دہلی میں فسادات کی ذمہ دار مرکزی سرکار

0
0

جموں وکشمیر میں تیسرا سیاسی محاذ محض فراڈ،شہریت ترمیمی قانون پرنظرثانی کی جائے:مسعود اظہر
ریاض ملک

منڈی؍؍ ملک بھر میں اس وقت این آر سی این آر پی اور سی اے اے کو لیکر سخت تشویش پائی جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے کئی ریاستوں میں پر زور احتجاجی مظاہرہ ہوئے جس کی تازہ مثال دہلی شاہین باغ کا احتجاجی دھرنہ ہے۔ اس مسئلے کو لیکر جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی کے شعبہ اردو کے طالب علم مسعود اظہر نے منڈی ہیڈ کواٹر پر ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس دوران انہوں نے نیشنل رجیسٹر چار سٹیزن نیشنل پپولیشن رجسٹر اور سٹیزن امنڈمنٹ ایکٹ راجدھانی دہلی کے موجودہ حالات اور جموں وکشمیر میں تیسرے محاذ کے قیام پر تبادلہ خیال کیا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو ملک بھر میں جو حالات بنے ہوئے ہیں اور لوگوں میں خوف وڈر کا ماحول ہے۔ اس کو ختم کرنے کے لئے مرکزی سرکار کو CAA پر نظر ثانی کی جاے NPR کو 2024 تک مؤخر کیا جائے اور NRC کو بالکل منسوخ کیا جائے۔ انہوں نے دہلی میں موجودہ حالات کے تناظر میں کہا کہ موجودہ دہلی کے حالات اور 24 فروری کو کھیلا جانے والاننگا ناچ کروانے کی ذمہ دار مرکزی سرکار اور دہلی کے وزیر اعلی ارون کیجری وال بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 5 اگست کو ریاست جموں وکشمیر کا خصوصی درجہ ختم کیا راتوں رات پوری ریاست جموں وکشمیر کے 25 کروڑ آبادی کو گھروں میں بند کردیاگیا دفعہ144 نافذ کردیاگیا۔ تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ 9 نومبر کو بابری مسجد کا فیصلہ سنانے سے قبل راتوں رات تمام ان علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کردی گئی تاکہ حالات خراب نہ ہوں۔ لیکن راجدھانی دہلی میں جہاں ملک کے صدر جمہوریہ وہی پر وزیر اعظم وہی پر سپریم کورٹ وہی پر پارلیمنٹ وہی پر تمام بڑے بڑے وزراء وہی پر اپنے آپ کو بہت حوشحار ماننے والی دہلی پولیس وہی پر کرائیم برانچ CBI.NIA وغیرہ ہزاروں ایجنسیاں وہی پر ہوتے ہوئے وہاں دفعہ 144 پہلے سے نافذ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ا نہوں نے مرکزی بی جے پی کو ان فسادات کا مورد الزام ٹھراتے ہوئے دہلی کے وزیر اعلی کو بھی اتنا ہی ذمہ دار ٹھرایاہے۔ انہوں نے کہا اگر دہلی کے وزیر اعلی کو لوگو ںنے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ دیکر انہیں کامیاب کیا تھا تو انہیں لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونے میں کیوں آر محسوس ہوئی ہے۔ پھر کسی ایک فرد کو اس کا ذمہ دار ٹھرانہ سرکار کی غلطی ہوگی ۔انہوں نے جموں وکشمیر میں پانچ اگست کے بعد جموں وکشمیر کو مرکز کا زیر انتظام علاقے قرار دیجانے کے بعد پیداشداحالات کے خوف سے کئی بڑے سیاسی و سماجی شخصیات کو نظر بند کردیا گیا۔یہاں تک کہ ائی ایایس ٹاپر شاہ فیصل کو بھی پی ایس اے کے تحت نظر بند کردیاگیاہے اور جب ایسے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت بند کردیاجائیگا ۔یہ کسی بھی طرح عوام اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو منظور نہیں ہوگا۔ جس کے بعد بی جے پی ایک سازش کے تحت ایک تیسرے محاذ کا قیام عمل میں لانے کی کوششیں جاری ہیں جو کہ ایک فراڈ ہے۔ انہوں نے کہا اگر جموں وکشمیر میں امن اور خوشحالی دیکھنا چاہتے ہوئے تو یہاں کی عوام کے ساتھ بات کی جائے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا