عارف عزیز(بھوپال)
ہندوستان میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہوتی جارہی ہے اور حکومت اس عدم مساوات کو دور کرنے کی سمت میں کوئی قدم بھی نہیں اٹھا پارہی۔ غیر سرکاری آکسفیم اور ڈیولپمنٹ فائنینس انٹرنیشنل کی جانب سے اس سلسلے میں تیار عالمی اشاریہ حکومت ہند کی پالیسیوں اور حالیہ ترقی عمل کو کٹہرے میں کھڑا کرتا ہے۔ اس اشاریہ میں سماجی خرچ، ٹیکس ڈھانچہ اور محنت کشوں کے حقوق سے متعلق پالیسیوں کی بنیاد پر ۱۵۷ ملکوں کی درجہ بندی کی گئی ہے جس میں ڈنمارک سب سے کم عدم مساوات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ ہندوستان کا مقام ۱۴۷واں یعنی تقریباً آخر میں ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوبی کوریا، نامیبیا اور گوے جیسے ملک عدم مساوات دور کرنے کے لئے ٹھوس قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان اور نائیجیریا جیسے ملکوں کا مظاہرہ اس معاملے میں کافی خراب ہے۔ اشاریہ میں ۵۶ ویں پائیدان پر موجود جنوبی کوریا کی کوششوں کو رپورٹ میں خاص طور سے اجاگر کیا گیا ہے جس نے گزشتہ کچھ سالوں میں سماجی ترقی کے کئی پروگرام چلائے اور محنت کشوں کے حقوق یقینی بنائے۔ صدر مون جے ان نے ڈرامائی طریقے سے کم تر اجرت 16.4 فیصد بڑھا دی۔ انہوں نے بڑی کمپنیوں اور سوپر دولت مند طبقہ پر بھاری ٹیکس عائد کئے اور اس سے حاصل رقم کو کمزور طبقہ کی ترقی میں صرف کیا۔ ہندوستان میں لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن نے ترقی کے عمل کو رفتار تو دی لیکن ان کا فائدہ اسی طبقہ کو ملا جو پہلے سے خوشحال تھا۔ سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ نئے نظام میں حکومت کا کردار محدود کر دیا گیا۔ لہٰذا ریاست کی توجہ بھی غریبوں کے حق میں پالیسیاں بنانے کے بجائے انہیں ابہام میں رکھنے پر مرکوز ہوگئی۔ منریگا جیسی کچھ غریب نواز پالیسیاں بنیں بھی تو ان کا زور کمزور طبقہ کو پیداواری عمل کا حصہ بنانے کے بجائے انہیں کسی طرح زندہ رکھنے پر رہا۔ مطلب یہ ہے کہ غریبوں کی حالت کچھ بہتر ضرور ہوئی لیکن کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ تبدیلی اسی وقت ممکن تھی جب غریبوں کو اصل دھارے میں آنے کا موقع ملتا۔ یہ اسی وقت ہوتاجب وہ تعلیم یافتہ ہوتے۔ لیکن آج تعلیم اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ غریب طبقات کی پہنچ اس کے حاشیہ تک بھی نہیں ہوپارہی ہے۔ حکومتوں کی دلچسپی اپنے تعلیمی نظام کو معیار بنانے میں بالکل نہیں۔ کمزور طبقہ کے بچے کسی طرح سرکاری اسکولوں میں پہنچ بھی جائیں تو غربت کے چکر سے نکلنے میں اس تعلیم کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ معاشی عدم مساوات کے سبب آج ہرجگہ برہمی دیکھی جارہی ہے جس کا اظہار لاقانونیت اور پرتشدد مظاہروں میں ہورہا ہے۔ مذکورہ اشاریہ کو ایک وارننگ کی طرح لینا چاہئے۔ کیوں کہ عدم مساوات آخرکار ترقی کو بے معنی بنادیتی ہے۔(یو این این)