غلام نبی کمار کی تنقیدی بصیرت

0
0

عامر نظیر ڈار

قسط دوم

کتاب میں ’’افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فنکار:بلونت سنگھ ‘‘ کے عنوان سے بھی ایک مضمون ہے ۔مضمون نگارکا یہ مضمون جب رسالہ ’’ثالث‘‘میںشائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا تواس وقت راقم نے ان سے’’گم شدہ‘‘لفظ عنوان سے باہر نکالنے کی صلاح دی تھی۔کیونکہ میرے خیال سے بلونت سنگھ گم شدہ فنکار نہیں ہے بلکہ اردو کی تمام اہم کتابوں میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر ملتا ہے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ’’کلیات بلونت سنگھ ‘‘کو شائع کر کے ان کو گمشدہ ہونے سے بچا لیا ۔اتنا ہی نہیں ملک اور بیرون ملک کی کئی اہم جامعات میں ان پر تحقیق ہو رہی ہے ۔مصنف نے بھی اس بات کا ذکر کتاب کے پیش لفظ میں کیا ہے۔خود راقم بھی انہی پر تحقیق کررہے ہیں۔بہرکیف مصنف نے اس مضمون میں بلونت سنگھ کی پوری افسانہ نگاری کا احاطہ کیا ہے اور اور ان کے کئی اہم افسانوں کے موضوعات اور کردار نگاری کا جائزہ بھی لیا ہے اور ساتھ ہی کچھ قداور ناقدین کی آرا سے بھی ان کی افسانہ نگاری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش ؎کی ہے۔ غلام نبی کمارکی کتاب میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک ’’پروفیسر ظہیر احمد صدیقی :حیات و خدمات ‘‘ پربھی ایک اہم مضمون ہے۔ اس مضمون میں کمارنے ظہیر احمدصدیقی کی ادبی خدمات کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی ان کی کتب کی فہرست بھی دی ہے جسکی وجہ سے یہ مضمون صدیقی کی حالات ِزندگی ،ادبی خدمات اور ان کی تحقیقی وتخلیقی خدمات کو جاننے اور سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔’’مقالات پروفیسر محمد ابراہیم ڈار :ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘اس مضمون میں بھی کمار نے ’’مقالات پروفیسرمحمد ابراہیم ڈار ‘‘ میںشامل مضامین کا بغور مطالعہ کیا ۔اس مجموعے میں شامل موضوعات سے ڈار کی تحقیقی صلاحیتوں کا بھی اعتراف ہوتا ہے ۔مصنف نے اس کتاب کے تمام مضامین کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا ہے ۔مقالات پروفیسرمحمد ابراہیم ڈار کے مضامین پر تجزیہ کرکے وہ جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس کا ذکر مضمون کے آخر میں کچھ اس طرح کرتے ہیں:’’مقالات ڈار کے تقریباًسبھی مضامین تحقیق نوعیت کے حامل ہیںاور سب کو تحقیق کے میدان میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔زیر نظر جدید نظر ایڈیشن کے منظر عام پر آنے سے اس کی وقت میں قابل قدراضافہ ہوگیا ہے۔اس قدر دیر پا،مستند اور اعلیٰ تحقیقی سرمایے کی حفاظت بھی اردو کی بقا ،ترقی اور اس کے تحفظ کا ضامن بنتی ہے۔ورنہ ہمارے بزرگوں کا بہت سا علمی وادبی تحقیقی سرمایہ دستبر وزمانہ ہوگیا ہے اور بہت سا اردو رسائل وجرائد کے اوراق میں دب کر رہ گیا ہے۔‘‘’’ص۱۳۹،قدیم وجدید ادبیات‘‘ شوکت پردیسیؔ: شخصیت اور شاعری‘‘ کمار نے اس مضمون میں مشہور شاعر شوکت پردیسیؔ کی شخصیت اور شاعری کا جائزہ لیا ہے ۔شوکت پردیسی ؔایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی بھی مجموعہ شائع نہیں کیا البتہ ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزندنے والد کے اس خواب کو پورا کیا ہے اور پھر۲۰۱۱ء سے۲۰۱۵ء تک ان تین شعری مجموعوں کے علاوہ ایک نثری کتاب بھی شائع ہوکر منظر عام پر آئی۔