ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز۔ فون:9395381226
وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی نے 6؍فروری 2020ء کو لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطبہ کے جواب میں اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ اس بات کا تیقن دیتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون سے کسی بھی ہندوستانی چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ‘ عیسائی ہو یا جین، بدھ اس کی شہریت چھینی نہیں جائے گی۔ ان کے لئے ہر شہری صرف ہندوستانی ہے‘ کانگریس کے لئے یہ شہری ہندو یا مسلمان ہیں۔ ایوان پارلیمنٹ میں ہونے والی تقاریر کی اہمیت اس لحاظ سے ہوتی ہے کہ ہر لفظ باقاعدہ ریکارڈ میں شامل ہوتا ہے۔ رسمی تقریر سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم اپوزیشن نے وزیر اعظم کی تقریر کو ’’الف لیلوی داستان‘‘ کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ سوائے بی جے پی کے کوئی اور ملک میں مذہبی تفریق کا ذمہ دار نہیں ہے۔ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے‘ ہمیشہ رہے گا۔ عہدہ کے اعتبار سے وزیر اعظم کی اپنی ذمہ داری ہے‘ چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت سے کیوں نہ ہو۔ مگر ان کے وزراء اور پارٹی لیڈرس کا زہر آلود لہجہ، اشتعال انگیز بیانات اور مسلم دشمن رویہ شرمناک رہا ہے۔ عام ہندوستانی کے لئے ایک طرف وزیر اعظم کی تقریر اس میں کئے گئے وعدوئوں اور تیقنات پر غور و فکر کرنے‘ یقین کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہے۔ ساتھ ہی وہ وزیر اعظم کی تقریر کو اپوزیشن کی تنقید کی کسوٹی پر پرکھ کر بھی دیکھ سکتا ہے۔ یہ تیقنات، دعوے، وعدے دہلی الیکشن سے کچھ گھنٹوں پہلے ہوئے ہیں اس کا کیا اثر ہوگا وہ آنے والے دنوں میں نظر آئے گا۔ البتہ یہ بات طئے ہے کہ بی جے پی قائدین نے حالیہ عرصہ کے دوران جو رویہ، لب و لہجہ اختیار کیا وہ شرمناک رہا ہے۔ دارالحکومت میں اقتدار کے لئے وہ جتنا گرسکتے تھے‘ گرچکے۔ عوام کی نظروں سے تو پہلے گرچکے تھے‘ اپنی نظروں سے اس لئے نہیں گریںگے کہ گراوٹ ہی ان کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ ان کی بدبختی ہے۔ ان کی ہر کوشش‘ ہر سازش ناکام ہورہی ہے۔ ہر نشانہ چوک رہا ہے۔ ان کا ہر حربہ عوام سمجھنے لگے ہیں‘ وہ جو کہتے ہیں اس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ کیوں کہ عوام جان چکے ہیں کہ وہ جھوٹ کے پتلے ہیں۔ کلاکار ہیں۔ اداکار ہیں۔ بازی گر ہیں اور ایسے جادوگر کہ انہی کے بارے میں شاعر نے کہا تھا کہ:دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پر کوئی داغتم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو سیاسی مفادات کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔ گولیاں چلائی جارہی ہیں‘ اور اس کے الزام اپوزیشن پر لگائے جارہے ہیں۔ پہلے الزام لگایا گیا کہ پیسہ لے کر خواتین احتجاج کررہی ہے جب ایماندار، فرض شناس، میڈیا نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کیا تو اپنی ایک خاتون کارکن کو برقع پہناکر ان خواتین میں پہنچادیا گیا تاکہ اسٹنگ آپریشن کے ذریعہ غلط سلط باتیں منظر عام پر لائی جائیں۔ مگر یہاں بھی وہ مات کھاگئے۔ کیوں کہ انہوں نے اس مرتبہ شاہین باغ کی خواتین سے متعلق اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ یہ خواتین جو لگ بھگ دو مہینوں سے اپنے گھروں کے چین و سکون کو قربان کرکے اپنے بعض ارکان خاندان کی ناراضگی کے باوجود ایک عظیم مقصد کے لئے چٹان کی طرح ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ صرف نعرے نہیں لگارہی ہیں‘ بلکہ انہوں نے اپنی آنکھیں کھلی رکھی ہیں اور مسلسل تھکن‘ آنے والے حالات کے اندیشوں کے باوجود اپنے دماغوں کو روشن رکھا ہے۔ شاہین باغ دہلی کی خواتین کی چوکسی نے سنگھی پریوار کی گونجا کپور کی سازش کو بے نقاب کیا۔ اس سے پہلے لکھنؤ کے گھنٹہ گھر کے پاس بھی احتجاج دھرنے میں شامل ہونے والی اس سنگھی پریوار کی مہیلا کو اِسی طرح پکڑا گیا تھا۔ فرض شناس میڈیا نے شاہین باغ کی باعزت خواتین کو سلام کیا جس نے اپنے دشمن کی حفاظت کی اور اُسے پوری سلامتی کے ساتھ پولیس کے حوالے کیا۔ وہی پولیس جس نے جامعہ کے طلبہ پر گولی چلانے والے گوپال کے ساتھ شفقت آمیز سلوک کیا۔ جو شاہین باغ کے پاس فائرنگ کرنے والے کپل گوجر کو بھی پوری محبت کے ساتھ لے گئے اور پھر اس کا رشتہ عام آدمی پارٹی سے جوڑ دیا۔ جبکہ کپل کے باپ نے علی الاعلان یہ کہہ دیا ہے کہ عام آدمی پارٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کا بیٹا مودی کا بھکت ہے۔ دہلی پولیس کی جانب داری اور عام آدمی پارٹی کیساتھ ان کا امتیازی سلوک کا پردہ بھی فاش ہوگیا جب الیکشن کمیشن نے یہاں کے ڈی سی پی کو الیکشن ڈیوٹی سے ہٹادیا۔ویسے بھی دہلی پولیس جامعہ ملیہ واقعہ اور شاہین باغ کے معاملہ میں اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ خاکی وردے پر لگے داغ مٹنے کے لئے ایک طویل عرصہ لگ جائے گا۔ جہاں تک شاہین باغ میں برقع پہن کر جانے والی گونجا کپور کی جگہ اگر کوئی مسلم خاتون آر ایس ایس کی ریالی یا بی جے پی کی کسی خفیہ میٹنگ میں نظر آتی تو اُسے کسی دشمن ملک سے جوڑ دیا جاتا۔ گونجا کپور کو تو جو ایک یوٹیوب چیانل چلاتی ہے‘ جو اپنے چہرے سے ہی عیار اور مکار نظر آتی ہے۔ آزاد کردیا گیا اور یہ احسان فراموش جسے صحیح سلامت شاہین باغ کی خواتین نے وہاں سے جانے دیا۔ ایک بار پھر گمراہ کن پروپگنڈہ میں مصروف ہوگئی ہے جس سے ان کے ذہن فکر اور اخلاق اور اقدار اور آنے والے دنوں میں ان کے عزائم کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات طئے ہے کہ موجودہ حالات ہمیں مستقبل کے اندیشوں سے خوفزدہ کررہے ہیں۔ اس لئے کہ جمہوریت کے چاروں ستون ہمارے خلاف کام کررہے ہیں۔ جہاں ہمارے مخالفین کی حکومت ہے وہاں بھی وہی حال ہے‘ اور جہاں ہمارے نام نہاد دوستوں کاراج ہے وہاں بھی کم از کم پولیس اور انصاف کے اداروں کا رویہ جانبدارانہ ہے۔ اس لئے یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کھلا دشمن زیادہ خطرناک ہے یا سیکولرزم کے لبادے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہماری تاریخ کے اوراق ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں اور ساتھ ہی ہمت بندھاتے ہیں کہ ہر دور میں ہر قوم ہماری دشمن رہی۔ حالات ہمیشہ آزمائشی رہیں۔ نشیب و فراز آتے رہے‘ کئی بار ہم بلندی پر پہنچے مگر وہاں ڈٹے رہنے کی کوشش نہیں کی۔ جب اللہ رب العزت نے ہمیں تمام نعمتوں سے سرفراز کیا تو ہم نے اس کاشکر ادا کرنے کے بجائے فخر کیا۔ اس کے دین کو پھیلانے کے بجائے ہم نے اپنے مفادات کے لئے دوسروں کے دین کو اختیار کیا۔ اپنے اقتدار کے لئے ہر قسم کے سمجھوتے کئے۔ جس کردار اور اخلاق کی بدولت ہمیں اقتدار ملا تھا اُس اخلاق اور کردار کا دامن ہم نے چھوڑا اور جنہوں نے اُسے تھاما انہیں اقتدار بھی مل گئی۔ ہم بلند و بالا عمارتیں بناتے رہے‘ اپنی حرم سرائوں کو آباد کرتے رہے‘ اِن عمارتوں پر ایک ہم ہی کیا‘ سبھی فخر کرتے ہیں مگر جن کے ساتھ ہم نے رشتے بنائے تھے آج وہ ترشول کے امیتابھ کی طرح باغی بن کر ہم ہی سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ جو حالات آج کے ہیں‘ وہ اس لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں مختلف ہیں کہ پہلے ہماری نسل کشی بھی کی جاتی رہی اور ہمیںمعاشی طور پر کمزور کرنے کیلئے ہماری دکانوں، مکانوں اور اداروں کو تہس نہس کیاجاتارہا۔ ملازمتوں سے محروم کیا گیا۔ اس کے باوجود ہم دوبارہ اپنے پیروں پر آپ کھڑے ہونے میں کامیاب رہے۔اس مرتبہ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی جائے۔شاید وہ کامیاب بھی ہوجاتے مگر اس مرتبہ قوم خواب غفلت سے بیدار ہوئی ہے۔ اس نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ اسے جینابھی یہیں ہے اور پیوند خاک بھی یہیں پر ہونا ہے۔ اس جذبہ کی بیداری نے انسانی خوف کو دلوں سے نکال دیا ہے اور اس کی جگہ خوفِ نے خدا لے لی ہے۔ اور جب خوف خدا پیدا ہوتا ہے اور انسانوں کا ڈر نکل جاتا ہے توہم ایک بار پھر ناقابل تسخیر بن جائیںگے۔انشاء اللہ اس کیلئے شاہین باغ کی خواتین کی طرح چوکسی اور قربانیوں کی ضرورت ہے۔ اِن خواتین کو ان کے شوہروں، بھائیوں اور بیٹوں کی مدد بھی ضروری ہے بلکہ ہر فرد کو دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ احتجاج کب تک جاری رہے گا‘ یہ کہانہیںجاسکتااس احتجاج کے دوران جو بیداری کی لہر پیدا ہوئی ہے‘ جو شعور جاگا ہے جینے اور مرمٹنے کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے اسے ہر حال میں زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ 2014 اور 2019ء کے الیکشن میں مسلم ووٹ بینک کا تصور ختم ہوچکا تھا۔ مسلمان اپنے آپ کو بے بس بے وزن محسوس کرنے لگے تھے مگر بھلا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کا کہ انہیں سیا ہ قوانین کو روشناس کراتے ہوئے ایک طرح سے مسلمانوں کو دوبارہ اہمیت دلانے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ گذشتہ دو مہینوں سے جو ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھ کر سب حیران و پریشان ہیں‘ کیوں کہ ہر ہندوستانی مسلمان کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ کہہ رہا ہوآج پھر جینے کی تمناہے‘ آج پھر مرنے کا ارادہ(یو این این)