زندگی کا مفہوم ”(کہانی)

0
0

شیبا کوثر
(آرہ بہار)
ہر روز میں اسے اپنے مکان کی کھڑکییوں سے گزرتے ہوئے دیکھتی اور دیکھتی ہی رہتی،جب تک وہ میری نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جاتا۔اور اسکی کراہتی ہوئی آواز گاڑییوں کی تیز آواز میں چھپ نہ جاتی۔
وہ میرے گھر کے سامنے سے اکثر گزرتا تھا۔ایک کالا نحیف، کمزوراسکا ایک ہاتھ ہمیشہ کولہوں پر ہوتا،شاید اسے پیروں میں کافی تکلیف تھی۔چہرے پر یشانی کی موٹی موٹی ا بھری سی لکیریں اس کے سر پہ ایک میلی سی چادر کی گٹھری اور اس کے اندر دو تین اور چادر یں لگتی تھیں۔اور وہ زور زور سے آواز لگاتا،چادر لیجئے بھء چادر،اور پھر حسرت بھری نگاہوں سے چاروں طرف چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھتا۔آواز لگانے سے اسکی سانس پھولنے لگی اور وہ اپنے دوسرے ہاتھ کو سینے پر رکھ لیتا۔اور پھر درد بھری آواز ابھرتی یا اللّہ کرم ہے تیرا۔اسکی بے بسی دیکھ کر میری آنکھوں سے اشک بہہ آ ے کہ۔۔۔۔۔۔ہا ے ء رے زندگی۔۔۔۔۔جینے کے لئے انسان کس طرح سڑکوں پر مرتا نظر آتا ہے۔
ڈوبتے نبض کو تیز کرنے کے لئے اکھڑ تی سانس کو زندگی دینے کے لئے انسان کس طرح حالات کے پتھروں کی تیز بارش میں زندگی کو تنہا چھوڑ دیتا ہے،صرف جینے کی تمنا میں مرنا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ کیا لذت ہے یہ کیسا عشق ہے انسان کو زندگی سے
کہ وہ سو بار مر کر بھی جینا ہی چاہتا ہے۔
مجھے ایسے لوگوں کے دکھ دیکھے نہیں جاتے ۔ میرے جذبات مجھے اندر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتا۔مجھے دلی محبّت ہے ان لوگوں کے ساتھ جو سڑکوں پہ بھیک مانگتے ہیں،مگر مرنا نہیں چاہتے ۔ آخر کیسا عشق ہے زندگی سے۔۔۔۔!مجھے محبّت ہے ایسے انسانوں کو دیکھ کر ۔۔۔!
غربت اور لاچار سڑکوں پر ہزاروں امیروں کے سامنے اپنی بیبسی کا ہاتھ پھیلاتے ہیں تو اسے کوئی دھتکار دے اور کوئی دے تو احسان جتا کر۔ آج اس دنیا میں صرف دانوں پر ہی نہیں قدرت کے بناپانی پر بھی قید و پابندی ہے جو بازاروں میں بکتا بھی ہے۔۔۔۔۔۔ہزاروں بے بس مجبور انسان پیاس لگنے پر اپنی جیب ٹٹو لتے ہیں اور پھر اپنے ہونٹوں کو تر کر لیتے ہیں۔آج ہر انسان تشنگی کا احساس لئے پھر رہا ہے۔
ایک روز میں نیاسے اپنی کھڑکیوں سے دیکھا۔ہاں وہ وہی تھا مگر اسکا ایک پیر کٹآ تھا اور وہ ایک لمبی سی مضبوط چھڑی کے سہارے چل رہا تھا۔نجانے کن جذبوں نے مجھے رلا دیا اور میں اسے غور سے دیکھنے لگی۔اسکی وہی آواز بے کراں آہ لئے فضا میں گو نجتی ہوئی محسوس ہوئی ” چادر لے لو چادر جاجی ملا جی کی چادر ”چاروں سمت وہ لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہا تھا کیا حسرت تھی اسکی آنکھوں میں،کیسے امید کیدیپ چراغاں تھے اس کے دل میں۔۔۔۔! میرے منھ بے ساختہ نکل پڑا،آواز دے کر اسے بولایا،مگر گاڑیوں کی حوراً آواز میں میری آواز بار بار دب کر رہ جاتی۔اور وہ اسی طرح آواز لگاتے ہوئے آگے کی طرف بڑھتا گیا۔میں دوڑ تے ہوئے قریب گئی اور بابا کہکر آواز دیا
وہ کتنا خوش ہو گیا تھا،مجھے آج بھی یاد ہے۔میں خود سوچ رہی ہوں کہ میں کیوں لکھنے بیٹھ گئی ہوں ایک غریب چادر والے کی کہانی، ایسے لوگوں کی کہانی جنکا سماج میں کوئی مقام نہیں ہوتا،لوگوں کی نگاہیں بھی نہیں اٹھتی۔آج کا ادیب تو امیر زادوں،رئیس زادوں،وزیر زادوں اور نیتا وں کی کہانیاں تحریر کرتا ہے کیوں کہ انسے کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔میں بھی کوئی گناہ نہیں کر رہی ہوں میں تو ایک لاچار ضعیف کی کہانی لکھنے بیٹھی ہوں لیکن مجھے یقین ہے کہ جب میں یہ کہانی لکھ چکی ہونگی تو آپ کو بھی جینا آجائے گا۔آپ بھی کہینگے کہ مجھے جینا آگیا۔
میں نے پوچھا کیسی چادر یں ہیں بابا۔۔۔۔؟
اس نے اپنی انگلییوں کے اشا رے سے کہا ایک گریڈ کا ہے بابو اب تو پسن (پسند)نا پسند)پسن کی بات ہے نا۔۔۔۔،۔،
پھر میں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا وہاں آؤ وہ سامنے والے مکان میں اور میں تیزی سے سڑک پار کر کے دوسری طرف چلی گئی۔وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آہستہ آہستہ بیساکھی کے سہارے آ رہا تھا وہ چلتے چلتے تھک گیا تھا اس کی سانیس پھولنے لگی تھی وہ سڑک کہ دوسری جانب آرہا تھا کہ ایک بھییا نک شور سنائی دیا،ایک بھیآنک چیخ کی آواز سے سارا ماحول کانپ اٹھا وہ بوڑھا شخش جو میرے پیچھے پیچھے آ رہا تھا اسے ایک کار نے کچل دیا اور کار تیزی سے نکل کر سینکڑوں آدمی کی موجو دگی میں اپنی مسافت طے کرنے لگی،کسی نے نمبر نوٹ کرنے کی ضرورت محسوس نا کی۔سب آے ء اور لاش دیکھ دیکھ کر جانے لگے۔اسکے کپڑوں سے مفلسی کی خوشبو آ رہی تھی۔میں وہیں کھڑی پتھر کا ایک مجسمہ بنی یہ کہانی اپنی نظروں کے سامنے دیکھتی رہی اسکی کراہتی ہوئی آواز بار بار میرے ذہن کے اس پار سے اس پار تک پہنچ جاتی اور بیتحاشہ میری انکھوں سے آنسو رواں دواں تھے۔
آج میں نے ایک جیتی جاگتی زندگی آہ سے پر زندگی،سر کشی کرتی ہوئی زندگی دیکھی ،جس میں مجھے ایک سنوری سی سجاء ہوئی دلکش سی جو ابھی جوان تھی جیسے کوئی دلہن نظر آء وہ زندگی میری تھی ایک نازک سے بدن کی،مگر موت نے اس زندگی کا مفہوم مجھے سمجھا دیا۔۔۔۔۔۔۔!!
ختم شد۔(غیر مطبوعہ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[email protected]

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا