اکبر لون کے فرزند ہلال لون پر پی ایس اے عائد

0
0

یواین آئی

سرینگرجموں وکشمیر میں یونین ٹریٹری انتظامیہ نے نیشنل کانفرنس لیڈر اور شمالی کشمیر سے رکن پارلیمان محمد اکبر لون کے بیٹے ہلال لون پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کردیا۔ ہلال لون وادی سے تعلق رکھنے والے ساتویں سیاسی لیڈر ہیں جن پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس لیڈر ہلال لون پر پیر کے روز پی ایس اے عائد کیا گیا۔ انہوں نے کہا: ‘ہلال لون پر بھی پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔ انہیں پانچ اگست 2019 کو حراست میں لیا گیا تھا۔ وہ فی الحال ایم ایل اے ہوسٹل میں ہی نظربند رہیں گے’۔قبل ازیں انتظامیہ نے 6 فروری کو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ و محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر اور پی ڈی پی لیڈر سرتاج مدنی پر پی ایس اے کا اطلاق کیا تھا۔ پھر 8 فروری کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) لیڈر اور سابق وزیر نعیم اختر پر (پی ایس اے) عائد کیا گیا اور انہیں سری نگر کے گپکار روڑ پر واقع ‘ایم فائیو ہٹ’ میں نظربند رکھا جائے گا۔ نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پی ایس اے کا اطلاق گزشتہ سال کے ستمبر میں کیا گیا تھا اور اس کی مدت ختم ہونے کے بعد اس میں مزید تین ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔ تاہم وہ اپنی رہائش گاہ، جس کو سب جیل میں تبدیل کیا گیا ہے، میں نظربند ہیں۔ پی ایس اے، جس کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے جنگل اسمگلروں کے لئے بنایا تھا، کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے ایک ‘غیرقانونی قانون’ قرار دیا ہے۔ اس قانون کے تحت عدالتی پیش کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم تین ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس قانون کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے ا±ن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جب جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 منسوخ کیں اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا تو درجنوں سیاسی لیڈران کو بند کیا گیا۔ تاہم گزشتہ چند ماہ کے دوران قریب دو درجن لیڈران کو رہا کیا گیا یا ایم ایل اے ہوسٹل سے رہا کرکے اپنے گھر میں نظربند کیا گیا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا