کورونا وائرس کے پھیلائو کے خطرے کا شاخسانہ

0
0

سڑکیں سنسان، بازاروں سے ماسک اور سینیٹائزرس غائب
یواین آئی

سرینگر؍؍ وادی کشمیر اگرچہ عالمگیر وبا کورونا وائرس سے فی الوقت صاف ومحفوظ ہے تاہم انتظامیہ کی طرف سے احتیاطی طور اٹھائے جارہے اقدام سے جہاں ایک طرف سڑکیں سنسان نظر آنے لگی ہیں وہیں دوسری طرف بازاروں میں ماسکوں اور سینیٹائرزس کی قلت ہی نہیں بلکہ گراں فروشی بھی آسمان چھونے لگی ہے۔ادھر متعلقہ حکام کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لئے صرف سینیٹائزرس کا استعمال ہی ضروری نہیں ہے بلکہ صابن اور صاف پانی سے ہاتھ دھونا بھی بہتر طریقہ عمل ہے نیز ماسک لگانا ہر کسی کے لئے ضروری بھی نہیں ہے۔کورونا وائرس کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے انتظامیہ کی طرف سے کئے جارہے احتیاطی اقدام جیسے تعلیمی اداروں، آنگن واڑی سینٹروں کو بند کرنے اور اجتماعات منعقد کرنے سے احتراز، پبلک ٹرانسپورٹ کا کم استعمال اور پارکوں اور باغوں کو بند رکھنے وغیرہ سے وادی کے بیشتر علاقوں کی سڑکیں سنسان نظر آنے لگی ہیں اور اجتماعات منعقد ہونے کا سلسلہ بھی بند ہونے لگا ہے۔اطلاعات کے مطابق وادی کے بعض علاقوں میں گزشتہ جمعہ کو نماز جمعہ کا اجتماع بھی منعقد نہیں ہوا بلکہ کہیں کہیں پنجگانہ نماز باجماعت بھی معطل کی گئی ہے۔اگرچہ متعلقہ حکام کا ماننا ہے کہ ہر صحت مند شخص کے لئے ماسک کا استعمال ضروری نہیں ہے اور صابن اور صاف پانی سے ہاتھ دھونا بھی بہتر ہے لیکن اس کے باوجود وادی میں لوگ ماسک اور سینیٹائزرس خریدنے کے لئے اس قدر بے قرار ہیں کہ بازاروں میں یہ دونوں چیزیں نایاب ہی نہیں بلکہ کافی مہنگی ہوئی ہیں۔جموں و کشمیر حکومت کے ترجمان روہت کنسل نے لوگوں سے اپیل کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘پیارے دوستوں ہر کسی کے لئے ماسک لگانا ضروری نہیں ہے جن کو ضرورت محسوس ہورہی ہے وہی لگائیں، ہاتھ دھونے کے لئے صابن اور پانی بہتر ہے’۔لوگوں کا کہنا ہے کہ بازاروں میں ایک تو ماسک یا سینیٹائزر ملنا محال ہی ہے اور اب اگر کہیں دستیاب بھی ہے تو اس قدر مہنگا ہے کہ اس کا خریدنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں رہ گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس دنیا میں پھوٹنے سے پہلے جو ماسک پانچ روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج پچیس روپے طے ہے اور ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ متعلقہ حکام اس سلسلے میں خاموش ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ کئی علاقوں میں کپڑے کی بنی ماسکوں کو بھی فروخت کیا جارہا ہے جن کے بارے میں معالجین کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں فائدہ بخش نہیں ہیں۔یوں تو وادی میں شعبہ سیاحت سال گذشتہ کے ماہ اگست سے ہی وینٹی لیٹر پر ہے اور اب رہی سہی کسر کورو ناوائرس نے پوری کردی۔ اس شعبہ سے وابستہ لوگوں کو کہنا ہے کہ اگر اکا دکا سیاح یہاں آتے بھی تھے تو کورونا وائرس سے ان کا بھی یہاں آنا بند ہوا ہے اور اب جو انتظامیہ نے پارکوں اور باغوں کو بند کرنے کے بھی احکامات صادر کئے ہیں تو اس سے شعبے کی آخری سانس بھی رک جائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسرے ممالک بالخصوص ایران سے واپس لوٹنے والے زائرین و مسافرین کو پہلے وادی سے باہر ہی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے اس کے بعد انہیں اپنے اپنے گھر روانہ کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ انتظامیہ کی طرف سے کئے جارہے اقدام بھی وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ خیال بھی رکھا جانا چاہیے کہ لوگ گھبراہٹ اور خوف و دہشت کا شکار بھی نہ ہوجائیں۔قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر میں فی الوقت کورونا وائرس کے دو کیسز مثبت ا?ئے ہیں جو دونوں جموں میں ہیں جبکہ کشمیر فی الوقت اس مہلک وائرس سے محفوظ ہی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا