حقِ جانکاری قانون کے اطلاق میں لیت و لعل کیوں؟
حق نواز نہرو
ڈوڈہ؍؍خطہء چناب کے تینوں اضلاع میں حقِ جانکاری قانون یعنی آ ر ٹی آئی ایکٹ کو سرکاری محکمہ جات اور افسران و ملازمین سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔اسکی ایک بڑی وجہ ضلع انتظامیہ کی طرف سے جانکاری پروگراموں کا انعقاد عمل میں نہ لایا جانا ہے۔ گو جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے ایک حکمنامہ کی رو سے نہ صرف ضلع بلکہ تحصیل اور نیابت سطح تک بھی ایسے جانکاری پروگراموں کا کیا جانا ضروری قرار دیا جا چکا ہے لیکن انتظامیہ ہے کہ اس حکمنامہ کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ گو چناب ویلی آر ٹی آئی مومنٹ سابقہ ضلع ڈوڈہ کی کئی شاخوں نے ایسے کئی پروگراموں کا انعقاد عمل میں لاکر عوام کو کمہ حُقہ جانکاری فراہم کی اور اس سلسلہ کا ایک بڑاپروگرام 2009میں ٹاؤن حال ڈوڈہ میں بھی منعقد کیا گیاتھالیکن انتظامیہ اس سلسلہ میں ابھی خاموش ہے۔حکام کے غیر مشبت رویہ کو دیکھتے ہوئے ایسے لوگ اپنی درخواستیںراقم کو دیکر اپنی ذمہ داری سے غلو خلاصی کروا لیتے ہیں۔ایسی زیادہ تر درخواستیں ترقیاتی کاموں میں ہوئی بے ضابطگیوں سے متعلق ہوتی ہیں جن میں ٹیکس دہندگان اپنے پیسے کا حساب لال فیتہ شاہی سے مانگتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ اُنکا پیسہ کس مد میں خرچ کیا گیا ہے ۔مگر ملازمین یعنی عوامی خدمتگارپہلے پہل تو ایسی عرضیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے لیکن جب دباو بڑھ جاتا ہے بتو کئی بہانے بناتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جانکاری مانگنے والا زچ ہو کرگھر بیٹھ جائے ۔ یہاں بجا طور پر ایسے افسران و ما تحت عملہ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ انہیں جانکاری فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام کیوں لیا جاتا ہے اور کہیںایسے عوامی خدمتگار انہیں ڈرانے دھمکانے سے بھی کیوں نہیں چونکتے۔یہ ایک نہایت ہی حساس مسئلہ ہے جس کے بارے میں ضلع انتظامیہ کے حل و عقد کو سنجیدگی سے نوٹس لیکر سبھی افسران کو یہ باور کرالینا چاہیئے کہ عوام آپ سے اپنے پیسے کا حساب چاہتے ہیں جو وہ ٹیکسوں کی شکل میں دیتے ہیں۔ اپنے پیسہ کا حساب مانگنا کوئی جرم نہیں۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ضلع بڈگام کے ایک عام شہری بشیر احمد نے ریاست کے تب کے وزیر اعلیٰ عمر عبد اﷲ صاحب سے سرکاری ہیلی کواپٹر کے استعمال پر کیئے گئے خرچ کا حساب مانگا تھا جو انہیں دینا پڑا تھا۔اگر سرکاری افسران شفافیت سے کام کریں گے تو جانکاری مانگنے کی نوبت ہی نہیں آسکتی۔ افسران کی پریشانی کے ایک بڑا مسئلے کا تعلق آر ٹی آئی کی شق 4 (1) (b)سے ہے جس کی رو سے سبھی محکمہ جات کو اس سیکشن کے تحت اپنے ملازمین کے عہدے ، کُل ملازمین ، انکی تنخواہ ، سرکار کی طرف سے مختلف مدوں میں دیئے گئے فنڈس ، اِن فنڈس سے سر انجام دیئے گئے تعمیراتی کام ، ہر کام کی موجودہ شکل ،کیا کام زیرِ تعمیر ہیں یا مکمل کیئے جا چکے ہیں وغیرہ وغیرہ کو اپنے دفتر کی کسی بیرونی دیوار پر لکھوانا ہوتا ہے تاکہ عوام خود ہی دیوار پر لکھی جانکاری سے استفادہ حاصل کر سکیں۔۔اس شق کو انگریزی زبان میںPro active Disclousersکہا جاتا ہے۔افسران جو ایسی جانکاری مانگنے والے درخواست دہندگان سے خائف رہتے ہیں اگر صرف اس شق کو عملائیں تو زیادہ تر پریشانیاں دور ہو سکتی ہیں۔یہاں ایک جانکاری سے عوام کو با خبر کرنا ضروری ہے کہ محکمہ پی ایچ ای ڈویژن ڈوڈہ میں مالی بد عنوانیوں کا دور دورہ ہے جہاں 80%کاموں کو محکمانہ طور پر انجام دیا جاتا ہے۔گو محکمانہ طور پر کاموں کی انجام دہی کو غیر قانونی قرار دیا جا چکا ہے اور ناجائز آمدنی کو ایک طے شدہ طریقہ پر آپس میں بانٹا جاتا ہے۔یہ سبھی بندر بانٹ نہایت ہی راز داری سے ہوتی ہے جس میں منظورِ نظر لوگوں کو جن میں چند بارسوخ ٹھیکیدار بھی شامل ہیں کے نام سے پیسہ خزانہ آمرا سے نکالا جاتا ہے جس میں کچھ پیسہ بطور ٹیکس بھی کٹوایا جاتا ہے تاکہ کسی ممکنہ پکڑ سے خود کو بچایا جا سکے۔لیکن ایسے بد دیانت ملازمین یہ بھول جاتیہیں کہ بغیر ای۔، ٹنڈرینگ کے جب کوئی کام ہی ممکن نہیں پھر ایسے طریقے اختیار کر کے وہ جوبدہی کے عتاب سے کیسے بچ سکتے ہیں۔