کرنول کے بلدی انتخابات میں مسلمانوں کا اتحاد وقت کا تقاضہ

0
0

شیخ عبدالغفارعمری

اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے پارہ 10رکوع 2 میں ارشاد فرماتا ہے : ’’اے لوگو تم اللہ اوراس کے رسولﷺکی اطاعت کرو اور آپس میں تنازعہ (تفرقہ) نہ پیدا کرو۔ اگر ایسا کرو گے تو تم بکھر جاؤ گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی (یعنی طاقت) اور صبر کرو بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے اور تنازعہ و تفریق سے بچنے کا حکم فرمارہا ہے۔ موجودہ حالات ساری دنیا میں اور خاص کر مسلمانان ہند کے لئے بڑے ہی آزمائشی اور سخت ترین ہیں۔ اگر ایسے میں مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق کے بجائے انتشار و افتراق کا راستہ اپنائیں گے تو مٹادیئے جائیں گے۔ جبکہ دشمنان اسلام اس بات کا کھلے عام عہد کررہے ہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے نام و نشان کو مٹاکر ہی دم لیں گے۔ اس مضمون کا مقصد سارے ہی مسلمانوں اور خاص کر مسلمانان کرنول میں آپسی اتحاد و اتفاق کی نیت ہے۔ لوگو! آپ جانتے ہیں کہ کرنول میں ہماری آبادی 48% ہونے کے باوجود ہمیں ہمیشہ سیاسی و معاشی اعتبار سے کنارہ کش کردیا گیا اور ہمیں غیروں کے در بدر ٹھوکریں کھانا پڑرہا ہے۔ چاہے وہ کونسی بھی سیاسی جماعت کیوں نہ ہو اور کونسا ہی خود کو سیکولر ثابت کرنے والا لیڈر کیوں نہ ہو سب نے مسلمانوں کو صرف اور” صرف استعمال کرو اور پھینک دو” کی پالیسی اختیار کئے ہیں۔ آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2014 ء کے الیکشن سے قبل وائی ایس جگن موہن ریڈی نے پارٹی کی ابتداء ہی سے پارٹی کی ترقی میں سرگرم رول ادا کرنے والے عبدالحفیظ خان کو پارٹی ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا تھا ، مگر عین موقع پر پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے ایس ۔ وی ۔ موہن ریڈی کو پارٹی ٹکٹ دے کر انھیں رکن اسمبلی بنایا اور عبدالحفیظ خان کے ساتھ ناانصافی کی ۔ اس کے باوجود اُنھوں نے پارٹی کو نہیں چھوڑا، مگر موقع پرست ایس ۔ وی ۔ موہن ریڈی نے پارٹی چھوڑ کر تلگودیشم پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ، جہاںوہ خوب استفادہ کرنے کے بعد 2018ء کے الیکشن کیلئے ٹی ڈی پی کی جانب سے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے دوبارہ ایک عام کارکن کی حیثیت سے وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں کام کرنے کا وعدہ کرکے گھر واپسی کی۔ پارٹی کے لئے ابتداء ہی سے کام کرتے ہوئے ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود پارٹی کیلئے خدمات انجام دینے والے عبدالحفیظ خان کو 2019 ء کے عام انتخابات میں ٹکٹ دی گئی۔ وہ کامیاب بھی ہوگئے اور کامیابی کے بعد سے تمام شہریان کرنول خصوصاً مسلمانان کرنول کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عوام میں ان کی بہ امیج بنتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ایس ۔ وی ۔ موہن ریڈی کو کافی تکلیف ہورہی ہے، وہ عبدالحفیظ خان کو ہر قدم پر ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں، اب بلدیہ کرنول کے انتخابات ہونے والے ہیں اور مقامی طور پر ان انتخابات میں امیدواروں کو کامیاب بنانا مقامی رکن اسمبلی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جبکہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق پارٹی میں رہتے ہوئے بھی ایس ۔ وی ۔ موہن ریڈی صرف اور صرف عبدالحفیظ خان کی امیج ہائی کمان کی نظروں میں خراب کرنے کیلئے پارٹی کے ہی امیدواروں کو ناکام بنانے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں، اس بات کا چرچہ بھی ہورہا ہے کہ وہ اپوزیشن پارٹی کے ساتھ خفیہ ساز باز بھی کررہے ہیں۔ الغرض ہماری یہ خوش قسمتی ہے ،کیوں کہ طویل عرصہ کے بعد ہمیں ایک مسلم رکن اسمبلی نصیب ہوا ہے، مگر ساتھ ہی مسلمانوں کی یہ بھی ایک بدنصیبی ہی ہے کہ وہ اپنی قوم کے قائدین کی قدر اور ان پر بھروسہ نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، جبکہ ہمارے ہی ملک کی قومیں جنھیں دلت اور بچھڑے اقوام کہا جاتا ہے ان کے اندر اتفاق و اتحاد اور اپنے قائدین پر بھروسہ ہے، جس کی وجہ سے ہی کوئی بھی سیاسی پارٹی ان قوموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرأۃ بھی نہیں کرتی ،باقاعدہ وہ قومیں اپنے مطالبات قبول کروانے پر انھیں مجبور کررہی ہیں ، ہمارے آپسی انتشار کی وجہ سے ہی مسلم دشمن پارٹی آج ملک میں مسلمانوں کو مٹادینے کیلئے سیاہ قوانین N.P.R ، N.R.C اور C.A.A جیسے قوانین لاگو کررہی ہے، ان قوانین کے عدم نفاذ کیلئے ہر وہ مسلمان جو اَن پڑھ ہو، کمزور ایمان والا ہے مطالبہ کررہا ہے ، تو پھر کیونکر ایک پڑھا لکھا اور قوم کا قائد ان قوانین کے خلاف آواز نہیں اُٹھائے گا۔ یقینا آواز اُٹھارہا ہے اور ہر اُن قوانین کے خلاف وزیر اعلیٰ سے بھی بیان دلوایا ہے اور ریاست کے چاروں مسلم اراکین اسمبلی کی جدوجہد کا ہی نتیجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ وائی ایس جگن موہن ریڈی نے ریاست میں اقلیتوں خاص کر مسلمانوں کو پریشان کرنے والے کسی بھی قانون کو لاگو کرنے سے پرہیزکا تیقن دیا ہے۔اب رہی بات وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسلم اراکین اسمبلی کو اِن قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینا چاہئے، ایسا مطالبہ کرنے والے خود تو ڈوبیں گے اور قوم کو بھی لے ڈوبیں گے، کیوں کہ ایسے لوگوں کی سماج میں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، جن کی حیثیت ہے انھیں بدنام کرکے ان کے خلاف آواز اُٹھاکر خود کو مشہور کرنا چاہتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر قانون ساز اداروں میں مسلم نمائندگی نہیں ہوگی تو پھر ان اداروں میں ہمارے حق میں کون آواز اُٹھائے گا؟ کیا وہ لوگ آواز اُٹھائیں گے جو ظاہر میں سیکولر اور باطن میں آر ایس ایس کے وفادار ہیں؟ آخر ایک مسلمان، مسلمان ہی ہوتا ہے جو کتنا ہی کمزور ایماندارکیوںنہ ہو! قوم کی بقاء کے لئے ضرور آواز اُٹھائے گا ۔ رہا ان سیاہ قوانین ختم کرنے کا مسئلہ! کیا وہ مسلم اراکین اسمبلی کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اِن سیاہ قوانین کو کالعدم کردیاجائے؟ مگر ایسا نہیں ہے! کیوں کہ یہ مسئلہ مرکزی حکومت کا ہے اور ہمارے یہ مسلم اراکین اسمبلی اگر اسمبلی میں نہ ہوں تو پھر ریاستی حکومت کو مذکورہ سیاہ قوانین کے روک تھام کے لئے کون دباؤ ڈالے گا؟ اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ پر یہ دباؤ ڈالنے کیلئے ان اراکین اسمبلی کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ بلدی انتخابات کے ذریعہ رکن اسمبلی عبدالحفیظ خان کے ہاتھوں کو مزید مضبوط کرکے انھیں ایک طاقتور لیڈر بنایاجائے، تاکہ ریاستی حکومت اور وزیر اعلیٰ کی نظر میں ان کی قدر، منزلت اور اہمیت بڑھے اوروزیر اعلیٰ مسلمانوں کے حق میں عبدالحفیظ خان کی ہر بات ماننے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ اُس وقت ممکن ہوسکتا ہے جب مسلمانان کرنول آپسی اتحاد و اتفاق کے ذریعہ یکطرفہ اپنے ووٹ کا استعمال وائی ایس آرکانگریس پارٹی کے امیدواروں کے حق میں استعمال کرکے بھاری اکثریت سے کامیاب بنائیں۔ جبکہ ظاہری سیکولر اور باطنی آر ایس ایس کے لوگ چاہے وہ وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں ہوں یا ٹی ڈی پی یا دیگر پارٹیوں میں ۔ عبدالحفیظ خان کو کمزور کرنے کی قسم کھا رکھے ہیں۔ خصوصا مجلس اتحاد المسلمین(ایم آئی ایم) جوکہ ایک ’’ووٹ کٹوا‘‘ پارٹی ہے، جس کا نہ صرف شہر کرنول بلکہ ریاست آندھراپردیش میں کوئی وجود ہی نہیں ہے اور وہ صرف مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کرنے والی پارٹی ہے کو ہرگز ووٹ نہ دیں۔کیوںکہ ریاست میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی کی حکومت ہے اور ریاستی حکومت مقامی رکن اسمبلی اگر مضبوط ہو تو اس کی بات مانتی ہے۔ جبکہ مقامی طور پر رکن اسمبلی ہوتو اس کی بات حکومت میں نہیں سنی جاتی اور کارپوریٹرس میں ایک دو ایم آئی ایم کے کارپوریٹرس جیت بھی جاتے ہیں تو اس سے شہر، شہری عوام اور خاص کر مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیںہوتا۔ لہذا ایم آئی ایم کے امیدواروں کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر ہرگز ضائع نہ کریں۔ کیوں کہ شہر میں وہ ایک مسلمان رکن اسمبلی کو برداشت نہیں کرپارہے ہیں ۔ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ایک مسلمان رکن اسمبلی کے ہاتھ مضبوط کریں یا ظاہری سیکولر و باطنی آر ایس ایس کا پس منظر رکھنے والوں کے ہاتھ مضبوط کرکے اپنی کشتی کے ڈوبنے کا سبب ہم خود بنیں۔ آیئے اس بات کا عہد کریں کہ ہم متحدہ طور پر وائی ایس آر کانگریس کے امیدواروں کو ووٹ دے کر رکن اسمبلی عبدالحفیظ خان کے ہاتھ مضبوط کریں۔
مردہ قوموںکی بھی تقدیربدل جاتی ہے
خون اعمال رگوںمیںجورواںہوتاہے
دورحاضرمیںقدم بھونک کہ رکھ اے شیداؔ
دوست کے پردہ میںدشمن بھی پنہاںہوتاہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا