محمد دانش غنی نے مفروضات پر ضرب لگائی ہے : شمیم طارق

0
0

ڈاکٹر محمد دانش غنی کی کتاب ’’ شعر کے پردے میں ‘‘ کی رسمِ اجرا
رتناگری؍؍نئی سوچ اور نئے ذہن کے ناقد ڈاکٹر محمد دانش غنی کی تصنیف ’’ شعر کے پردے میں ‘‘ کی تقریبِ رونمائی گوگٹے جوگلے کر کالج کے زیرِ اہتمام رادھا بائی شیٹے سبھا گرہ میں انجام پذیر ہوئی ۔ اس پر شکوہ تقریب کی صدارت رتناگری ایجوکیشن سوسائٹی کی چیئر پرسن محترمہ شلپا تائی پٹوردھن نے فرمائی اور کتاب کا اجرا خطیبِ کوکن جناب علی ایم شمسی کے دستِ مبارک سے عمل میں آیا ۔ مہمانان کی حیثیت سے کویت سے تشریف لائی ہوئی اردو کی ممتاز ادیبہ محترمہ میمونہ علی چوگلے اور رتناگری کے معروف معالج ڈاکٹر علی میاں پرکار موجود تھے ۔ جناب علی ایم شمسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حق شناسی تڑپنے کا عمل ہے اور حق گوئی تڑپانے کا ۔ محمد دانش غنی میں یہ دونوں اوصاف بڑے روشن ہیں ۔ وہ شاعری اور فکشن نگاری بھی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے تحقیق و تنقید کی راہ اختیار کی اور اپنی تصنیف سے مجھے چونکا دیا ۔ ان کے قلم کی روانی اور فکرکی تازگی قاری کو بڑا متاثر کرتی ہے ۔ بعد ازاں مذاکرے کی صدارت کرتے ہوئے معروف شاعر ، نقاد اور کالم نگار شمیم طارق نے اپنی تقریر میں کہا کہ اگر مضمرات پر بر وقت ضرب نہ لگائی جائے تو وہ مسلمات کا درجہ حاصل کرلیتے ہیںاور اس طرح غلط باتیں پھیلتی جاتی ہیں ۔ محمد دانش غنی نے مدیران کے نام مکتوب میںکئی اہم نکات کی نشاندہی کی ہے ۔ مثلا آیت اور غیر آیت کے درمیان ہمیشہ کے لیے حدِ فاصل قائم کی جاچکی ہے ۔ ’’ آیت سی ‘‘ ممکن ہی نہیں ہے ۔ تمام مخلوقات مل کر بھی کسی آیت کے مثل یا اس جیسی کوئی دوسری آیت بنا ہی نہیں سکتی ۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی اور محمد دانش غنی کی اس جرأت پر رشک آیا کہ انھوں نے اس مذاکرے میں ایسے مضامین بھی پڑھوائے ہیں جن میں ان کی کتاب پر تنقید کی گئی ہے ۔ یہ فیصلہ پڑھنے والے کریں گے کہ تنقید کرنے والے صحیح ہیں یا جس پر تنقید کی گئی ہے وہ صحیح ہے ۔ انھوں نے محمد دانش غنی کو کچھ قیمتی مشورے بھی دیے کہ وہ آئندہ اپنی تصانیف شائع کرتے ہوئے ان کا لحاظ رکھیں ۔ شمیم طارق کے اس جملے پر محفل زعفران زار ہوگئی کہ عبدالرحیم نشترؔ نے اب تک جتنے شعر اور مصرعے کہے ہیں ان میں سب سے خوبصورت مصرعہ کا نام محمد دانش غنی ہے ۔تسنیم انصاری ( نائب مدیر ، ہفت روزہ کوکن کی آواز مہاڈ ) نے اپنی تقریر میں کہا کہ گوگٹے کالج میں ڈاکٹر دانش کی اردو زبان و ادب کے حوالے سے جاری سرگرمیاں اس بات کا اشاریہ ہیں کہ رتناگری بہت تیزی سے اردو کا مرکز بن کر ابھرنے جا رہا ہے اور جہاں تک ڈاکٹر دانش کی کتاب ’’ شعر کے پردے میں ‘‘ پر اظہارِ خیال کی بات ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ انھوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے بڑی محنت اور وسیع مطالعہ کی بنا پر لکھا ہے مگر ابھی ہم ان کی تحقیق و تنقید کے تعلق سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ البتہ امکانات تلاش کرسکتے ہیں ۔ اس مذاکرے میں پروفیسر سلیم محی الدین ( محمد دانش غنی : اردو تنقید کا نیا ستارہ ) ، ڈاکٹر ماجد قاضی ( شعر کے پردے میں : میری نظر میں ) ، ڈاکٹر غضنفر اقبال (شعر کے پردے میں : ایک جائزہ ) ، ڈاکٹر صوفیہ بانو اے شیخ ( محمد دانش غنی کی ادب نوازی ) اور ڈاکٹر انصار احمد درویش ( شعر کے پردے میں : ایک محاسبہ ) نے محمد دانش غنی کے فکر و فن پر مضامین پڑھے ۔ عبید حارث اور تاج الدین شاہد نے منظوم خراجِ تحسین پیش کیا ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا