حنیف ترین
ہے زخمِ فاختہ اب باز کے تعاقب میں
مدافعت کی الگ ہی اُڑان ہوتی ہے
دہلی کے انتخابی نتائج آگئے۔عام آدمی پارٹی نے دہلی اسمبلی کی جملہ 70 میں سے62سیٹوںپر کامیابی حاصل کی جبکہ بی جے پی کو بڑا سیاسی کرنٹ اِن معنوںمیں لگاکہ 48نشستوںپر جیت کاخواب سجانے والی پارٹی محض8حلقوں میںسمٹ گئی۔ دراصل دہلی کے عوام نے اس الیکشن کوہندومسلم لڑائی نہ بناکر اسے عوامی ترجیحات پرمرکوز رکھااور اس پارٹی کے حق میں کھل کر ووٹ کیے جوان کے ایشوزکوحل کرنے کیلئے سنجیدہ نظرآئی۔ ورنہ اس بارتوایسا لگ رہاتھا جیسے یہ کوئی انتخاب نہیں، دنگل کامیدان ہو۔ چونکہ دہلی میںملک کے مختلف خطوں سے آکربسنے والے لوگوں کی آبادی اچھی خاصی ہے، اس لیے یہ انتخاب ریاستی ہوکر بھی ریاستی نہیںہوتا ۔اس لئے بھی دہلی کے الیکشن میںعوام کا جو موڈ دکھائی دیا،اسے ایک حد تک ملک کے عوام کاموڈبھی کہاجاسکتاہے۔ دہلی کے انتخابی نتائج کاپیغام کافی وسیع پیمانے پرپورے ملک تک پہنچاہے اور اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ ملک کے دیگر صوبوں میں اگرسیاست کا اونٹ کسی کروٹ لیتاہے، تواس کا سہرا دہلی کے انتخابی نتائج سے اُبھرنے والے پیغام کو بھی دیاجائے گا۔
یہ نتائج اس لیے بھی اہم ہیں کیوںکہ اب سیدھے طورپر دہلی کے نتائج بہاراور مغربی بنگال کے رائے دہندگان کو اثر انداز کریںگے،جہاں انتخابات میںزیادہ وقت نہیں رہ گئے ہیں۔دہلی کے نتائج کاان دونوں صوبوںپراثر پڑنالازمی ہے۔ ملک میں ایک طرف جہاں مہنگائی اور بے روزگاری دن بدن اپنے پیر پساررہی ہے، وہیں دوسری جانب ملک کی تازہ صورت حال سے یہ عیاں ہے کہ عوامی سطح پر بے چینیاںپوری طرح جنم لے چکی ہیں۔ عوام پہلے کے مقابلے میں کافی بیداربھی ہوگئے ہیں اوراب ایسا لگتا ہے کہ انتخابات ان کے لیے اب صرف رائے دہی کاذریعہ نہیںرہ گئے ہیں۔ دہلی کے انتخابات میں یہ بات کافی شدت سے محسوس کی گئی۔ اسی لیے ہرحلقے میں پولنگ بوتھ پرلوگوں کی بھیڑکافی دیکھی گئی اوردیررات تک وہاں ووٹنگ ہوئی۔یہ صاف اشارہ ہے کہ لوگ اب ملک کی صورت حال سے پریشان ہیں۔ انھیںمتبادل کی تلاش ہے۔ جب جب اور جہاںجہاں انھیں موقع مل رہاہے، وہ متبادل سیاسی پارٹیوں کے انتخاب میں ذرابھی نہیں ہچکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات کے بعد جتنے بھی اسمبلی الیکشن ہوئے،تقریباً سب میں عوام نے بی جے پی کو ’نکار‘دیا۔ یہ بات کافی اہمیت کی حامل ہے کہ جو پارٹی چند مہینوں پہلے ہونے والے عام انتخابات میں’پرچنڈبہومت‘ سے اقتدار میں آئی تھی،حالیہ چند مہینوں کے درمیان اسمبلیوںکے انتخابات میںاُسے مسلسل ہارکاسامناکرناپڑ رہاہے۔آخراس کی کوئی تو وجہ ہے؟
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عام انتخابات کی ترجیحات اور ہوتی ہیں اور ریاستی انتخابات کی ترجیحات اور ، مگر اس کے باوجود بھی ایسا محسوس ہوتاہے کہ بی جے پی اپنے دوسرے دور میں اقتدار میںآنے کے بعد جس طرح سے منمانے فیصلے لے رہی ہے اورجس طرح عوام کے ایشوز کوپیچھے چھوڑرہی ہے،لوگ اس کی وجہ سے بے اطمینانی محسوس کررہے ہیں۔یہی وہ تشویش ناک حالت ہے،جو عوام کو اب سمجھ میںآرہی ہے۔یہ بات عوام بہت اچھی طرح سے محسوس کررہے ہیں کہ بی جے پی ان کے ووٹ لے کر انھیں کے خلاف پے درپے فیصلے کررہی ہے اور ان کی پریشانیوںاور دقتوں کو کم کرنے کی بجائے بڑھارہی ہے۔عوامی مسائل اور ان کی ترجیحات کو حکومت کے ذریعہ نظراندازکرنے کا جو فطری ردعمل سامنے آسکتا ہے،وہ ایک کے بعد ایک اسمبلیوں کے انتخابات کے نتائج کی شکل میں سامنے آرہاہے،جس کادیدارابھی ابھی اختتام پذیر ہونے والے دہلی اسمبلی کے انتخابات میں ہم سبھوں نے کیا۔
دہلی کے انتخابات کئی اورمعنوں میںبھی اہم ہیں۔ کہا جاتاہے کہ بی جے پی ہارکے باوجود بھی ہاری نہیں کیوں کہ نظریاتی اعتبار سے اس کی شکست نہیں ہوئی ہے۔ اس کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہواہے۔امت شاہ نے نتائج کے اعلان کے بعدباقاعدہ یہ بات کہی بھی تھی کہ ہم صرف الیکشن جیتنے کے لیے میدان میں نہیں اُترتے ہیں، بلکہ پارٹی کامقصد اس کے نظریات کی تشہیربھی ہے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ امت شاہ کیاکہناچاہتے ہیں۔ یہاں وہ یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہم ہارے نہیںہیں،کیوں کہ ہمارے نظریات کے متحمل لوگوںکی تعدادمیںکمی کی بجائے اضافہ ہوا ہے۔شاہ کا یہ دعویٰ سچ بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بی جے پی اس ووٹ شیئر کو سیٹوں میں اس قدرتبدیل نہیںکراپائی جس سے وہ سرکاربنانے کے کامیاب ہوجاتی۔
مگرایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بی جے پی کی نفرت آمیزمہم کے باوجود ہندوؤں کی تقریباًنصف آبادی نے عام آدمی پارٹی کو ووٹ کیا، اس کا مطلب کہیں نہ کہیں یہی ہے کہ لوگوں میں جھوٹ اورسچ کا امتیاز باقی ہے۔ اروندکجریوال کی پارٹی نے اگرچہ عوامی مفاد میں کئی کام کیے ہیں مگرووٹر صرف کام دیکھ کر ووٹ نہیںکرتے،یہ بات ہم سب کواچھی طرح معلوم ہے، ورنہ اترپردیش میں اکھلیش سرکار نے کچھ کم کام نہیں کیے تھے مگرکیاہوا؟ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ دہلی کے ووٹروں نے صرف کام کی بنیاد پر ووٹ کیا، پوری طرح سچ نہیں ہے۔ ہاں کام دیکھ کر بھی لوگوں نے حق رائے دہی کااستعمال کیا ہے مگراس کے کئی دوسرے فیکٹرس بھی ہیں۔ ایک فیکٹرتو یہ ہے کہ اس انتخابات میںپوری لڑائی صرف دوپارٹیوں کے درمیان ہی مرکوزرہی، تیسری پارٹی کاکہیں وجود ہی نہیںرہا۔ کانگریس کی انتخابی مہم کا تجزیہ کرنے والوںکا تاثر یہی ہے کہ اس نے پہلے سے ہی ہتھیار ڈال دیے تھے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ کانگریس نے تشہیری مہم میںبھی زیادہ دلچسپی نہیں لی۔جیسے کہ اسے پہلے ہی سے پتہ ہو کہ اسے ووٹ نہیں ملنے والاہے۔ خیر دہلی کے انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی جیت کے باوجود بی جے پی صرف اس لیے خوش ہے کہ نظریاتی اعتبار سے اس کی ہارنہیں ہوئی ہے۔ چونکہ کانگریس کا ووٹ فیصد پہلے سے بھی کم ہوگیاہے، اسی لیے ڈبیٹ میں باربار وہ کانگریس کی ہارپرخوشیاں مناتی نظر آرہی ہے۔ بی جے پی کواس بات کی خوشی ہے کہ اس کی حریف پارٹی دن بدن کمزور ہوتی جارہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام آدمی پارٹی کی جیت سے اسے زیادہ پریشانی نہیں ہے۔اسے تو کانگریس سے پریشانی تھی جو ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔
دہلی کے حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کوکانگریس کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے اس کے لیے میدان ہموارکیا۔ یہ بات بہرحال تفتیش کا متقاضی ہے کہ کانگریس کی یہ حکمت عملی کسی اسٹریٹجی کے تحت تھی یا اس نے یہ قربانی بغیرکسی حکمت عملی کے ہی دی۔ جہاں تک مجھے لگتاہے کہ یہ کانگریس کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کاحصہ تھی۔ کیوں کہ اسے پتہ تھا کہ اگربی جے پی کو کمزور کرنا ہے تو میدان سے خود کو الگ کرناہوگا تاکہ عام آدمی پارٹی جیت سکے، نہیں تو اگرکانگریس بھی میدان میں اپنے پورے دم خم کے ساتھ کھڑی رہتی تو جونتائج ابھی دکھائی دے رہے ہیں، وہ سامنے نہیںآپاتے۔جیت اورہارمیں ووٹوں کے فرق کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ دور مت جائیںعام آدمی پارٹی کے نائب وزیراعلیٰ اور وزیرتعلیم منیش سشودیا کی سیٹ کوہی دیکھ لیں، جن کے کام کی بنیاد پر پارٹی لوگوں سے ووٹ مانگ رہی تھی، وہ ہار کے قریب تھے۔ اگر اس سیٹ پرکانگریس نے سنجیدگی دکھائی ہوتی تو عام آدمی پارٹی یہاں ہاربھی سکتی تھی۔ یہ توصرف ایک مثال ہے۔ ایسی اور بھی سیٹیں ہیں جہاں کانگریس اگرچہ جیت نہیں سکتی تھی مگر عام آدمی پارٹی کو ہرانے کی اہل تھی۔ مگر کانگریس نے ایسا نہیں کیا اور بی جے پی کوہرانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہواہے، ملک میں اس طرح کی حکمت عملی پہلے بھی اپنائی جاچکی ہے اوراسے غلط بھی نہیں کہاجاسکتا، کیوں کہ کسی بھی پارٹی کیلئے سب سے اہم بات یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے حریف کو کسی بھی طرح سے شکست دلادے۔ اگروہ ایساخود کرسکے تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگروہ ایساکرنے کی پوزیشن میں نہ ہوتوجوبھی پارٹی ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، اپنے حریف کو ہرانے میںوہ اس کی مددکرے۔یہ مدد چاہے کسی سمجھوتے کے تحت ہویابغیرکسی سمجھوتے کے۔ اس لیے یہ کہاجاسکتا ہے کہ کانگریس کی حکمت عملی کارگر ثابت ہوئی۔ اس نے اپنے حریف کو شکست دینے میں اچھارول نبھایا۔
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے تو اس الیکشن میںمسلم رائے دہندگان کے پاس عام آدمی پارٹی کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا۔ کانگریس کوووٹ کرنا، ووٹ ضائع کرنے جیساتھا۔یہ بات کانگریس بھی اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ کانگریس کی اس قدر بری ہار کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی رہی کہ حالیہ دنوں میں تنظیمی طور کانگریس مزیدکمزورثابت ہوئی ہے۔ اس کے بڑے لیڈر آپسی انتشار کے شکارہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ دہلی کے انتخابی نتائج کی آمدکے بعد کئی لیڈروں نے کھل کراس ایشوپربات کی اور اعلیٰ کمان کو اپنے خیالات سے نہ صرف آگاہ کرایا بلکہ پارٹی کی کمیوں پرانگشت نمائی بھی کی۔ کل ملاکردہلی کاانتخابی نتیجہ کانگریس کے لیے ایک سبق ہے۔ اگر وہ اسی طرح سوتی رہی اور اس کے لیڈر آپس میں لڑتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب بی جے پی کا ’کانگریس مکت بھارت‘خواب شرمندئہ تعبیرہوجائے۔ آخر میں کجریوال کی نذریہ شعر:
راز کھل جائے گا اس سے کبھی مل کر دیکھو
جس کو جگ بونا سمجھتا تھا، قدآور ہے وہی
¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422, [email protected]