شہریوں کے اصل مسائل اورامورپر تبادلہ خیال ہو،دانشوراور پالیسی سازطبقہ کا مظالبہ
یواین آئی
ممبئی؍ہندوستان جیسے عظیم ملک میں جوکہ ایشیائمیں ترقی اور کامرانی میں اپنا ایک علیحدہ مقام بناچکا ہے اور مستقبل میں ایک سُپرپاوربننے کی حیثیت رکھتا ہے ،فی الحال بدترین معاشی بحران سے دوچار ہے ،دراصل اقتدار کے لیے برسر اقتدار پارٹی تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔اس کا مقصدملک کو درپیش اصل مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے ۔اس کا اظہار ملک کے دانشوروں اور مفکرین نے آج یہاں ملک کی صورتحال پر منعقدہ مذاکرہ میں کیا۔انہوں نے جنوبی ممبئی کے حج ہاؤس میں منعقد کیے گئے اس جلوہ سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے منصوبہ بندی سے ملک میں سی اے اے – این آر سی کو نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جائے ۔ان ماہرین ، دانشوروں ، رائے عامہ سازوں اور اسکالرز نے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ اصل مسائل رپردہ چلے گئے ہیں ،یہ افسوس ناک پہلو بھی ہے کہ فرقہ پرستی بڑھ گئی ہے اور ذات پات کی غلطیاں واضح طور پر بھی عیاں ہیں ،جبکہ خواتین کے خلاف جرائم میں بھی اضافہ ہواہے اور امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے اور یہ سب اجان بوجھ کرکیا جارہا ہے ۔تاکہ اصل معاملات سے توجہ ہٹائی جائے ۔ مذکورہ اجلاس کا انعقاد میں دانشوروںاور مفکرین پر مشتمل پیٹراٹک انٹلیکچو ل آف انڈیا اور اردومرکز کے تعاون سے کیا گیا ،جس کا عنوان ہندوستان کو درپیش اصل مسائل اور معاملات اورباضمیر شہریوں کی ذمہ داری[؟]منتخب کیا گیا تھا۔اور ملک کو درپیش اصل مسائل پر اظہار خیال کرناتھا ۔ مذاکرہ میں ممتاز صحافی فائی ڈی سوزا،وائس چانسلر اور آئین کے ماہر فیضان مصطفی ماہر تعلیم فادرفریزرمسکرنہاس،معروف اسکالررام پنیانی اور مشہوراداکار اور ٹی وی اینکرسشانت سنگھ شرکت کی اور خطاب کیا۔ اس موقع پر کہا گیا کہ ہندوستان حالیہ تاریخ میں کثیر معاشرے کے لیے ایک مثال ہے ،یہ انسانی تہذیب کا گہوارہ رہا ہے اور روحانی افکار کا ہمشیہ رہنمائرہا ہے ۔ ہم سب نے ایک بار ایک منفرد آئین کو برقرار رکھنے کا عہدکیا تھا۔حالانکہ آزادی کے موقع پر برصغیر کے حالات کافی خستہ ہوگئے تھے ،لیکن ہندوستان نے اپنے آئین میں ایک منفرد آئین کو برقراررکھا اور قومی ہم آہنگی اور تنوع کوفوقیت دی گئی ۔ اس موقع پر مقررین نے اس بات کا اظہار کیا کہ معیشت، غربت ، کسانوں کی خودکشی، بے روزگاری ، امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ، بدعنوانی ، معاشرتی تدارک کی خرابی ، خواتین کی حفاظت ، تغذیہ ،بھکمری، تعلیم جیسے مسائل سیاسی بحث میں نہیں آتے ہیں ،جوکہ ایک تشویش ناک امر ہے ۔ اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے پروفیسر پنیانی نے کہا کہ جب بی جے پی ہمیں یہ بتارہی تھی کہ مسلم خواتین کا بنیادی مسئلہ طلاق ثلاثہ ہے اور اس کے خلاف ایک قانون بھی بنایا گیا۔، جبکہ آج مسلم خواتین کی زیرقیادت جاری تحریکوں نے واضح کردیا ہے کہ مسلم فرقہ کو تین طلاق معانی سے نہیں بلکہ دیگرکئی امورسے بہت زیادہ خطرہ ہے اور یہی ان کا بنیادی مسئلہ بھی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے مدنظر دوسرے تمام فرقے بلامذہب وملت جوکہ خط افلاس کے نیچے زندگی گزاررہے ہیں ، بے زمین شہری اوربے گھر لوگ بھی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ملک کی دوسری بڑی اکثریت کو اگر چند کاغذات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یعنی مسلمانوں کی شہریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے ، تو وہ بھی اس کاشکار ہونے کے عمل میں زیادہ پیچھے نہیں رہیں گے اور ان سے زیادہ حکومت کی اس مہم میں شکار بن جائیں گے ۔ اس حکومت کے ذریعہ سی اے اے – این آر سی لانے کا مقصد دیگر امور کو پیش پست ڈالنا ہے ۔ رام پنیانی کے مطابق مودی حکومت نے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کیا اور اسے پورا کرنے میں ناکامی سے شروع ہونے والی مودی حکومت کی پالیسیاں ، خطرناک عنصر کی حیثیت نظرآئی ہیں ،پہلے نوٹ بندی کی گئی اور پھراس کا ظالمانہ اثربھی نظرآیا جبکہ روزمرہ کی اشیا ئکی قیمتوں میں زبردست اضافہ ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو چھپانے کے لیے ایک سازش کے طورپر ارباب اقتدارکے ذریعہ تفرقہ ڈالنے کی سنگین پالیسی کو بنیادبنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ اس کی بنیاد پر یہ احتجاجی تحریکیں کھڑی ہوئی ہیں۔ پورے ہندوستان میں احتجاجی تحریک کا پھیلاو حالانکہ بے ساختہ ہے ، لیکن اسی طرح کا پیغام دینا قابل ذکر ہے