’تکثیری ہم آہنگی‘ ہی ہندوستان کی اصل روح ہے:خواجہ محمد اکرام الدین

0
0

وائس چانسلر محمد علی اور صدر شعبۂ اردومحترمہ ڈاکٹر درخشاں زریں کی کاوشوں سے شعبۂ اردو عالیہ یونیورسٹی میں ’’مولانا ابولکلام آزاد اور تکثیری ہم آہنگی‘‘کے عنوان سے یادگاری خطبہ کا آغاز
محمد التمش خالد

آڈیٹوریم عالیہ یونیورسٹی پارک سرکس کیمپس میںشعبۂ اردو عالیہ یونیورسٹی کی جانب سے 11فروی کوپہلا اور یادگاری ’’مولانا ابولکلام آزاد اور تکثیری ہم آہنگی‘‘ پر خطبہ پیش کرتے ہوئے مہمان خاص جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے کہا کہ ہندوستان کی خوبصورتی آپسی میل ملاپ،محبت یکجہتی اور تکثیری ہم آہنگی میں ہی مضمر ہے۔ اگر میں کہوں کہ تکثیری ہم آہنگی ہی ہندوستان کی روح ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔دنیا کے نقشے پر ہندوستان واحد ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مذاہب پائے جاتے ہیں ،یہ ہندو مسلم، سکھ عیسائی، بدھشت،جین اور بے شمار مذاہب کا مسکن ہے، ہندوستان نے ہمیشہ اپنے دل کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلا رکھا،بغیر کسی بھید بھائو ملک میں رہنے والے ہندوستانی کہلاتے ہیںلیکن گزشتہ کچھ سال سے یہاں رہنے والوں کو ہندوستانی نہ کہہ کر ہندو مسلم ،سکھ عیسائی میں تقسیم کردیا گیا ہے،جب کہ خسرو سے سر سید ،شبلی سے اقبال ،ٹیگور سے چکسبت اورآزاد تک کاہندوستان یکجہتی کا گہوارہ رہا ہے اور آج بھی ہے۔کچھ قوتیں اقبال اور ٹیگور کے ہندوستان کو الگ الگ کرنا چاہتی ہیں جو کہ ایک ناکام کوشش ہے کیونکہ آج بھی ہندو مسلم ایک دوسرے کی شناخت بچانے کے لئے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مولانا ابولکلام آزاد ہندو مسلم یکجہتی کے علمبردار تھے۔ مولانا ابولکلام آزاد’’ تکثیری ہم آہنگی ‘‘کے سب سے بڑے علمبردار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے تھے، انہیں ہندو مسلمان کی یکجہتی اس قدر عزیز تھی کہ اکثر اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کا ذکر کیاان کا ایک بہت ہی مشہور قول ہے’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا ہوکر یہ اعلان کرے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں آزادی سے دستبردار ہوجائوں گا لیکن ہندو مسلم اتحاد نہیں چھوڑوں گا کیونکہ اگر ہمیں سوراج نہیں ملا تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہندو مسلم اتحاد قائم نہ ہوسکا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا ‘‘آزاد کے اس قول سے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے وہ کتنے بڑے حامی تھے کہ ملک کی آزادی تک سے دستبردار ہونے کو تیار تھے لیکن کسی بھی صورت میں ان دونوں کے درمیان نا اتفاقی اور خلیج نہ چاہتے تھے۔خواجہ محمد اکرام الدین نے مزید کہا کہ مولانا ابولکلام آزاد اس لئے بھی یاد کئے جائیں گے کہ انہوں نے ہمیں اتحاد، یکجہتی ،مذہبی تکثیریت،کثرت میں وحدت کا نہ صرف درس دیا تھا بلکہ خود بھی وہ عملی طور پر ان تصورات پر قائم تھے۔ایک موقع پر انہوں نے کہا تھا ’’میں مسلمان ہوں اور مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے !میں ہندوستان کے ناقابل تسخیر اتحاد کا حصہ ہوں‘‘۔مزید وہ کہتے ہیں’’ مجھے فخر ہے کہ ہماری تیرہ سو سالہ تاریخ ہے اور مجھے یہ بھی فخر ہے کہ میں ہندوستانی ہوں اور کبھی اس سے دستبردار نہیں ہوں گا ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا تھا کہ ایک ہزار سالہ ہماری مشترکہ تاریخ ہے‘آج ملک کو قوم ،مذہب ذات اور زبان کے نام پر بانٹنے والوں تک آزادکایہ پیغام پہنچانا ضروری ہے تاکہ وہ نفرت کے بجائے محبت کی راہ پر چلے۔آزاد کی شخصیت کئی پہلوئوں سے عبارت ہے وہ صف اول کے صحافی ہیں اور اسلوب ساز ادیب وانشاء پرداز، وہ مصنف ایسے کہ ان کی تصنیف مشعل راہ ہیں،مقرر ایسے کہ خطابت سے انگریزوں کے دل دہل جائے، وہ سیاسی رہنما بھی تھے اور عالم دین بھی ،وہ ایک ایسے عظیم رہنما تھے جو قوم وملک کے معمار بن کر ابھرے تھے ۔عالم دین ہونے کی وجہ سے انہیں شرعی قوانین کا بھی بڑا علم تھا ،اور وہ ملکی مسئلے کوبھی شریعی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے ، آزاد کی دلچسپی کا مرکز سیاست کبھی نہ رہی بلکہ صحیح اور صالح قدروں کی اشاعت اور قوم وکردار کی تشکیل تھی،ان کا یہ بھی خیال تھا کہ قومی وحدت اسی وقت ممکن ہے جب ہم وطنوں میں رواداری جراًت سچائی کی لگن اور مل جل کر کام کرنے کی صلاحیت اور ایثار کی صلاحیت ہو اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں ’’ہماری فتح مندی کی تمام بنیاد سچائیوں پر مشتمل ہے میں اس وقت بھی اس ملک کے ہر باشندے کو صرف انہیں کی طرف دعوت دیتا ہوں ،ہندو مسلم کا کامل اتفاق‘‘امن ،نظم،قربانی اور اس کی استقامت‘‘اتنا ہی نہیں ان کی زندگی کو پڑھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے ملک کی آزادی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد واتفاق کو بھی اپنا نصب العین بنا رکھا تھا ،ایک جگہ وہ لکھتے ہیں’’جب دونوں نظام حیات مشترکہ اور باہمی رواداری کو تسلیم کرلیں گے تو باہمی مفاہمت اور باہمی وقار میں ترقی کے علاوہ آپس کے شکوک ،نفرت وحقارت بھی دور ہوجائیں گے ،علاوہ ازیں علم کی ترقی کی بدولت بھی دونوں نظاموں میں قروبی مناسبت قائم ہوجائے گی‘‘گرچہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندو مسلم تعلقات،قومیت اور وطنیت کا مسئلہ بڑا اہم رہا ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ہمیشہ ملک کے لئے متنازعہ ثابت ہوا ہے اس نے ملک کی جڑیں تک ہلادی ہیں ،آزاد کے دور میں بھی اس مسئلے پر کافی ہنگامہ برپا تھا اس وقت دوسروں کی رائے کا تو پتہ نہیں لیکن آزاد کی رائے یہ تھی’’بحیثیت مسلمان ہونے کے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ ہوجائے ،میرا عقیدہ ہے کہ ہندوستان میں ہندوستان کے مسلمان اپنے بہترین فرائض انجام نہیں دے سکتے جب تک وہ احکام اسلامیہ کے ماتحت ہندوستان کے ہندوئوں سے پوری سچائی کے ساتھ اتحاد واتفاق نہ کر لیں‘‘مولانا کی ایسی کئی خواہشیں ہیں جس میں مسلمانوں کو ہندوئوں کے ساتھ اتحاد قائم رکھنے کا درس دیا گیا ہے جس پر آج بھی مسلمان عمل پیراہیںلیکن افسوس چند مٹھی بھر افراد اور کچھ تنظیمیں ملک میں انتشار اور نفرت پھیلا رہی ہیں جس سے اس اتحاد کا پارہ پارہ ہونے کا خدشہ لاحق ہے،مولانا صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن چاہتے تھے مولانا چاہتے تھے کہ پوری دنیا ایک ہوجائے ،گھر کے فرد کی طرح مل جل کر رہے، نفرت کے بجائے محبت عام ہو، اتحاد واتفاق کا پرچم صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں لہرائے،وہ ایک سچے محب وطن اور محب قوم تھے ۔ان کی حب الوطنی کا ثبوت ان کی تحریروں اور تقریروں میں واضح جھلکتی ہیں۔ ایک جگہ وہ فرماتے ہیں’’آج دنیا قومیت کی نہیں بلکہ فوق القومیت کی طالب ہے،عصر حاضر میں تنگ نظری کے لئے مطلق گنجائش نہیں ہے، اقوام عالم کی صف میں اگر ہم کوئی ممتاز مقام چاہتے ہیں تو اس کا امکان اسی صورت میں ہے جب ہم نظریاتی اعتبار سے بین الاقوامی نقطہ نظر کے حامل ہوجائے‘‘انہوں نے مزید کہا کہ عالیہ یونیورسٹی نے مولانا ابولکلام آزاد پر سالانہ پروگرام کو منظوری دے کر ایک بڑا اور اہم کام انجام دیا ہے، میں اس کیلئے عالیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب محمد علی صاحب کو مبارک باد پیش کرنا چاہوں گا ساتھ ہی شعبۂ اردو کی صدر محترمہ درخشاں زریں اور ان کی پوری ٹیم کو اس یادگاری خطبہ کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں بالخصوص ڈاکٹر درخشاں زریں کو کہ انہوں نے مولانا ابولکلام آزاد پر ہر سال ایک پروگرام منعقد کرانے کے سلسلے کا آغاز کیا۔اس موقع پر شیخ الجامعہ جناب محمد علی نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ مولانا ابولکلام آزاد ہندو ،مسلم یکجہتی کے پاسبان تھے،ایسی شخصیت کے نام یادگاری خطبے میں پیش قدمی کے لئے شعبۂ اردو کا قدم قابل ستائش ہے ،اور اس پروگرام کے انعقاد پر ہماری یونیورسٹی کو فخر ہے،اب یہ پروگرام ہر سال پابندی سے ہوا کرے گا۔انہوں نے پروفیسر خواجہ محمد اکرام لدین کے خطبے کو انگریزی اور بنگلہ میں شائع کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر درخشاں زریں نے مہمانان حاضرین وسامعین کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ابولکلام آزاد یادگاری خطبہ کا منصوبہ جب ہم نے اپنے عزت مآب شیخ الجامعہ پروفیسر محمد علی کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بلا تامل اس منصوبے پر اپنی خوشی اور رضا مندی کی مہر ثبت کردی پھرا کاڈمک کونسل کے تعاون سے اس کی منظوری دیتے ہوئے شعبہ ٔ میں ایسے اقدامات کی پہل کے لئے ہمت وحوصلہ افزائی بھی کی،مولانا آزاد جیسی علمی وادبی مذہبی وترقی پسند شخصیت پر گفتگو کے لئے آج ہم سب یکجا ہوئے ہیں اس کے لئے شعبۂ اردو آپ سب کا تہہ دل سے شکر گزار ہے۔محترمہ نے مزید کہا ہمارا شعبۂ سال بہ سال تعلیمی ترقی کی جانب گامزن ہے اور مزید ایسے منصوبوں کے لئے کوششیں جاری ہیں۔ دیگر معزز مہمانان میں یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر امجد حسین،ڈین فکلٹی پروفیسرایم آر کریم،ڈپٹی رجسٹرار ڈاکٹر اشفاق علی،مہمان ذیشان ڈاکٹر ابوبکر جیلانی،جناب جمیل منظر،ڈاکٹر شاہد اختراور کنیڈا سے تشریف لائے مہمان جناب جاوید دانش نے اس یادگاری خطبہ کی اہمیت اور عصری افادیت کا اعتراف کیا،جناب قیصر شمیم نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواجہ محمد اکرام الدین نے اپنے موضوع سے کما حقہ انصاف کیا ہے اور اپنی بات سامعین کے ذہن نشیں کرانے کے ہنر سے انہیں بخوبی واقفیت ہے،پروگرام کا آغاز ارشد ناصر کی تلاوت کلام پاک سے ہوااور آصف علی مرزا نے شعر ونغمہ سے سامعین کو محفوظ کیا۔اظہار تشکر میں صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر درخشاں زریں نے سامعین کے ساتھ اپنے شعبہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ ،شعبہ کے غیر تدریسی عملہ ،طلبا وطالبات خصوصاً ریسرچ اسکالرس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا جن کے تعاون اور کڑی محنت سے پروگرام بحسن وخوبی انجام تک پہنچا ۔نظامت کا فریضہ ڈاکٹر سعید احمدنے انجام دیا ۔اس یادگاری خطبہ میں شہر وبیرون شہر کی ادبی، دینی، ملی ،قومی شخصیات اوردیگر عمائدین شہر کی ایک بڑی تعدادموجود تھیں جن میں ڈاکٹر ہمایوں جمیل،ڈاکٹر عاصم شہنواز شبلی،ڈاکٹر امتیاز وحید،ڈاکٹر نصرت جہاں ،پروفیسرناہید خانم، جناب نثار احمد،ڈاکٹر سید علی عرفان نقوی،ڈاکٹر ترنم مشتاق،مشتاق دربھنگوی،ڈاکٹر ابوذر ہاشمی،شوکت علی،ڈاکٹر منظر حسین،احمد کمال حشمی،ڈاکٹر تسلیم عارف،ڈاکٹر سمیع احمد،ڈاکٹر محمد سلیم،محترمہ نوشابہ پروین، ڈاکٹر اقلیمہ خاتون،ڈاکٹر مہریہ القادریہ،ڈاکٹر نیلو فر ردوس اور دیگر شعبہ کے اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالر اور کثیر تعداد میں دیگر کالج ویونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات موجود تھے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا