تحریر:محمد آفتاب عالم مصباحی سیتامڑھی
تاریخ اسلام کے صفحوں پر یہ بات درج ہے کہ دورِجہالت میں بیٹی کو منحوس تصور کی جاتی تھی۔جس ماں کی کونکھ سے بیٹی جنم لیتی،اسے لوگ کوستے اور برا وہم وگمان کرتے۔جب بیٹی اس خاک دانہ گیتی پر اپنی آنکھ کھولتی اور زندگی کی سیڑھی پر قدم رکھنے کی کوشش کرتی تو لوگ اسے زندہ درگور کرکے موت کے حوالے کر دیتے۔لیکن جب سرورِکائنات کی آمد ہوئے اور زمانے نے انگڑآیاں لیں،اسلام نے اپنا دامنِ شفقت پھیلایااور اپنی اہمیت و فضیلت کا َعلم بلند کیا تویہ عملِ حرام اور رواجِ بد اپنا دامن سیمٹتی ہوئی نظر آئی اور پھر اس عملِ قبیح کا خاتمہ ہو گیا۔پھر سے بیٹی خوشی کے نغمیں اپنے لبوں پہ سجانے لگی،فرحت و شادمانی کا سامان بخشنے لگی،آزادی سے جینے کا پورا حق ملا اوریہی بیٹی ایک پھول کی مانند ہوکر ہر گھر میں کھلنے لگی۔اس کے والدین ایک مالی کی طرح اس کی آبیاری اور حفاظت و صیانت کرنے لگے۔مگر آج پھر سے اسی دورِجاہلیت کا آغاز ہوگیاہے جس کا برسوں لوگ خاتمہ کرچکے تھے۔آج جہیزکی لالچ نیبیٹیوں کے سہاگ کو اجاڑدیاہے،ہماری بیٹیوں کو خودکشی کرنے اور ماتم کرنے پر مجبور ولاچار کر دیا ہے۔اس فعلِ حرام نے ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی زندگ?وں کو مثلِ جہنم بنا دیاہے۔ان کی آنکھوں میں بسنے والے حسین خواب کو ناامیدی کی کھا? میں ڈھکیل دیاہے۔ان کی آرزوں،تمنا?ں اور خواہشوں پر تیز چھوڑی چلا دی گی ہے،ایسی مایوسی اور اندھیری کوٹھری میں قیدوبند کردیاگیاہے جہاں سے امید کی کرن پھوٹنے کا دور دور تک نام ونشان بھی نہیں۔آج بھی لاش وہی ہے صرف کفن بدلاہے۔حالات اس قدر ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں کہ بغیرجہیزکے ہمارے معاشرے میں نکاح کا تصور ہی نہیں ہوتا۔جہیزکیمطالبینے ازدواجی رشتوں کا سرِعام خون کر رہاہے۔جہیزکی لعنت آج شادی کی جزولاینفک بن چکی ہیاور اس کی زدمیں ہرشخص گرفتار ہے۔آج دین کے آسان احکام کو مصعب و مشکل بنا دیا ہے،اور ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ احکامِ دین پر عمل پیراہوناانگاریپر چلنے کے مثل ہے۔بلخصوص آج کے غریب طبقہ حضرات اس فعلِ بد سے دوچار ہیں۔جہیز تو بنیادی طورپرغیرقوم کا شعار اور رسم و رواج ہے،کیوں کہ ان کیہاں ضابطہ یہ ہے کہ وراثت میں بیٹی کو کچھ نہیں ملتا جہیز ہی ان کی وراثت ہوتی ہے،یہ صرف مذہبِ اسلام کی تنہا خصوصیت ہے کہ ہر مقام پر عورت کا پاس ولحاظ رکھا ہیاور عزت ووقارسے سرفراز فرمایا ہے۔مگر افسوسناک ہے آج کایہ نیو ماڈرن زمانہ جہاں عورتوں کواپنی ہوس کاشکاربناتیہیں اور ان کی عظمت و عصمت کو پامال کرتے ہیں۔
جہیز کی نحوست نے ایک شریف طبیعت باپ کو ایسے دہانے پہ لاکھڑاکردیاہیکہ اس کے لییاپنی بیٹی کی شادی کرنی وبالِ جان اور باعثِ خوار بن گی ہے۔اگر ان کیپاس جہیز میں دینے کے لیے ایک موٹی رقم موجود نہ ہو تو وہ اپنی لاڈلی کو شادی کے جوڑے میں نہیں دیکھ سکتے۔آج والدین کیلییبیٹی کی شادی ایک سنگین مس?لہ بن گیا ہے۔غریب باپ کو جہیز کے سازوسامان کو مہیا کرنے میں بہت سے پرخار مراحل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔بیچارہ رشوت،جعل سازی،دھوکہ اور فریب کاری جیسے جرا?م کامرتکب ہو جاتاہے۔اگر کو? باضمیرباپ ہیتوناجا?زذرا?ع سیبچ کرکسی سے قرض لیکرادھارکیشکنجیمیں جکڑجاتاہے،پھروہ اپنی ساری زندگی اسی قرض کو چکانے ختم کردیتاہے۔اس سے بڑھ کر گھٹیاحرکت یہ ہیکہ لڑکی کے سسرال والے اپنی نگاہ اس بات پر ٹیکاے رہتے ہیں کہ میری بہو آیگی تو اپنے ساتھ نہایت ہی عمدہ اور قابلِ دید سامان لایگی،اور اس کے پیچھے ایک راز پنہاں ہوتی ہے،وہ یہ ہیکہ اس سے اس کااپنی برادری اور سوسا?ٹی میں نام نمود ہو اور لوگوں میں اس کی بڑی اہمیت و مقبول?ت ہو۔آج معاشرے کی اصلاح و تربیت اور قوم کی تعمیر و ترقی ایسی چیزوں سے ہو رہی ہیجوکسی بھی شمار وقطار میں موجود نہیں،اور کفِ افسوس ملنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ذہنی تربیت اور کردار سازی کاکام اس طور پر کی جارہی ہے کہ اس کا نام لینا ایک مزاق بن گیا ہے۔پہلے کی شادی میں اصلِ چیز صرف دلہن ہوا کرتی تھی،لیکن آج مقصودِ اصلی جہیز بن چکا ہے،دولہن تو اس کے تابع ہوکر آتی ہے۔دولہن چاہے کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو اگرجہیزمنشا اور خواہش کے مطابق ہو تو،اس کے سارے عیوب ونقا?ص نظروں سے اوجھل ہوجاتیہیں،یہی وجہ ہے کہ ازدواجی زندگی تلخ ہوتی جارہی ہے۔پہلیکے دور میں محلے اور برادری کے لوگ صرف دلہن دیکھنے اور مبارکبادی پیش کرنے آتے تھے مگر اس دورِ جدید میں اس لیے اکٹھاہوتیہیں کہ فلاں کے بیٹے کو کتنا جہیزملاہے،ایسی،کول اور فریج سسرال والے دییہیں یانہیں۔یہ ہیں آج کا ہمارا طرزِعمل۔جہیز کی لعنت نے ہمارے سماج کو اندر سے کھوکھلا کردیاہے،ہمارے معاشرے کا ایک ناسور بن چکا ہے۔ہر ایک اس کی آگ میں جل بھن رہاہے۔صد حیف کہ جہیز کی لعنت اور نحوست بڑی تیزی سے اپنی کامیابی کی طرف رواں دواں ہے۔لوگ اپنے معاشرے کی عزت اور باعثِ فخر سمجھ کر گلا لگا رہے ہیں۔خدارا آپ اس فعلِ بد اور ناجائز و حرام عمل سے باہر آئیے اور اس لعنت کو اپنے درمیان سے اکھاڑ پھیکیے۔ورنہ آپ کو ہلاکت وبربادی کی کھائی میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔(یو این این)