موصوف نے مضمون میں پردیسی ؔ کے تینوںشاعری مجموعوں کا مختصر سا تعارف اور ان کے کلام کا کچھ نمونہ بھی پیش کیا ہے جس سے اردو کے ہرایک قاری کو شوکت پردیسی کی شاعری اور ان کی شخصیت کو جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔نیز ’’زبیر رضوی کی ادبی خدمات‘‘ پر بھی موصوف نے بڑی محنت کے بعدمضمون تحریر کیا ہے۔کیونکہ زبیر رضوی بیک وقت شاعر ،محقق،ناقد ،اور صحافی وغیرہ تھے۔ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے البتہ مصنف کے اس مضمون سے اس بات کا علم صاف طور پر عیاں ہوجاتا ہے کہ انہوں نے زبیررضوی کے ہر ایک گوشے کو غور سے مطالعہ کیا ہے ۔اس مضمون میں کمار نے ان کی شاعری اور نثری خدمات کے علاوہ بحیثیت صحافی بھی ان کی خدمات پر روشنی ڈالی اور ان کی کتب کی فہرست بھی درج کی ۔وہ ایک جگہ مضمون میں لکھتے ہیں:’’زبیر رضوی جنگ آزادی کے فوراًبعد شاعری کے اُفق پر چمکنے والے ایسے تابندہ وپائندہ ستارے ہیں جو ایسے طلوع ہوئے کہ ادب کی دنیا میں روشنی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔زبیر رضوی بیک وقت شاعر،ادیب،نقاد،مترجم،مبصر ، مرتب،مکتوب نگار،سوانح نگار،صحافی اور دانشور کی حیثیت سے مشہور ہیں ،غرض وہ ایک کثیر الجہات اور متنوع شخصیت کے مالک ہیں۔‘‘’’ص۱۵۲،قدیم وجدید ادبیات‘‘ ’’نورشاہ:فکروفن:ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘دراصل نورشاہ :فکروفن محمد اقبال لون کی مرتب کردہ تصنیف ہے۔غلام نبی کمار نے اس مضمون میںان کی کتاب کاتجزیاتی مطالعہ کر کے اس میں شامل مضامین کے حوالے سے اپنے خیالات کا عمدہ اظہار بھی کیا ہے ۔نورشاہ ارض کشمیر کا ایک ایسے ادیب ہیں جو بیک وقت کئی اصناف میں طبع آزمائی کر رہے ہیںاور ابھی باحیات ہیں۔انہوں نے اپنے قلم سے ادب کی کافی خدمت کی ہے اور امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں سلامت رکھا تو وہ اپنے قلم کے اور بھی جوہر دکھائے گے ۔مصنف نے ان کی شخصیت کا بھی مختصر تعارف اپنے مضمون کے شروع میں دیا ہے۔جسکی وجہ سے نورشاہ کی شخصیت کے بارے میں ہر اس قاری کو جاننے کا موقع مل جائے گا جو ان کی تحریروں کا شیدائی ہے۔نور شاہ اس وقت نہ صرف کشمیر کا بلکہ پورے ادب کا ایک ایساروشن ستارہ ہے جس کے چمکتے رہنے کی ہرکوئی دست بستہ ہیں۔ اس مضمون کے بعد کمار نے ’’۱۹۶۰کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب ‘‘کے مضمون میں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے نقوش ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔مصنف نے اپنے اس مضمون میں کئی سارے شاعروں کا کلام پیش کیا ہے۔یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا ہے ۔اسی طرح ’’دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعراء ‘‘،’’جموں وکشمیر کی معاصر اردو شاعری ‘‘،’’بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گوشعرائ‘‘،’’مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ‘‘ایسے موضوعات ہیں جن پر موضوع تحریر کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت اور مطالعے کی ضرورت ہوتی ہیں۔کمار کے ان مضامین کے مطالعے سے اس بات کا صاف طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان مضامین کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے ان کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی ۔ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد کافی نئی معلومات بھی مل جاتی ہے۔ ’’اردو زبان میں سائنسی صحافت‘‘کتاب کی فہرست میں ایک انوکھا مضمون ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے اردو صحافت میں سائنسی موضوعات کو کب اور کن اخباروں اور رسائل نے اپنی زینت بنایا ہے کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اس کا مطالعہ کرنے سے قاری سائنسی صحافت کے حوالے سے بہت سی مفید جانکاری  حاصل کرسکتا ہے ۔کتاب میں ’’کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے‘‘کے عنوان پر بھی مضمون شامل ہے ۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے رسالہ کتاب نما کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کے چند خاص شماروں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جسے کئی فائدے ہوئے ہیں ایک تو قاری اس کے خاص شماروں سے واقف ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں کن اشخاص کے مضامین شامل ہے ،کس نوعیت کے ہیں اس کا بھی علم ہوجاتا ہے۔اسی طرح کمار نے ’’ذہن جدید اور زبیر رضوی‘‘پر بھی ایک طویل مضمون لکھا ہے۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے ایک تو زبیر رضوی کی صحافتی زندگی پر بحث کی اور دوسرا رسالہ ’’ذہن جدید‘‘ کی ابتدا سے لے کر آخری دور تک کا بھر پور جائزہ لیا۔غلام نبی کمار نے اپنے اس مضمون میں ’’ذہن جدید ‘‘کے تقریباً تمام شماروں کا ذکر کرکے ان میں شائع شدہ مضامین پر بھی گفتگو کی ہے ۔’’ذہن جدید ‘‘ کے حوالے سے لکھے گئے معتبر ناقدین کے تاثراتی کلمات کو بھی مصنف نے اپنے اس مضمون میں جگہ دی ۔جس سے اس مضمون کی اہمیت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ذہن جدید ‘‘ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اس کتاب کے آخر پر مصنف نے ’’خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ‘‘کے عنوان سے بھی ایک طویل مضمون قلم بند کیا ہے۔یہ دراصل آج کے دور کے معتبر ناقد حقانی القاسمی کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ ’’انداز بیان‘‘کے اولین شمارے جو خواتین کی خودنوشتوں کے جائزے پر محیط ہے پر لکھا گیا ہے ۔اس مضمون میں انہوں نے ان تمام مضامین کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس شمارے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔  ’’قدیم و جدید ادبیات‘‘ غلام نبی کمار کی مختلف رنگوں کا مجموعہ ہے ۔اس مجموعے میں شامل مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد مصنف کے وسیع مطالعے کا اندازہ ہوجاتا ہے، ساتھ ہی ان کو اردو زبان پر کس قدر گرفت حاصل ہے اس کا بھی علم ہوتا ہے اور انہوں نے کس ہنرمندی اور ایمانداری کے ساتھ اپنے ان مضامین کو ضبط تحریر میں لایا ہے اس فن کا بھی برملا اظہار ہوتا ہے ۔یہ کتاب غلام نبی کمار کی تحقیقی وتنقید ی نوعیت کا ایک بہترین سرمایہ ہے ۔میں اپنے اس مضمون کا اختتام ڈاکٹر مغیث احمد کے اس اقتباس پر ختم کرتا ہوں جو انہوں نے اس کتاب کے فلیپ پر مضامین کے حوالے سے اپنا  اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:’’غلام نبی کمار کے مضامین اور ان کے موضوعات کو دیکھ کرذہن میں اردو ادب کے ایک ایسے سپاہی کا ہیولیٰ متصورہوتا ہے جو محنتی ومخلص ہونے کے ساتھ ہر طرح کی ادبی لابیوں سے دور ،مفاد پرستی سے ماور اور تنازعات سے دور رہ کرسرگرم عمل ہے۔غلام نبی کمار کی اس غیر معمولی علمی پیش رفت میں یقیناًان کی غیر متنازع شخصیت اور ان کے مخلص اساتذہ کے زریں اصول ودعائیں کارفرماہیںجو مستقبل میں ان کی کامیابی کا ضامن بن سکتے ہیں۔‘‘ ٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا