اس ملک میں سب سے بڑا جھوٹ یہ بولا گیا کہ یہاں کی اکثریت ہندو ہے

0
0

پونے کے اعظم کیمپس گراؤنڈ و دیگر جگہوں پر میں مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی کا خطاب
غلام رسول قاسمی

ملک میں سی اے اے اور این پی آر کے خلاف زور و شور سے تحریک جاری ہے، کالے قانون کے خلاف عوامی بیداری مہم چلائی جا رہی ہے، اس تحریک میں رہنمائی کردار ادا کرنے والے علماء کرام میں مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب سرفہرست ہیں، جب سے یہ قانون بنا ہے تب سے پورے ملک میں پوری تندہی کے ساتھ بیداری مہم چلا رہے ہیں، اسی مناسبت سے مولانا محترم پونہ کے تین روزہ دورے پر ہیں، کل رات دیر گئے مولانا نے اعظم کیمپس، پنمپری، اور کونڈوا میں علماء و عوام الناس کی کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے سب سے پہلے قرآن کی روشنی میں فرمایا کہ بسا اوقات جس چیز کو ہم برا سمجھ رہے ہوتے ہیں اللہ سبحانہ وتعالی کی منشاء اور فیصلے کے مطابق اس میں ہمارے لیے خیر ہوتی ہے، یہ کالا قانون بیشک برا ہے لیکن اللہ سبحانہ وتعالی ایسی خیر اس میں پیدا کی ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلمان جوکہ اپنے مسلکی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو سلام کرنے تک گوارا نہیں کرتے تھے مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اب متحد ہو کر ایک پلیٹ فارم پر آ چکے ہیں،یہاں تک کہ دیگر مذاہب کے وہ برداران وطن جن سے ہم دور رہتے تھے اور وہ ہم سے نفرت کرتے تھے آج ہمارے قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں، اب وقت بدل چکا ہے ان شاء اللہ یہ تحریک ایک نئے بھارت کے بدلاؤ کی طرف گامزن ہے، مولانا نے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ اس وقت ہمیں ایک تماشائی کے طور پر نہیں بلکہ ایکٹویسٹ کی حیثیت سے میدان میں اتر کر کام کرنا ہوگا، اور ہمیں برادران وطن کو یہ بتانا ہوگا مذکورہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ ملک کے ہر اقلیتی طبقے کے خلاف ہے، کیوں کہ جن کاغذات کی مانگ کی گئی ہے وہ کاغذات ملک کے اسی فیصد عوام کے پاس نہیں ہیں، گیارہ کروڑ آدی واسی جو کہ اصل بھارتی ہیں ان کے دو سو لوگوں کے پاس بھی کاغذات موجود نہیں ہیں، وہیں دلتوں اور نچلے ذاتی طبقوں کے پچاسی و ننانوے فیصد لوگوں کے پاس کاغذات نہیں ہیں. جب اس قانون پر عملدرآمد ہوگا تو کاغذات نہ ہونے کی صورت میں سب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا. مولانا مکرم نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہاں کے اقلیتوں کو بتانا ہوگا کہ پوری سازش کے تحت جنگ عظیم دوم اور اس کے بعد سے ہی انھیں سب سے بڑا جھوٹ برہمنوں کی جانب سے یہ بولا گیا کہ آدی واسی، دلت، بدھشت، اور سکھ تم سب ہندو ہو، جبکہ برہمنوں کے جبر و است سے و دیگر وجوہات کی بنا پر گرونانک نے اپنے مذہب کی الگ بنیاد رکھی، بدھشت بھی ہندو نہیں ان کا بھی الگ مذہب ہے اور عرصے تک کہتے رہے کہ ہم ہندو نہیں ہیں، انھیں بھی زبردستی ہندو کہلوایا گیا، اسی طرح دلت بھی ہندوؤں و برہمنوں کی تنگ نظری اور چھوت اچھوت سے دلبرداشتہ تھے اسی وجہ سے ان کو ڈاکٹر امبیڈکر نے ہندوؤں سے الگ شمار کرنے کے لیے انگریز کے دور حکومت میں یہ بل پاس کروایا کہ ہمیں ہندو نہ لکھا جائے! ہم ہندو نہیں ہیں! اس لیے ہمیں علیحدہ حقوق دیئے جائیں!. غیر ہندو کو زبردستی ہندو بنانے کی برہمنوں کی سب سے بڑی سازش ہے، تاکہ دوبارہ ان کی بالادستی قائم ہو اور تمام مذاہب کے لوگوں کو دوبارہ غلامی کے دور میں لے جائے، نیز مولانا نے فرمایا کہ سب ہندو ہمارے خلاف نہیں ہیں بلکہ دیگر اقلیتی طبقے کے ساتھ ساتھ اکثریت انصاف پسند ہندو ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں صرف چند بدمعاش ہیں جو اس طرح کے قوانین لاکر ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں، یہ بھی کہا کہ میں دہلی میں تھا وہاں میری عیسائی برادری سے بھی بات ہوئی، ان کے پادریوں نے مجھے بتایا کہ ان کے فادرز نے آپسی میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم مذہبی لوگ ہیں نہ کہ سیاسی اس لیے ہم سب نے مذہبی جماعت (مسلمانوں ) کا ساتھ دینے پر اتفاق کیا ہے، اخیر میں محترم نے ملک کی تمام شاہین باغوں میں بیٹھی ماؤں بہنوں کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا مرتبہ انتہائی بلند ہے، کیوں کہ آپ نے ایک ایسی تحریک چلائی ہیں کہ جس کی آواز ساری دنیا میں گونج رہی ہے، اللہ نے آپ کو وہ مقام دیا کہ ایک عورت کے دوڑنے کو اللہ نے اتنا پسند کیا کہ اس کو قیامت تک سنت بنا دیا، سب سے پہلے اسلام لانے والی اور اسلام کو تقویت دینے والی حضرت خدیجہ? عورت ہیں، اسلام کے لیے سب سے پہلے جان کا نذرانہ پیش پیش کرنے والی حضرت سمیہ عورت ہیں، اللہ آپ کی قربانیوں کو شرف قبولیت بخشے. پہلے روز کے موقع پر ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے پڑپوتے راج امبیڈکر بھی موجود تھے انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی دہشت گرد جماعت کے ہاتھ میں ملک ہے اور وہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے ناپاک عزائم کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے میری ملک کے تمام جمہوریت پسند عوام سے اپیل ہے کہ اس وقت ہمیں بابا صاحب کا بنایا ہوا اور لکھا ہوا مساوی سنویدھان بچانے کی سخت ضرورت ہے ہم سب کو میدان میں آنے کی ضرورت ہے.

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا