دارالعلوم دیوبند کے مہتمم کا بیان اور عجیب و غریب وضاحت

0
0

’ایں چہ بوالعج بی است!‘

عبدالعزیز

مسلمانوں کے جدید طبقے کا ایک حصہ جو غیر اسلامی نظریات یا جدید خیالات سے متاثر ہے وہ علمائے کرام پر حملے کرتا رہتا ہے اور اس کا مقصد علماء کی اہمیت کم کرنے یا ختم کرنے کی ہوا کرتی ہے۔ خاکسار اکثر و بیشتر ایسے لوگوں کی مخالفت کرتا ہے۔ لیکن علماء میں سے جو لوگ حالات کو سمجھے بغیر بیان دیتے ہیں یا دنیوی غرض و غایت کے پیش نظر اظہار خیال کرتے ہیں ان کی تنقید کرنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کا جوبیان وائرل ہوا ہے اس کو میںنے سنا۔ اس میں انھوںنے کہا ہے کہ ’’سی اے اے‘ اور ’این آر سی‘ کے بارے میں حکومت ہند کی طرف سے جو بیان آیا ہے اور جس میں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ لاگو نہیں کیا جائے گا۔ لہٰذا میری گزارش ہے کہ خواتین کی طرف سے جو دھرنا اور مظاہرہ ہورہا ہے اسے ختم کر دینا چاہئے۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت کے بیان سے لوگ مطمئن نہیں ہیں۔ اس کے باوجود میرا خیال ہے کہ وعدے اور یقین دہانی پر بھروسہ کرتے ہوئے احتجاج کو ختم کر دینا چاہئے۔ اگر پھر لاگو کیا جاتا ہے یا لاگو ہونے کی بات کی جاتی ہے تو احتجاج کرنے والے یا مظاہرہ کرنے والوں کا پورا قانونی حق ہوگا کہ وہ دوبارہ احتجاج اور مظاہرہ کریں‘‘۔  دیوبند اور دیوبند کے باہر مفتی صاحب موصوف کے بیان کی زبردست مذمت ہوئی۔ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے مذمتی بیان دیا۔ ان کے خلاف احتجاج کیا اور ان کا گھیراؤ کیا۔ کئی خواتین نے بھی مذمتی بیانات دیئے۔  جب مفتی صاحب کی پریشانی حد سے زیادہ بڑھی۔ ان کا بیان وائرل ہونے لگا تو انھوں نے وضاحتی بیان دیا۔ جو میرے خیال سے ’عذرِ گناہ بدتر از گناہ‘ ہے۔ان کا بیان ایسا نہیں ہے کہ ایک دو آدمیوں نے سنا بلکہ لاکھوں آدمیوں نے سنا ہے۔ میں نے بھی اپنے فیس بک میں سنا۔ جب میں نے دہلی کے ایک مشہور صحافی سے پوچھا کہ مولانا کو بیان دینے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ تو انھوںنے کہاکہ ’’کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جب وہ بیان دے رہے تھے تو پولس کی ایک ٹیم بھی وہاں پر موجود تھی۔ یہ اسپانسر بیان تھا‘‘۔  واقعہ یہ ہے کہ جہاں موصوف بیان دے رہے تھے نہ صرف دیگر لوگ موجود تھے بلکہ پولس کی ٹیم موجود تھی۔ مذکورہ صحافی کا یہ کہنا ہے کہ اسپانسر بیان تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یوپی کی حکومت نے ان سے بیان دلوایا۔ اگر یہ بات سچ ہے تو اور بھی خراب بات ہے۔ ایسی حکومت جو جبر و ظلم سے کام لے رہی ہو اور لوگوں کے جمہوری حقوق کو سلب کر رہی ہو جہاں احتجاج کو روکا جارہا ہے۔ یوگی کی طرف سے دھمکی دی جارہی ہے۔ پولس کی فائرنگ سے چوبیس پچیس افراد شہید ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں لوگ جیلوں میں ہیں۔ ان سب کے باوجود احتجاج اور مظاہرہ جاری ہے۔ خواتین بھی مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ایک مرد وہ بھی مفتی اور عالم اور ایک بہت بڑی درسگاہ کا مہتمم اگر حکومت کے دباؤ سے بیان دیتا ہے تو بہت ہی شرمناک اور افسوسناک ہے۔  بیان پر تبصرہ: مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب بنارسی کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ پورے ملک میں مظاہرے، احتجاج اور دھرنے میں صرف مسلمان مرد و عورتیں شامل نہیں ہیں بلکہ بہت بڑی تعداد غیر مسلموں کی بھی ہے۔ اتر پردیش میں کئی بڑے اسکالر اور تعلیم یافتہ غیر مسلموں کو قید و بندکی سزا دی گئی۔ بچوں تک پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ دھرنے میں جو خواتین بیٹھی ہیں ان کے خلاف ایف آئی آر کیا گیا اور کئی سنگین قسم کے دفعات لگائے گئے۔ ایسے وقت میں ظالم کی مخالفت، مذمت کرنی چاہئے نہ کہ ظالم کی ہاں میں ہاں ملانا چاہئے۔ میرے خیال سے اس وقت یا کبھی بھی ظالم کی ہاںمیں ہاںملانا، اس کی حمایت کرنا یا کسی طرح سے اس کو تقویت پہنچانے والے کو اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کچھ اس طرح ہے: ’’جس نے جان بوجھ کر ظالم کا ساتھ دیا اس نے اپنے آپ کو اسلام سے خارج کرلیا‘‘۔  مفتی صاحب کے بیان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ملک گیر پیمانے پر جو پرامن اورجمہوری احتجاج ہورہا ہے یا تو وہ اس سے واقف نہیں ہیں یا چشم پوشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا حکمرانوں کو بلا وجہ خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہر گز نہیں ہونا چاہئے۔ ان کو تواس احتجاج ومظاہرے میں شامل ہونا چاہئے یا کم سے کم مظاہرین کی حمایت کرنی چاہئے اور ان کی کامیابی کیلئے دعا کرنی چاہئے۔ ماہ دسمبر کا ان کا ایک بیان بھی افسوسناک ہے جو ان کی لاعلمی اور حالات سے بے خبری کا مظاہرہ ہے۔ انھوںنے دارالعلوم دیوبندکے طلبہ کو ہدایت کی ہے اور ان سے اپیل کی کہ وہ کسی قسم کے احتجاج اورمظاہرے میں شامل نہ ہوں۔ مفتی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہندستان کی اکثر و بیشتر یونیورسٹیوں اور کالجز کے طلبہ مظاہرے میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ آج (10فروری) کے اخبارمیں ہے کہ آئی آئی ٹی کانپور اور آئی آئی ٹی کے دوسرے ادارے کے طلبہ اور معلّمین نے مظاہرین اور دھرنا دینے والوں کی حمایت کا یقین دلایا ہے اور اپیل کی ہے کہ دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ اور معلّمین بھی مظاہرین کی حمایت کریں۔ مسٹرکینن گوپی ناتھن اور مسٹر ششی کانت سینتھل یہ دونوں حضرات کشمیر اور کالے قانون کے خلاف مجسٹریٹ کے عہدے سے نہ صرف مستعفی ہوئے بلکہ ہندستان بھر میں جہاں بھی مظاہرے اور دھرنے ہورہے ہیں ان میں سابق افسران کو دعوت دی جارہی ہے، وہ شرکت کر رہے ہیں اور حکومت کے رویے، غیر جمہوری طریقے پر سخت تنقیدیں کر رہے ہیں۔ گوپی ناتھن نے حکومت کو الٹی میٹم دیا ہے کہ اگر مارچ تک کالے قانون کو واپس لے لیا جائے۔ اگر نہیں لیا جاتا ہے تو وہ اور ان کے ساتھی بڑی تعداد میں دہلی پہنچیں گے اور اس وقت تک دہلی میں رہیں گے جب تک کہ یہ کالا قانون ختم نہیں کیا جاتا۔ یہ ان لوگوں کے کردار اور سیرت ہیں جنھوںنے اپنا کیریئر بنانے کیلئے عصری تعلیم یا دنیوی تعلیم حاصل کی ہے۔  حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے کہ اگر ظالم کو ظلم کرتے ہوئے لوگ دیکھیں پھر اس کے دونوں ہاتھ نہ پکڑ لیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ سب کے سب عذاب میں گرفتار ہوجائیں‘‘۔ ترمذی شریف میںہے کہ ’’ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی مجلس میں فرمایا کہ ’’بنی اسرائیل میں اخلاقی تنزل شروع ہوا تو پہلے ان کے علماء نے منع کیا۔ جب وہ نہ رکے تو ان کے ساتھ بیٹھنے، اٹھنے اور کھانے پینے لگے۔ صحبت کے اثر سے وہ بھی ایسے ہی ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کی معرفت ان پر لعنت کی‘‘۔ اس کے آپؐ سنبھل کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ’’اگر تم ظلم یا برائی دیکھ کر روکنے کی کوشش نہیں کروگے تو اللہ تمہارے دل کو بھی برے لوگوں کے رنگ میں رنگ دے گا اور فرشتے تم پر لعنت کریں گے‘‘۔ یہ حدیث بھی بہت مشہور ہے کہ ’’ظالم کو اس کے ظلم سے اگر نہیں روکا جاتا تو ایسا وقت بھی آسکتا ہے کہ تم دعائیں کروگے اور تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی‘‘۔  یہ احکامات یا ہدایات کیا صرف پڑھنے پڑھانے کیلئے ہیں یا اس پر عمل کرنے کیلئے بھی کہا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کیلئے کہتے ہو مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو‘ ‘۔ (سورہ بقرہ، آیت44) عالم ہوں یا غیر عالم جو لوگ مظاہرے ، احتجاج اور دھرنے میں شرکت نہیں کر رہے ہیں ان کو کسی قسم کا بھی مشورہ دینے کا حق نہیں پہنچتا۔ سورہ صف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے۔ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں‘‘۔  اس وقت جو پورے ملک میں کالے قانون کے خلاف جو تحریک چل رہی ہے اس کی گہرائی اور گیرائی سے لوگوں کو واقف ہونا چاہئے۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کالے قانون کے خلاف تحریک چل رہی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں ہے حقیقت یہ ہے کہ کالے قانون کے خلاف بھی تحریک چل رہی ہے۔ ملک کی جو موجودہ حکومت ہے اس کے خلاف بھی تحریک چل رہی ہے۔ حکومت کی غلط کارکردگی کے خلاف بھی تحریک چل رہی ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال کس قدر سنگین ہے۔ ہر لحاظ سے سنگین ہے۔معاشی لحاظ سے،امن و امان کے لحاظ سے، بے روزگاری کے لحاظ سے، الغرض ہر لحاظ سے۔ امیروں اور سنگھ پریوار کے سوا ہر طبقہ پریشان حال ہے۔ خاص طور پر غریب اور کمزور طبقے کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ ایک دانشور خاتون نے بہت صحیح کہا ہے کہ ’’یہ تحریک جو چند مہینے سے شروع ہوئی ہے، اس تحریک کو اس وقت شروع ہونا چاہئے تھا جب محمد اخلاق کو گائے کے گوشت کے شبہ میں ان کے گھر سے گھسیٹ کر راستے میں شہید کیا گیا تھا‘‘۔ اسلام عدل و انصاف کے قیام کیلئے آیا ہے۔مسلمانوں کو ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ کے فریضے کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انھیں ’خیر امت‘ کا لقب دیا ہے۔ اگر یہ امت یا یہ جماعت اس شرط کو پوری نہیں کرتی تو آخر کس بنیاد پر اسے خیر امت کہا جاسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ امت منتشر ہوجائے گی اور اس فریضے کو مجموعی طور پر انجام نہیں دے گی۔ چنانچہ جس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے شرط کے ساتھ مسلمانوں کو خیر امت کہا ہے اسی سورہ میں ہدایت کی ہے کہ ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں ، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔ (آل عمران، آیت نمبر 104) اس مضمون یا تبصرہ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو جو تحریک چل رہی ہے اس پر غیر سنجیدگی اور غیر محتاط طریقے سے عالم یا غیر عالم بیان سے پرہیز کریں۔ علماء اور مشائخ کی معاشرے میں بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ذمہ داری کو چھوڑ دیں تو ایک سانحہ سے کم نہیں ہے۔ اورصرف چھوڑ نہ دیں بلکہ جو لوگ جبر و ظلم کر رہے ہیں ان کو کسی حیثیت سے بھی تقویت پہنچائیں تو میرے خیال سے وہ سانحہ عظیم ہے اور ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے۔ (یو این این)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا