شکریہ دِلّی والو ، آپ کے سیاسی شعور کو سلام

0
0

بسم اللہ تعا لیٰ
ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد

ملک کے صدر مقام دہلی کے حالیہ عام انتخابات غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے، متضادنظریات کی حامل دوجماعتوں کے بیچ یہ انتخابات فاشزم بمقابلہ سیکولرازم ،فرقہ پرستی بمقابلہ بھائی چارگی، عامریت بمقابلہ جمہوریت،  ہندوتوئو بمقابلہ مذہبی ہم آہنگی، جملہ بازی بمقابلہ ترقی، نفرت بمقابلہ اخوت، اور منوسمرتی بمقابلہ دستورہند کا امتحان تھا۔اس امتحان میں دہلی والوں نے فرقہ پرستوں کو کراری شکست دیکر اپنے سیاسی شعور کا ثبوت دیدیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ فرقہ پرستی کو مسترد کردیا بلکہ یہ پیغام بھی دے دیا کہ عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے والے حکمراں کو عوام کبھی مایوس نہیں کرتی۔ دہلی کی عاپ حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں جو فلاحی کام انجام دیئے اس کو اس سے اچھی خراج تحسین کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ عوام پھر سے اس کوحکومت کی باگ ڈورسونپ دیں۔ اس کے لئے دہلی کی عوم نے پورے شعور کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور ایک ایک ووٹ کو کار آمد بنانے میں کامیاب رہے۔ اس انتخابات میں بی جے پی اور عاپ پارٹی کے علاوہ گیارہ سیاسی جماعتیں اپنی قسمت آزما رہی تھیں، لیکن سوائے کانگریس پارٹی کے کوئی بھی جماعت ایک فیصدبھی ووٹ حاصل نہیں کر سکیں، تمام پارٹیوںکا منجملہ ووٹ فیصدصرف۲ئ۷۶ رہا، کانگریس نے ۴ئ۲۶ فیصد ووٹ حاصل کیا جو ۲۰۱۵ء کے مقابلہ میں تقریباً۵ فیصدکم ہے۔ ۷۰ رکنی دہلی اسمبلی میں عاپ پارٹی کو ۶۲ ؍اور بی جے پی کو ۸؍ سیٹوں پر کامیابی ملی، گذشتہ کے مقابلے بی جے پی کی سیٹوں میں پانچ کا اضافہ ہواجس میں سے دوحلقوں گاندھی نگر اور لکشمی نگر میں کانگریس کے امیدوارکی وجہ سے عاپ کے امیدواروں کو شکست ہوئی جبکہ بدرپور حلقہ میں بی ایس پی کا امیدوار عاپ امیدوار کی شکست کاذمہ دار رہا، باقی کی دو نشستوں پرعاپ کے امیدوار نہایت ہی قلیل فرق ہارے ہیں، مصطفی آبادجہاں سے پچھلی بار بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا اس حلقہ سے اب کی بار عاپ کے امیدوارکو کامیابی حاصل ہوئی،وہاں بھی عاپ کے امیدوار حاجی یونس کے مقابلہ میں کانگریس کے امیدوار علی مہدی نقصان دہ ثابت ہو سکتے تھے لیکن عوام نے اپنی سمجھداری کا مظاہرہ کر تے ہوئے حاجی یونس کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کیا اگر یہاں سیکولر ووٹ دونوں امیدواروں میںبٹ جاتے تو اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہو سکتا تھا۔ اس انتخابات میں براری حلقہ کے سنجیو جھا سب سے زیادہ ووٹوں کے فرق (۷۸۱۴۶) سے کامیاب ہوئے اور دوسرے نمبر پراوکھلا حلقہ کے امیدوار امانت اللہ خان ہیں جنہوں نے اپنی مد مقابل کو ۷۱۸۲۷ ووٹوں سے شکست دی۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال گو اچھی مارجن سے کامیاب ہوئے لیکن ان کا مارجن ۲۰۱۵ء کے مقابلہ میں کم ہوا،اب کی بار وہ ۲۱۶۹۷ ووٹوں کی برتری سے جیتے ہیں جب کہ گزشتہ میں ان کو ۳۱۵۸۳ کی بر تری حاصل تھی۔سب سے کم فرق سے کامیاب ہو نے والی سیٹ کستوربا نگر کی ہے جہاں عاپ پارٹی کو صرف ۳۱۶۵ ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی جب کہ اسی حلقہ میں گزشتہ مرتبہ عاپ پارٹی کو ۱۵۸۹۶ کی سبقت حاصل تھی۔ بی جے پی کوسب سے کم فرق سے حاصل ہونے والی نشست لکشمی نگر کی ہے جہاں ووٹوں کافرق صرف ۸۸۰ ہے جب کہ اسی حلقہ میں کانگریس کے امیدوار نے ۴۸۷۲ ووٹ حاصل کئے۔نتائج کے اس اجمالی تجزیہ میں کچھ باتیں غور طلب ہیں، ایک یہ کہ دہلی کا انتخاب دو رخی رہا،یہاں بی جے پی کا راست مقابلہ عاپ پارٹی سے ہوا، عوام نے دیگر تمام جماعتوںاوران کے امیدواروںکویکسرمسترد کردیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں فرقہ پرستوںکو شکست دینا ممکن ہوا، ملک بھر میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوںسے یہ توقع نہیںکی جاسکتی کہ وہ بی جے پی کے خلاف کوئی متحدہ محاذ قائم کریں گے اس لئے اب یہ ذمہ داری عوام کوہی قبو ل کرنا ہوگی کہ وہ اپنے اپنے حلقوںمیں فرقہ پرست امیدوارکے مقابلے میں کسی ایک سیکولر امیدوار پرمتفق ہوجائیں اور سیکولر ووٹوں کوتقسیم نہ ہونے دیں۔ یہ بات بھی غورکرنے کی ہے کہ فرقہ پرستوںکے ووٹ بنک میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی فرقہ پرستوں کے مقابلہ میںسیکولر سوچ کے حامیوںکی تعدادزیادہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ فرقہ پرست متحد ہیں اور سیکولر رائے دہندگان تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں۔دہلی کی طرح اگر ہر جگہ سیکولر رائے دہندگان متحد ہو جائیں تو فرقہ پرستوں کو اقتدارسے بے دخل کرنا نا ممکن نہیں۔ دہلی انتخابات میں اکثریتی ووٹ دو حصوں میں تقسیم ہوا ایک بی جے پی کے حق میں تو دوسرا عاپ پارٹی کے حق میں، اور اقلیتوں کاووٹ متفقہ اور متحدہ طور پر صرف اور صرف عاپ کے حق میں جانے کی وجہ سے عاپ کو شاندارکامیابی حاصل ہوئی۔۲۰۱۵ء میں بھی اقلیتوں کا ووٹ کانگریس سے ٹوٹ کر عام آدمی پارٹی کے حق میں گیا تھا۔اروند کیجریوال کو مسلمانوںکایہ احسان ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، انتخابی حکمت عملی کے تحت انہوں نے بھلے ہی مسلمانوں سے دوری بنائے رکھی ، شاہین باغ اور سی اے اے کا کہیں ذکر نہیں کیا لیکن انتخابات کے بعدانہیں مسلمانوںکی حق کی لڑائی میں شانہ بہ شانہ کھڑارہنا چاہیے۔اگر آپ کانگریس کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے اس لئے انہوں نے بی جے پی کو ہرانے کے لئے عاپ کوووٹ دیا تو یہ سمجھ لیجیے کہ کانگریس کی ناانصافی کی وجہ سے مسلمان کانگریس سے ستّرسالہ رشتہ توڑ سکتے ہیںتوبہت ممکن ہیکہ آئندہ پھر کوئی متبادل تلاش کر لیں گے۔اس انتخابات میں ترقی،خوشحالی اور حکومت کی جانب سے شہری سہولیات کی فراہمی کا بھی اہم کرداررہا۔ لوگ ہندو،مسلمان،پاکستان، بریانی، ۳۷۰ ، تین طلاق اور مندر مسجد پر جملہ بازی کی سیاست سے اوب گئے ہیں، اب انہیں فکرہو رہی ہے اپنے مستقبل کی،اپنی آنے والی نسلوںکی، اپنی روزی روٹی کی،اپنی تعلیم اور صحت یابی کی،اپنے شہری حقوق کی،اپنے کاروبار اور صنعتی ترقی کی۔پچھلے پانچ سالوں میں کیجریوال نے ایک فلاحی حکومت کا جو ماڈل پیش کیا وہ دیگر ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کے لئے ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتوںکے سیاستداں خدمت خلق کے اس جذبہ سے عاری ہو گئے ہیں۔ وہ انتخابات کے دوران عوام سے بڑے بڑے وعدے تو کرتے ہیں لیکن اقتدار پر پہنچنے کے بعد’’ بھر عبداللہ گُڑ تھیلی میں ‘‘ کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں۔ کیجریوال نے اس روش کو بدلا اور انہیں اس کا صلہ بھی مل گیا۔امیت شاہ کے حالیہ بیان سے یوں لگتاہے کہ دہلی کے انتخابی نتائج کی وجہ سے بی جے پی کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیںانہیں اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ جملہ بازی اورفرقہ پرستی کے سہارے عوام کے جذبات تو بھڑکائیں جا سکتے ہیں لیکن لوگوں کی ہمدردیاں حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ یہ نتائج کانگریس پارٹی کے لئے بھی لمحہ فکر یہ ہیں، اسے اپنی کارکردگی ،زمینی حقائق، اور اپنی حیثیت کا جائزہ لیکر’ اکیلا چلو‘ کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ کانگریس کو اب اس سحر سے باہر نکل جانا چاہیے کہ وہ ملک کی سب سے قدیم اور قومی پارٹی ہے۔ ہم نے انہی کالموں میں دہلی کی عوام سے درخواست کی تھی کہ وہ حاکم رشید کو اس کے کاموں کی رسید اپنے ووٹوں کی شکل میں دے کر اسے دوبارہ مسند اقتدارتک پہنچائیں،دہلی کی عوام نے وہ کر دکھایا اس کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں۔(یو این این) ملک کے صدر مقام دہلی کے حالیہ عام انتخابات غیر معمولی اہمیت کے حامل رہے، متضادنظریات کی حامل دوجماعتوں کے بیچ یہ انتخابات فاشزم بمقابلہ سیکولرازم ،فرقہ پرستی بمقابلہ بھائی چارگی، عامریت بمقابلہ جمہوریت،  ہندوتوئو بمقابلہ مذہبی ہم آہنگی، جملہ بازی بمقابلہ ترقی، نفرت بمقابلہ اخوت، اور منوسمرتی بمقابلہ دستورہند کا امتحان تھا۔اس امتحان میں دہلی والوں نے فرقہ پرستوں کو کراری شکست دیکر اپنے سیاسی شعور کا ثبوت دیدیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ فرقہ پرستی کو مسترد کردیا بلکہ یہ پیغام بھی دے دیا کہ عوامی فلاح و بہبود پر توجہ دینے والے حکمراں کو عوام کبھی مایوس نہیں کرتی۔ دہلی کی عاپ حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں جو فلاحی کام انجام دیئے اس کو اس سے اچھی خراج تحسین کوئی ہو ہی نہیں سکتی کہ عوام پھر سے اس کوحکومت کی باگ ڈورسونپ دیں۔ اس کے لئے دہلی کی عوم نے پورے شعور کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور ایک ایک ووٹ کو کار آمد بنانے میں کامیاب رہے۔ اس انتخابات میں بی جے پی اور عاپ پارٹی کے علاوہ گیارہ سیاسی جماعتیں اپنی قسمت آزما رہی تھیں، لیکن سوائے کانگریس پارٹی کے کوئی بھی جماعت ایک فیصدبھی ووٹ حاصل نہیں کر سکیں، تمام پارٹیوںکا منجملہ ووٹ فیصدصرف۲ئ۷۶ رہا، کانگریس نے ۴ئ۲۶ فیصد ووٹ حاصل کیا جو ۲۰۱۵ء کے مقابلہ میں تقریباً۵ فیصدکم ہے۔ ۷۰ رکنی دہلی اسمبلی میں عاپ پارٹی کو ۶۲ ؍اور بی جے پی کو ۸؍ سیٹوں پر کامیابی ملی، گذشتہ کے مقابلے بی جے پی کی سیٹوں میں پانچ کا اضافہ ہواجس میں سے دوحلقوں گاندھی نگر اور لکشمی نگر میں کانگریس کے امیدوارکی وجہ سے عاپ کے امیدواروں کو شکست ہوئی جبکہ بدرپور حلقہ میں بی ایس پی کا امیدوار عاپ امیدوار کی شکست کاذمہ دار رہا، باقی کی دو نشستوں پرعاپ کے امیدوار نہایت ہی قلیل فرق ہارے ہیں، مصطفی آبادجہاں سے پچھلی بار بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوا تھا اس حلقہ سے اب کی بار عاپ کے امیدوارکو کامیابی حاصل ہوئی،وہاں بھی عاپ کے امیدوار حاجی یونس کے مقابلہ میں کانگریس کے امیدوار علی مہدی نقصان دہ ثابت ہو سکتے تھے لیکن عوام نے اپنی سمجھداری کا مظاہرہ کر تے ہوئے حاجی یونس کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کیا اگر یہاں سیکولر ووٹ دونوں امیدواروں میںبٹ جاتے تو اس کا راست فائدہ بی جے پی کو ہو سکتا تھا۔ اس انتخابات میں براری حلقہ کے سنجیو جھا سب سے زیادہ ووٹوں کے فرق (۷۸۱۴۶) سے کامیاب ہوئے اور دوسرے نمبر پراوکھلا حلقہ کے امیدوار امانت اللہ خان ہیں جنہوں نے اپنی مد مقابل کو ۷۱۸۲۷ ووٹوں سے شکست دی۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال گو اچھی مارجن سے کامیاب ہوئے لیکن ان کا مارجن ۲۰۱۵ء کے مقابلہ میں کم ہوا،اب کی بار وہ ۲۱۶۹۷ ووٹوں کی برتری سے جیتے ہیں جب کہ گزشتہ میں ان کو ۳۱۵۸۳ کی بر تری حاصل تھی۔سب سے کم فرق سے کامیاب ہو نے والی سیٹ کستوربا نگر کی ہے جہاں عاپ پارٹی کو صرف ۳۱۶۵ ووٹوں سے کامیابی حاصل ہوئی جب کہ اسی حلقہ میں گزشتہ مرتبہ عاپ پارٹی کو ۱۵۸۹۶ کی سبقت حاصل تھی۔ بی جے پی کوسب سے کم فرق سے حاصل ہونے والی نشست لکشمی نگر کی ہے جہاں ووٹوں کافرق صرف ۸۸۰ ہے جب کہ اسی حلقہ میں کانگریس کے امیدوار نے ۴۸۷۲ ووٹ حاصل کئے۔نتائج کے اس اجمالی تجزیہ میں کچھ باتیں غور طلب ہیں، ایک یہ کہ دہلی کا انتخاب دو رخی رہا،یہاں بی جے پی کا راست مقابلہ عاپ پارٹی سے ہوا، عوام نے دیگر تمام جماعتوںاوران کے امیدواروںکویکسرمسترد کردیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں فرقہ پرستوںکو شکست دینا ممکن ہوا، ملک بھر میں آئندہ ہونے والے انتخابات میں سیاسی جماعتوںسے یہ توقع نہیںکی جاسکتی کہ وہ بی جے پی کے خلاف کوئی متحدہ محاذ قائم کریں گے اس لئے اب یہ ذمہ داری عوام کوہی قبو ل کرنا ہوگی کہ وہ اپنے اپنے حلقوںمیں فرقہ پرست امیدوارکے مقابلے میں کسی ایک سیکولر امیدوار پرمتفق ہوجائیں اور سیکولر ووٹوں کوتقسیم نہ ہونے دیں۔ یہ بات بھی غورکرنے کی ہے کہ فرقہ پرستوںکے ووٹ بنک میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب بھی فرقہ پرستوں کے مقابلہ میںسیکولر سوچ کے حامیوںکی تعدادزیادہ ہے فرق صرف یہ ہے کہ فرقہ پرست متحد ہیں اور سیکولر رائے دہندگان تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں۔دہلی کی طرح اگر ہر جگہ سیکولر رائے دہندگان متحد ہو جائیں تو فرقہ پرستوں کو اقتدارسے بے دخل کرنا نا ممکن نہیں۔ دہلی انتخابات میں اکثریتی ووٹ دو حصوں میں تقسیم ہوا ایک بی جے پی کے حق میں تو دوسرا عاپ پارٹی کے حق میں، اور اقلیتوں کاووٹ متفقہ اور متحدہ طور پر صرف اور صرف عاپ کے حق میں جانے کی وجہ سے عاپ کو شاندارکامیابی حاصل ہوئی۔۲۰۱۵ء میں بھی اقلیتوں کا ووٹ کانگریس سے ٹوٹ کر عام آدمی پارٹی کے حق میں گیا تھا۔اروند کیجریوال کو مسلمانوںکایہ احسان ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، انتخابی حکمت عملی کے تحت انہوں نے بھلے ہی مسلمانوں سے دوری بنائے رکھی ، شاہین باغ اور سی اے اے کا کہیں ذکر نہیں کیا لیکن انتخابات کے بعدانہیں مسلمانوںکی حق کی لڑائی میں شانہ بہ شانہ کھڑارہنا چاہیے۔اگر آپ کانگریس کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے اس لئے انہوں نے بی جے پی کو ہرانے کے لئے عاپ کوووٹ دیا تو یہ سمجھ لیجیے کہ کانگریس کی ناانصافی کی وجہ سے مسلمان کانگریس سے ستّرسالہ رشتہ توڑ سکتے ہیںتوبہت ممکن ہیکہ آئندہ پھر کوئی متبادل تلاش کر لیں گے۔اس انتخابات میں ترقی،خوشحالی اور حکومت کی جانب سے شہری سہولیات کی فراہمی کا بھی اہم کرداررہا۔ لوگ ہندو،مسلمان،پاکستان، بریانی، ۳۷۰ ، تین طلاق اور مندر مسجد پر جملہ بازی کی سیاست سے اوب گئے ہیں، اب انہیں فکرہو رہی ہے اپنے مستقبل کی،اپنی آنے والی نسلوںکی، اپنی روزی روٹی کی،اپنی تعلیم اور صحت یابی کی،اپنے شہری حقوق کی،اپنے کاروبار اور صنعتی ترقی کی۔پچھلے پانچ سالوں میں کیجریوال نے ایک فلاحی حکومت کا جو ماڈل پیش کیا وہ دیگر ریاستوں کے وزراء اعلیٰ کے لئے ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک کی تمام سیاسی جماعتوںکے سیاستداں خدمت خلق کے اس جذبہ سے عاری ہو گئے ہیں۔ وہ انتخابات کے دوران عوام سے بڑے بڑے وعدے تو کرتے ہیں لیکن اقتدار پر پہنچنے کے بعد’’ بھر عبداللہ گُڑ تھیلی میں ‘‘ کا عملی نمونہ بن جاتے ہیں۔ کیجریوال نے اس روش کو بدلا اور انہیں اس کا صلہ بھی مل گیا۔امیت شاہ کے حالیہ بیان سے یوں لگتاہے کہ دہلی کے انتخابی نتائج کی وجہ سے بی جے پی کے ہوش ٹھکانے آگئے ہیںانہیں اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ جملہ بازی اورفرقہ پرستی کے سہارے عوام کے جذبات تو بھڑکائیں جا سکتے ہیں لیکن لوگوں کی ہمدردیاں حاصل نہیں کی جاسکتیں۔ یہ نتائج کانگریس پارٹی کے لئے بھی لمحہ فکر یہ ہیں، اسے اپنی کارکردگی ،زمینی حقائق، اور اپنی حیثیت کا جائزہ لیکر’ اکیلا چلو‘ کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ کانگریس کو اب اس سحر سے باہر نکل جانا چاہیے کہ وہ ملک کی سب سے قدیم اور قومی پارٹی ہے۔ ہم نے انہی کالموں میں دہلی کی عوام سے درخواست کی تھی کہ وہ حاکم رشید کو اس کے کاموں کی رسید اپنے ووٹوں کی شکل میں دے کر اسے دوبارہ مسند اقتدارتک پہنچائیں،دہلی کی عوام نے وہ کر دکھایا اس کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں۔(یو این این)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا