آج ہم اپنے صبح و شام مغربی کلچر کے مطابق گزارتے ہیں۔کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ مغرب کی طرف جاؤگے تو ڈوب جاؤگے۔
قرآن پاک میں گیارہ جگہوں پر صراحت کے ساتھ کامیابی کے اصول بتائے گئے ہیں۔ کہیں کامیابی کے لیے یہ کہا گیا کہ اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ کہیں یہ کہا گیا کہ حق کیلے جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ جہاد سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لیے کفار سے لڑاجائے بلکہ اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے بچانا اور اللہ و رسول کی پیروی میں لگانا اصل کامیابی ہے۔
بندوں پر جو مصیبتیں آتی ہیں ،ان کے متعلق اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُو عَن کَثِیْرٍ۔(سورہ شوریٰ42،آیت 30)
ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔
مفسرین ِ کرام فرماتے ہیں کہ دنیا میں مومنین کوجو مصیبتیں پہنچتی ہیں،زیادہ تر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔کبھی یہ تکلیفیں ان کے گناہوں کے کفارے کا سبب بنتی ہیں ،تو کبھی درجات کی بلندی کا۔اس لیے مصائب و آلام پرمومنین کو صبر کرنا چاہیے۔اور اسلام کے ابتدائی زمانے کو یاد کرنا چاہیے کہ صحابہ کرام اور خود سرکار دوعالم ﷺپرکتنی مصیبتیں ،رکاوٹیں اور پریشانیاں آئیں اور ان حضرات نے صبرکا دامن نہیں چھوڑا اور اللہ کی بارگاہ سیلو لگائے رہے۔رہ گئی بات ظالم حکمرانوں کی تو اس کے متعلق حدیث قدسی ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میںاللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں بادشاہوں کا مالک اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے قبضے میں ہیں۔بیشک بندے جب میری فرما ں برداری کرتے ہیں ، میں ان کے بادشاہوں کے دلوں کو ان کے لیے نرم اور شفقت والا کر دیتا ہوں اور جب میری نافرمانی کرتے ہیں تو ناراضگی اور انتقام کے ساتھ ان کے دلوں کو پھیردیتا ہوں پھر وہ انہیں برا عذاب چکھاتے ہیں۔توتم اپنے آپ کوبادشاہوں کے خلاف دعاکرنے میں مصروف نہ کروبلکہ ذکر اور عاجزی اختیار کرو اور میری اطاعت میں لگ جاؤ ، پھر ان کے مقابلے میںتمہارے لیے میں کافی ہوجاؤں گا۔(مشکوٰۃالمصابیح، ص323)
سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ ہمیں ظالم حکمرانوں کے نقصان سے بچنے کا طریقہ بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تم ظالم بادشاہ سے آزمائش میں پڑ جاؤ اور اس کے سبب سے تمہارے دین کونقصان پہنچے تو اس نقصان کواستغفار کی کثرت سے دور کرو۔(تنبیہ المغترین، الباب الاول، صبرہم علی جورالحکام، ص 60)
مذکورہ حدیث اور امام اعظم کے اس قول سے ہمیں یہ سبق ملا کہ جب بھی مسلمانوں پر ایسے حالات آئیں اور مسلمان آزمائش میں مبتلا ہوں تو ان کو اللہ کی بارگاہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔کیوں کہ نظامِ دنیا ہو یا نظام آخرت وہ اللہ ہی کی مرضی سے چل رہا ہے۔اس کی بہتری کے لیے چاہیے کہ اب ہم اپنے آپ کو بدلیں۔اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں سے خوب خوب توبہ کریں۔رب کو راضی کرنے کے کام کریں۔صدقہ کریں۔نمازوں کی خود بھی مکمل پابندی کریں اور اپنے بچوں سے اور تمام گھر والوں سیپابندی کرائیں۔اللہ عزوجل نے جن کونصاب بھر مال دیا ہے ان کو چاہیے کہ مکمل حساب کرکے زکوٰۃنکالیں۔یہ نہ سمجھیں کہ اتنا مال کم ہو جائے گا۔حقیقت میں تو وہ آپ کا ہے ہی نہیں۔اللہ نے مالداروں کے مال میں غریبوں کا حق رکھا ہے۔ جس کو حق دار تک پہنچانا ضروری ہے۔آپ جب اسلام کے نظامِ زکوٰۃپر نگاہ ڈالیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ اللہ نے اپنے بندوں میں کسی کو بے یار و مدد گار نہیں چھوڑ ا ہے۔ہر کسی کا انتظام کیا ہے۔لہٰذا خوش دلی سے مکمل زکوٰۃادا کریں۔والدین کی خدمت کریں۔ان کو کبھی بھی بوجھ تصور نہ کریں۔ان کے بڑے احسانات ہیں۔ شراب نوشی نہ کریں کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔آج کل نوجوان اس کی طرف بڑی تزیی سے مائل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا انھیں اس سے بچانے کی تحریک چلائیں۔دنیااور آخرت کی تباہی سے ان کو آگاہ کریں۔ بہتر کیریئرکے لیے ان کی رہنمائی کریں۔
اس وقت جو اہم مصیبت مسلمانوں پر آپڑی ہے وہ ہے این آر سی ، این پی آر۔ اس کے متعلق لوگوں کو صحیح معلومات فراہم کریں۔ ابھی بھی ایک بڑی تعداد ایسوں کی ہے جو اس سے بے خبر ہے۔نہ انھیں دستاویز درست کرانے کی فکر ہے نہ ہی اپنے بال بچوں کا نام رجسٹر کرانے کی فکر ہے۔اپنے کاغذات وقت سے پہلے ہی درست کر الینے میں ہی بھلائی ہے۔معاشرے میں جو بااثرحضرات ہیں یا پردھان ،چیئر مین یا کسی بھی ایسے عہدے پرہیںجس سے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہوں تو پہنچائیں اورلوگوں کو بیدار کریں۔ ان کے دستاویز درست کرانے کے لیے کیمپ لگوائیں۔ گھروں میں خواتین کی حفاظت کے لیے لوگوں کو بیدار کریں۔معاشرے میں امن و سکون کا ماحول بنا ئے رکھیں۔حالات کی ابتری سے گھبر انے کی ضرورت نہیں ہے۔مولیٰ ہماراحامی وناصر۔

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

 

محمد عارف رضا نعمانی مصباحی
ایڈیٹر : پیام برکات، علی گڑھ
رابطہ نمبر: 7860561136
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا