مستقل کمیشن دینے سے انکار کرنا قدیم تصورات اور خواتین کے تئیں تعصبات کا نتیجہ :سپریم کورٹ
یواین آئی
نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے پیر کو ایک اہم فیصلہ میں کہا کہ مرکز جنگی مورچوں کو چھوڑ کر دیگر شاخوں میں خاتون فوجی افسران کو مستقل کمیشن دینے کو پابند ہے ۔جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اجے رستوگي کی بنچ نے مرکزی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمی نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر روک نہیں لگائی تھی، پھر بھی مرکز نے ہائی کورٹ کے فیصلہ کو نافذ نہیں کیا۔عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلہ پر کارروائی نہ کرنے کی کوئی وجہ یا جواز نہیں ہے ۔ ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نو سال بعد مرکز 10 دفعات کے لئے نئی پالیسی لے کر آیا۔بنچ نے کہا کہ مستقل کمیشن دینے سے انکار کرنا قدیم تصورات اور خواتین کے تئیں تعصبات کا نتیجہ ہے ۔ خواتین مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرتی ہیں۔ مرکز کی دلیلیں پریشان کرنے والی ہیں، جبکہ خواتین فوجی افسران نے ملک کے افتخار میں اضافہ کیاہے ۔ کورٹ نے کرنل قریشی، کیپٹن تانیہ شیر گل وغیرہ کی مثال دی۔بنچ نے کہا کہ مرکز جنگی مورچوں کو چھوڑ کر دیگر شاخوں میں خواتین فوجی افسران کو مستقل کمیشن دینے کو پابند ہے ۔کورٹ نے خواتین کی جسمانی خصوصیات پر مرکز کے خیالات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے نقطہ نظر اور ذہنیت میں تبدیلی لائے ۔عدالت نے کہا کہ فوج میں صحیح مساوات لانا ہوگی۔ 30 فیصد خواتین واقعی لڑاکا شاخوں میں تعینات ہیں۔خیال رہے دہلی ہائی کورٹ نے 12 مارچ 2010 کو شارٹ سروس کمیشن کے تحت آنے والی خواتین کو کام میں 14 سال پورے کرنے پر مردوں کی طرح مستقل کمیشن دینے کا حکم دیا تھا لیکن ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف وزارت دفاع سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ہائی کورٹ کے فیصلہ کے نو سال بعد حکومت نے فروری 2019 میں 10 محکموں میں خاتون افسران کو مستقل کمیشن دینے کی پالیسی بنائی۔ لیکن یہ کہہ دیا کہ اس کا فائدہ مارچ 2019 کے بعد سے سروس میں آنے والی خاتون حکام کو ہی ملے گا، اس طرح وہ خواتین مستقل کمیشن حاصل کرنے سے محروم رہ گئیں جنہوں نے اس ایشو پر طویل عرصہ تک قانونی جنگ لڑی۔