سید صبا اندرابی
جموں و کشمیر
———————————-
میرے وہاں سے چلے آنے کے بعد وہ مجھ سے کبھی نہیں ملی تھی…
ملتی بھی کیوں؟
اور کہاں…. کس پتے پر؟
خیر… دیر آئے درست آئے… یا یوں کہوں کہ دیر آتے درست آتے…!
دونوں میں کچھ نقتوں کا ہی تو فرق ہے…!!!
آج شاید مجھے ایک موقعہ اور مل رہا تھا…
میں سڑک کنارے اپنی غلطیاں گِن گِن کے نظر انداز کرنے میں مصروف تھا کہ سڑک کے اُس طرف ‘ اُس کی جھلک دکھائی دی. میں دوڑتے بھاگتے اُس تک پہنچا. وہ اپنا سر جھکائے شاید کسی کے انتظار میں کھڑی تھی… میں نزدیک ہوکے اُس کے سامنے کھڑا ہوگیا. بے شرمی کی تمام حدیں بھول چکا تھا…!
اب جو دیکھتا ہوں تو وہ آنکھیں ‘ جن میں فقط اضطراب کی موجیں گھر کئے ہوئے تھیں ‘ میری طرف اٹھنے لگی تھیں. وہ گھبرائے سے ہونٹ ‘ جو مجھ سے کئی سوال کررہے تھے… یا پھر میری آنکھوں میں بسے سوالوں کے جواب دینے کی کوشش میں تھے… اب یکایک بول اٹھے تھے. مجھ سے کہہ رہے تھے ‘ کیا میری بناوٹ ابھی باقی ہے…؟
ہاں…! کیا…؟
میں گھبراہٹ میں اُس کا سوال سمجھ نہیں پایا یا پھر یہ کہہ دوں کہ سمجھنا نہیں چاہا…
میری بناوٹ!
وہ پھر بولی اور اس بار ذرا زور سے پوچھ بیٹھی.
میں اب بھی سمجھ نہیں پایا کہ وہ ایسا سوال اچانک سے کیوں پوچھ بیٹھی تھی!
لیکن اس کی بے چین آنکھیں دیکھ کر چپ بھی نہیں رہ پایا.
تم ایسا کیوں سوچتی ہو؟
میں نے انجانے میں نے اُس کے سوال کا جواب ‘ سوال میں دے دیا تھا!
جس نے بے شک اُس کے کچھ یا سارے زخم ہرے کردئے تھے… پر جب تک میں یہ بات سمجھ کر سنبھل پاتا ‘ تب تک اُس کی معصوم سی آنکھیں غضب ناک ہوچکی تھیں… پر دیکھا تو کچھ ہی لمحوں میں وہ سارا غصہ ‘ تھکان میں بدل چکا تھا. ایسا لگا کہ جیسے مجھ سے کہہ رہی ہو کہ بس…! اب اور نہیں ‘ میں تھک چکی ہوں ‘ اِن بندھنوں سے ‘ اِن سوالوں سے ‘ اِن ذمہ داریوں سے…!
مجھے آزاد کردو ‘ میں تھک کے چُور ہوچکی ہوں. اس سے پہلے کہ بکھر جاؤں ‘ مجھے آزاد کردو…
کچھ پل کے لئے ایسا لگا کہ یہ الفاظ حقیقت میں ‘ اُس کی زبان سے چھلک پڑے… پر اُس کی طرف دیکھا تو وہ چپ چاپ بِنا کچھ کہے ‘ اپنی تھکان کو سمیٹے کسی گہری سوچ میں گم تھی…
کیا سوچ رہی ہو…؟
میرا ایک اور سوال… اور شاید آخری…….
” سوچ!!! میں نے تو ایک عرصے سے اپنی سوچ کو مقفل کر رکھا ہے. اب تو اس کی موجودگی کا بھی کوئی احساس نہیں رہا…”
خدا جانے وہ ‘ اُس کی سوچ اور اُس کے الفاظ کس طرف نکل پڑے تھے… لیکن میں بِنا ٹوکے سُننا چاہ رہا تھا…
” یہ زنجیریں ہٹیں تو ہمیں بھی فلک کی اونچائی کا احساس ہو ”
وہ تھوڑا رُک کے پھر بولنے لگی…
بچپن میں تو نہیں تھیں یہ بیڑیاں ‘ یہ تالوں میں کسی زنجیریں…؟؟؟
وہ کہہ رہی تھی اور میں ‘ جس کی سمجھ میں ایک لفظ نہیں آرہا تھا ‘ سُنتا گیا…
” ارے! یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ بچپن میں ہی باندھ دیتے ‘ قید کردیتے ہمارے خیالات…
کیوں تب کچھ نہ کیا…؟
تب بھی تو لوہا میسر تھا… تب زنجیریں کیوں نہیں بنوائی گئیں…؟
یا پھر تمہیں ہمارا جسم قید کرنے میں اتنی مسرت حاصل نہ ہوتی ‘ جتنی تمہیں ہماری روح قید کرنے میں ہوگی…؟
وہ اب مجھے ملزم بنائے بیٹھی تھی اور میں نے تب بھی کچھ نہ کہا کہ شاید میرے سوالوں کے جواب ‘ بِنا پوچھے ہی مل جائیں…
سچ کہوں تو ایک اور سوال پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی!
” یہ بات غلط سوچی ہے تم نے. ہماری روح آزاد ہے… ہاں آزاد ہے…تم نے بس ہمیں پر دے کے نئی اُڑانیں بھرنے پر للچا کر ہماری آنکھوں میں خواب بھردئے اور پھر وہی خواب قید کردئے…!
میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی باتوں میں اس کے ساتھ ‘ کن کا ذکر ہورہا ہے… کہ وہ ” ہم ” اب ” تم ” میں تبدیل ہوگیا…
کہنے لگی…
” میری روح آج بھی وہ خواب دیکھا کرتی ہے… اسے چھین لے جاؤ آکے…
تم نے چابیاں میری آنکھوں کے سامنے پانی میں ڈبو دیں اور سمجھ بیٹھے کہ اب میں پوری طرح سے بے بس ہوچکی ہوں…؟
یہاں میں وہ چابیاں سمندر سے لانے کو جھپٹی اور وہاں تمہاری وہ ہلاکت خیز مسکراہٹ…؟
ہاں! پانی میں زنجیریں ضرور ڈوبیں اور مجھے بھی ساتھ بہا لے گئیں…
میرا جسم تو آزاد نہ ہوا… ہاں… وہ بیڑیاں میری روح کو نہ باندھ سکیں… آخر میری روح تابناک ہوگئی اور ہر گوشہ روشن کرگئی…
ہر وہ سایہ ‘ جو تمہارے ستم سہہ سہہ کے اُکتا گیا تھا… ‘
اُس کے الفاظ سُن کر میرا دل گھبرا اُٹھا ‘ آنکھوں کے سامنے روشنی ہوکے بھی اندھیرا چھانے لگا…
وہ کن زنجیروں ‘ کن تالوں کی بات کر رہی تھی…؟
کیا وہ تالے میں نے………؟
میری یہ حالت دیکھ کے بھی وہ نہ رُکی…!
کہنے لگی………..
” وہ سایہ جسے تم بناکے اسی بناوٹ کی سزا دیتے ہو…
کیوں ہے وہ لوگوں کی کہی کوئی بات اور وہ جذبات ‘ جو کسی ماں سے اس کی جبیں کی روشنی چھین لے جائے اور پھر ایک ماں ‘ ایک عورت اپنے اشکوں میں وہ موج ڈھونڈتی پھرے ‘ جس میں وہ اپنے احساسات کو ڈبو کے کہیں دور سمندر کے کنارے گیلی ریت کا کفن اوڑھ کے سُلا سکے…
آخر کیوں؟ کیوں بنے وہ چند لفظوں کے ماتحت کسی کی غزل کا عنوان اور کسی کی روح کا سکون…؟… اور وہ روح؟ جو ازل سے بے چین ہے؟……… سنو…!
” ہ… ہ… ہاں….؟ ”
میں نے کانپتے ہوئے جواب دیا…
” میری یہ بناوٹ میں’ دھیرے دھیرے میں ہی مٹ کے خاک ہوتی جارہی ہوں ”
وہ شاید سہہ کے اور کہہ کے اتنا نہ تھکی ہوتی ‘ جتنا میں اُس کا حال اور اُس کے سوال سُن کے تھک چکا تھا…
اُس کی آنکھوں کا کہا…!
اب میں دہرانا چاہتا تھا کہ بس اب اور نہیں……
میں تھک چکا ہوں… میرے ان سوالوں سے…
میں تھک کے چُور ہوچکا ہوں…
اس سے پہلے کہ بکھر جاؤں…! مجھے آزاد کردو…
اُس نے میرا یہ حال دیکھ کر ‘ مسکرا کر اور ایک سوال پوچھ لیا………
ایک آخری سوال….
” تھر تھر کانپ کیوں رہے ہو؟ محض چند الفاظ تمہیں اتنا تھکا گئے…؟
سہنا پڑتا تو کیا سہہ پاتے…؟ ”
اُس کے اس سوال نے مجھے اور میری اُسی قصور وار روح کو جنجھوڑ کے رکھ دیا اور کسی طرح میں اپنا سر جھکا کر وہاں سے ایک بار پھر چل آیا بلکہ یہ کہوں کہ بھاگ آیا………..!!!