ندا فاضلی کے فلمی نغموں کا مطالعہ (قسط اول)

0
0

 

فرحانہ خانم
ریسرچ اسکالر
مگدھ یونیورسٹی، بودھ گیا

 

ادب سے تعلق رکھنے والے بہت کم ایسے شاعرہیں جوفلموں میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ادب سے تعلق رکھنے والے شاعر سمجھوتہ نہیں کرتے اور فلموں کا ایک اپنا مزاج ہے۔ شاعر شعر کہنے کے لئے آزاد ہوتا ہے اور فلموں میں نغمہ لکھنے کی پابندی ہوتی ہے کہ موسیقکار ہدایت کار کے مطابق نغمے لکھیں جائیں پھر عوام کے مزاج کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ کیسے گیت پسند کریں گے۔ ایسے میں معیار کو برقرار رکھنا ناگزیر ہو جاتا ہے لیکن ندا فاضلی نے ادب کا معیار برقرار رکھا ۔جب وہ ممبئی آئے اور ممبئی کی زندگی کو دیکھا تو یہ کہنے پر مجبورہو گئے۔
’’بمبئی بڑی گندی بستی ہے ۔ یہ آسانی سے ہرایرے غیرے کومنہ نہیںلگاتی ۔پہلے اپنے محور آزماتی ہے ۔راستوں پرکئی چپلیں گھسواتی ہے ۔بار باردیواروں سے چھین ہٹاتی ہے۔بنامذہبی کے کئی روز ے رکھواتی ہے ۔ جھوٹے وعدے کرتی ہے اورطویل کام کرتی ہے ۔ لیکن جب توڑ دیتی ہے توتازہ دم کرنے کے لئے نیاتضاد دیتی ہے ۔ایک وعدے سے دوسرے وعدے تک ضرورتیں مسلسل رہتی ہیں ۔نہ وعدے ختم ہوتے ہیںنہ خواب مایوس ہوتے ہیں یہاں کے خواب بھی پیپل کے درخت کی خاصیت رکھتے ہیں ۔اچھے بدلے ہرموسمیں کہیںبھی اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔صبح ہوتے ہی کوئی اَن دیکھا ہاتھ ڈھلان سورج کی گنبد لڑکھڑاجاتاہے اورپورے بمبئی اس کے پیچھے بچوں کی طرح بھاگتی ہے ۔ بھاگتے بھاگتے لوگ تھک جاتے ہیں اورسورج روز کی طرح سمندر میںاترجاتاہے ۔‘‘
1978 میں ایک فلم ’’شاید‘‘ آئی تھی۔ جس میں پہلی بار ندا فاضلی سے جئے پرکاش نے نغمہ لکھوایا تھا۔ جسے محمد رفیع اور آشا بھوسلے نے گایا تھا۔حالانکہ یہ فلم فلاپ ہو گئی لیکن ندا فاضلی فلمی دنیا سے متعارف ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کئی فلموں کے نغمے لکھے لیکن فلم ’’آپ تو ایسے نہ تھے‘‘ کہ ایک گیت نے انہیں مقبولیت عطا کی ۔ اس فلم کی موسیقار اوشا کھنّہ اس گیت سے اتنی متاثر ہوئیں کہ اسے تین سنگر کی آواز میں ریکارڈ کرایا۔ محمد رفیع، لتا منگیشکر اور منہر اُدھاس۔ فلم میں راج ببّر، رنجیتا کوراور دیپک پراشر پر اس گیت کو فلمایا گیا۔ یہ گیت آج بھی لوگوں کی زبان پر ہے۔
تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتاہے تری محفل ہے
تیرے بغیر جہاں میں کوئی کمی سی تھی
بھٹک رہی تھی جوانی اندھیری راہوں میں
سکون دل کو ملا آ کے تیری بانہوں میں
میں کھوئی ہوئی موج ہوں تو ساحل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
ترے جمال سے روشن ہے کائنات میری
میری تلاش تیری دلکشی رہے باقی
خدا کرے یہ دیوانگی رہے باقی
تیری وفا ہی میری ہر خوشی کا حاصل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
ندا فاضلی فلم ’’سُر‘‘ کے سبھی گانے لکھے اور سبھی گانے پسند کئے گئے۔ اُس فلم کا یہ نغمہ بے حد پسند کیاگیا۔
کبھی شام ڈھلے تو میرے دل میں آ جانا
کبھی چاند کھلے تو میرے دل میں آجانا
مگر آنا اس طرح تم کہ یہاں سے پھر نہ جانا
کبھی شام ڈھلے تو میرے دل میں آجانا
تو نہیں ہے مگر پھر بھی تو ساتھ ہے
پاس ہو کوئی بھی تیری ہی بات ہے
تو ہی میرے اندر ہے تو میرے باہر ہے
جب سے تجھ کو جانا ہے میں نے اپنا مانا ہے
مگر آنا اس طرح تم کہ یہاں سے پھر نہ جانا
رات دن ہی میری دلکشی تم سے ہے
زندگی کی قسم زندگی تم سے ہے
تم ہی میری آنکھیں ہو سونی تنہا راہوں میں
چاہے جتنی دوری ہو تم ہو میری بانہوں میں
مگر آنا اس طرح کہ یہاں سے پھر نہ جانا
اسی طرح فلم ’’سویکار کیا میں نے‘‘ کا یہ نغمہ بھی بے حد پسند کیا گیا۔
اجنبی کون ہو تم جب سے تمہیں دیکھا ہے
ساری دنیا میری آنکھوں میں سمٹ آئی ہے
تم تو ہر گیت میں شامل تھے ترنم بن کے
تم ملے ہو مجھے پھولوں کا تبسم بن کے
ایسا لگتا ہے برسوں سے سناشائی ہے
اجنبی کون ہو تم……
خواب سا رنگ حقیقت میں نظر آیا ہے
دل میں دھڑکن کی طرح کوئی اُتر آیا ہے
آج ہر سانس میں شہنائی سی لہرائی ہے
اجنبی کون ہو تم……
کوئی آہٹ سی اندھیروں میں چمک جاتی ہے
رات آتی ہے تنہائی مہک جاتی ہے
تم ملے ہو یا محبت نے غزل گائی ہے
اجنبی کون ہو تم……
جب کمال امروہی فلم ’’رضیہ سلطان ‘‘بنا رہے تھے اس کے نغمے جاں نثار اختر لکھ رہے تھے۔ اسی درمیان جاں نثار اختر کا انتقال ہوگیا تو کمال امروہی نے ندا فاضلی سے رابطہ کیا اور فلم ’’رضیہ سلطان‘‘ کے لئے دو نغمے لکھوائے اور یہ دونوں نغمے بے حد پسند کئے گئے۔ پہلا نغمہ ملاحظہ فرمائیے:
آئی زنجیر کی جھنکار خدا خیر کرے
دل ہوا کس کا گرفتار خدا خیر کرے
جانے یہ کون میری روح کو چھو کر گزرا
اک قیامت ہوئی بیدار خدا خیر کرے
لمحہ لمحہ میری آنکھوں میں کھنچی جاتی ہے
اک چمکتی ہوئی تلوار خدا خیر کرے
خون دل کا نہ چھلک جائے میری آنکھوں سے
ہو نہ جائے کہیں بیزار خدا خیر کرے
اس نغمہ کے حوالے سے یہ واقعہ بھی بتاتی چلوں کہ کمال امروہی محرم کے دنوں میں جب لکھنؤ گئے تو ایک مجلس میں پہلی بار کبّن مرزا کو سنا۔ کبّن مرزا نوحہ گا رہے تھے۔ کمال امروہی ان کی آواز سے بے حد متاثر ہوئے اور اسی آواز کو اس نغمہ کے لئے منتخب کیا۔ جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ اس فلم میں دھرمیندر نے ایک حبشی غلام کا کردار ادا کیا تھا اور اس کی مناسبت سے کبّن مرزا کی آواز بے حد متاثر کن تھی۔
فلم’’ سرفروش ‘‘میں ایک نغمہ ندا فاضلی نے بھی لکھا جو بے حد مقبول ہوا۔ یہ نغمہ جگجیت سنگھ نے گایا تھا اور اسے نصیر الدین شاہ پر فلمایا گیا تھا جو فلم میں ایک گلوکار کا رول ادا کر رہے تھے۔ نغمہ سننے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آواز اور نغمہ نصیرالدین شاہ کی بالکل اپنی ہے۔
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجئے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
اُن سے نظریں کیا ملیں روشن ستارے ہو گئے
آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے
کھلتی زلفوں نے سکھائی موسموں کو شاعری
جھکتی آنکھوں نے بتایا مے کشی کیا چیز ہے
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے
ندا فاضلی نے ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، جاں نثار اختر کی طرح کبھی بھی فلمی نغموں میں ادب کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ معیار کا پورا خیال رکھا۔ ندا فاضلی کا کوئی بھی نغمہ شعریت سے خالی نہیںہے۔ ایک بات اور عرض کرتی چلوں کہ شاید ہی فلمی دنیا کا کوئی ایسا گلوکار ہوگا جس نے ندا فاضلی کے گیت نہ گائے ہوں۔ذہل میں کچھ گیت کے بول ، فلم کا نام اور گلوکار کے اسماء گرامی درج کر رہی ہوں:
گیت کے بول فلم کا نام گلوکار کے اسماء گرامی
ایسا ہو تو کیسا ہو گہرا زخم کشور کمار اور سوپنا
بہت خوبصورت ہیں آنکھیں تمہاری ودھ جگجیت سنگھ
بے قابو ہو گیا بے قابو الکا یاگنک، اودت نارائن
چاند سا چہرا رات سی زلفیں گہرا زخم محمد رفیع، آشا بھوسلے، بھوپیندر
چاہت ندیا چاہت ساگر چاہت الکا یاگنک اورونود راٹھوڑ
دوپٹے پلّوکا کدھر کا کدھر ہے ترکیب ریچا شرما
ایک نہیں دو نہیںسو سو بار بیوی او بیوی کشور کمار اورلتا منگیشکر
گھر سے مسجد ہے بہت دور تمنّا سونو نگم
گوری ہو کالی ہو نخرے والی ہو بیوی او بیوی کشور کمار
ہر اک راستہ سجا کے چل امیر آدمی غریب آدمی آشا بھوسلے
ہے گنگا میّا بس اتنا سا خواب ہے سونو نگم
عشق ابھی تک زندہ ہے بھاگ متی فرید صابری اور ونود سہگل
جب سے قریب ہو کے چلے فلم لیلا جگجیت سنگھ
جھلمل تارے کیا اپنے ہیں یہ سارے چینٹی چینٹی بنگ بنگ شان، شیریا گھوشال
زندگی یہ زندگی دولت لتا منگیشکر
کیسے یہ رشتے انجانے اظہار انورادھا پوڈوال
کس کی صدائیں مجھ کو بلائیں ریڈ روز آشا بھوسلے ، کشور کمار
لیٹس بی ون چینٹی چینٹی بنگ بنگ کنال گانجا والا
میری آنکھوں نے چنا ہے ترکیب جگجیت سنگھ، الکا یاگنک
میری بلبل یوں نہ ہو گل بیوی او بیوی کشور ، لتا
موتی ہو تو باندھ کے رکھ لوں دولت کشور کمار
نہ وہ انکار کرتی ہے ہمالیہ پتر الکا یاگنک ، اودت، نارائن
پیسے کا کھیل نرالا بیوی او بیوی آشا بھوسلے، محمد رفیع
صدیوں سے تو دنیا میں بیوی او بیوی کشور کمار
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو تمنا کمار شانو
تیرے بنا نشا ہے ادھورا ودھ سونیدھی چوہان
تجھے ڈھونڈوں میں ڈھونڈوں کیسے ترکیب ونود راٹھوڑ ،الکا یاگنک
تم نے دکھائے ایسے سپنے چاہت ونود راٹھوڑ
تم سے مل کر زندگی کو یوں لگا چور پولس لتا منگیشکر
وقت سے پہلے قسمت سے زیادہ بیوی او بیوی کشور کمار
اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سی فلموں میں نغمہ نگاری کی ہے۔جہاں وہ ایک مشہور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ وہیں ایک کامیاب نغمہ نگار کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں لیکن اس میں بھی انہوں نے اچھی شاعری پیش کی اور معیار کا پورا خیال رکھا۔پریم رومانی ندا فاضلی کے گیتوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا