’مذہبی عقائد بمقابلہ بنیادی حقوق ‘

0
0

نظر ثانی درخواستوں میں بھی قانون کے سوالات کو بڑی بنچ میں بھیجا جا سکتا ہے: سپریم کورٹ
یواین آئی

نئی دہلی مذہبی عقائد بمقابلہ بنیادی حقوق کے معاملے میں سپریم کورٹ کی نو ججوں کے آئینی بنچ نے آج فیصلہ سنایا ہے کہ نظر ثانی درخواستوں میں بھی قانون کے سوالات کو بڑی بنچ میں بھیجا جا سکتا ہے۔ گزشتہ 6 فروری کو عدالت نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے کہا تھا کہ اس ریفرنس کا سبریمالا نظر ثانی درخواستسے کوئی مطلب نہیں ہے۔ سبریمالا معاملے کی نظر ثانی درخواست پر سماعت کرنے والی بنچ نے نظر ثانیکے معاملے کو بڑی بنچ کے لیے ریفر نہیں کیا بلکہ مذہبی حقوق سے متعلق کچھ مماثل سوالوں پر غور کرنے کے لئے بڑی بنچ کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ تکنیکی بنیاد پر کورٹ کے دائرہ اختیار پر اثر نہیں پڑنا چاہئے۔ انہوں نے نوتےج جوہر کیس کا حوالہ دیا جس میں پانچ رکنی بنچ نے دفعہ 377 کو منسوخ کر دیا۔ تشار مہتہ نے کہا تھا کہ کورٹ ان معاملات پر غور کر سکتی ہے اور اس میںپریشانی نہیں ہے۔ اگر کوئی قانونی سوال ہے تو عدالت بڑی بنچ کوغور کرنے کے لئے بھیج سکتاہے۔ بنیادی حقوق کی محافظ ہونے کے ناطے کورٹ کا یہ فرض ہے کہ وہ قانونی سوالات پر غور کرے۔ سینئر وکیل فالی ایس نریمن نے کہا تھا کہ ریفرنس پر غور نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نظر ثانی درخواست میں صرف اصل کیس کے فیصلوں پر غور کیا جا سکتا ہے۔ نظر ثانی دائرہ کار میں کسی قانونی سوال کو بڑی بنچ کو نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ سبریمالا معاملے پر نظر ثانی کرنے والی بنچ نے 14 نومبر 2019 کو صرف حکم التوا دیا تھا کوئی ریفرنس نہیں دیا تھا۔ سینئر وکیل اندرا جے سنگھ نے کہا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ 14 نومبر 2019 کو دیا گیاحکم نظر ثانی درخواستوں پر دیا گیا تھا یا دوسری رٹ درخواستوں پر۔ انہوں نے نریمن کی دلیلوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ کرتے وقت بڑی بنچ کو ریفر نہیں کیا جا سکتا ہے۔ کیرالہ حکومت کی جانب سے سینئر وکیل جے دیپ گپتا نے ریفرنس کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نظر ثانی درخواست کی کارروائی اور ریفرنس کی کارروائی دونوں بالکل مختلف اور مخالف ہیں۔ سینئر وکیل شیام دیوان نے بھی ریفرنس کی مخالفت کی تھی۔ سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کورٹ اختیارات کا حوالہ دیتے ہوئے ریفرنس کی حمایت کی تھی۔ سنگھوی نے کہا کہ سبریمالا معاملے پر فیصلہ ایک مفاد عامہ کی عرضی پر آیا۔ سنگھوی نے نوتےج جوہر کے معاملے کا حوالہ دیا تب اندرا جے سنگھ نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک رٹ پٹیشن کے بعد آیا۔ سینئر وکیل کے پراسرن نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ اس ملک کی سب سے اعلیٰعدلیہ ہے اور وہ لامحدوددائرہ اختیارکا استعمال کر سکتی ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا