سکون کی نیند چاہتے ہیں تو موٹی زبان سے چھٹکارا پائیے، تحقیق

0
0

پنسلوانیا؍؍امریکا میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چکنائی کی وجہ سے زبان موٹی ہوجانے کے نتیجے میں سوتے دوران سانس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جس کے باعث نیند بار بار متاثر ہوتی ہے۔سانس میں خلل سے نیند متاثر ہونے کو طبّی اصطلاح میں ’’اوبسٹرکٹیو سلیپ ایپنیا‘‘ (او ایس اے) کہا جاتا ہے جس کا سامنا موٹے افراد کو اکثر کرنا پڑتا ہے۔ اس کیفیت میں یہ لوگ زوردار خراٹے لیتے ہیں، رات میں ان کی آنکھ بار بار کھلتی ہے اور دن کے وقت وہ غنودگی کے عالم میں رہتے ہیں۔غرض اس سے سونے جاگنے کے معمولات کے علاوہ دن کے اوقات میں کارکردگی پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔2014 میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا تھا کہ جن موٹے لوگوں نے اپنا وزن مناسب حد تک کم کیا تھا، ان میں ’او ایس اے‘ کی شدت بھی خاصی کم رہ گئی تھی۔ تب یہ خیال کیا گیا تھا کہ شاید اس کی وجہ سانس کی نالی اور زبان کو موٹا کرنے والی چکنائی کی بافتیں ہیں؛ لیکن بات پوری طرح واضح نہ تھی۔یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں کیا گیا یہ تازہ مطالعہ اسی تسلسل میں ہے جس میں ’او ایس اے‘ کے 67 مریضوں کو شریک کیا گیا تھا۔ان میں سے 47 مریضوں نے ورزشوں، سرجری یا معمولاتِ زندگی میں تبدیلی لاتے ہوئے اپنا وزن اوسطاً 14 فیصد کم کیا، جبکہ 20 افراد کا وزن بڑھ گیا یا پھر ویسے کا ویسا ہی رہا۔ وزن کم کرنے والے مریضوں میں عمومی صحت کے علاوہ نیند بھی بہتر ہوئی، یعنی ’او ایس اے‘ کی شدت میں کمی واقع ہوئی۔تحقیق کی ابتداء سے لے کر ان کی زبان میں چکنائی والی بافتوں اور حلق میں موجود چربی کو بھی نظر میں رکھا گیا۔مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے کامیابی سے اپنا وزن کم کرلیا تھا، ان میں دیگر جسمانی حصوں کے ساتھ ساتھ زبانوں کی موٹائی بھی کچھ کم ہوئی ہے جس سے انہیں سوتے دوران سانس لینے میں دشواری، خراٹوں اور بار بار نیند ٹوٹنے جیسے مسائل کا سامنا بھی نمایاں طور پر کم کرنا پڑا۔فی الحال یہ تو واضح نہیں کہ وزن کم ہونے کے ساتھ ساتھ زبان کی موٹائی میں کس بناء پر کمی واقع ہوتی ہے لیکن اتنا ضرور طے ہوچکا ہے کہ اگر موٹی زبان پتلی ہوجائے تو اس سے نیند میں خلل بھی کم پڑتا ہے۔واضح رہے کہ زبان کی موٹائی کم کرنے کیلیے علیحدہ سے کوئی خاص ورزش نہیں اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ پورے جسم کا وزن گھٹانا ہی اس مسئلے کا مناسب ترین حل ہے۔اس تحقیق کی تفصیلات ’’امریکن جرنل آف ریسپائریٹری اینڈ کریٹیکل کیئر میڈیسن‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا