سرحدوں سے بٹے رشتے:بالکل پاس رہ کر بھی بے حد دور

0
0

تحریر: شازیہ چودھری
کلر راجوری


فون نمبر 9622080799
7889896079
بھارت اور پاکستان کے درمیان جتنی بھی جنگیں یا جھڑپیں ہوئی مسئلہ کشمیر کو لے کر ہوئیں لیکن 1971کی جنگ منفرد تھی کیونکہ اس میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں تھا ، بلکہ مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان کے درمیان سیاسی بحران کی وجہ ہوا تھا ، جس کی وجہ سے جنگ ہوئی تھی ۔
1971 کے مظالم کے بعد ، مشرقی پاکستان کے لگ بھگ ایک کروڑ بنگالیوں نے ہمسایہ ملک بھارت میں پناہ لی۔ بھارت نے بنگلہ دیش کی جاری تحریک آزادی میں مداخلت کی اور بنگلہ دیش کو مغربی پاکستان کے مظالم سے آزاد کروایا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین مکمل پیمانے پر دشمنی شروع ہو گئی۔ پاکستان نے پاکستان کے ساتھ ہندوستان کی مغربی سرحد کے ساتھ متعدد مقامات پر حملہ کیا ، لیکن بھارتی فوج نے کامیابی کے ساتھ فوری طور پر مغرب میں پاکستانی فوج کی حرکتوں کا منہ توڑ جواب دیا اور کچھ ابتدائی فوائد حاصل کیے ، جن میں پاکستان کی سرزمین کے کء علاقے جن میں پاکستانی کشمیر ، پاکستانی پنجاب اور سندھ کے کچھ علاقے شامل تھے۔ لیکن 1972 کے شملہ معاہدے میں بھارت نے پاکستان کو خیر سگالی کے اشارے کے طور پر اسکے کء علاقے تحفے کے طور پہ لوٹا دیے۔ لیکن کئی ایسے علاقے تھے جو شملہ معاہدے میں بھی واپس نہیں لوٹائے گی جن میں گلگت بلتستان کے کچھ پاکستانی گاؤں اور لداخ کے کچھ گاؤں جو 71 کی لڑائی سے پہلے پاکستان کا حصہ تھے اور لڑائی کے بعد بھارت کے قبضے میں آ گئے تھے یہاں کے کئی لوگ پاکستان چلے گئے تو کچھ ایک یہیں رک گئے اور پچھلی چار دہائیوں سے سرحد کے اس پار اپنے پاکستانی دوستوں سے ملنے کا انتظار کر رہے ہیں کئی گاؤں ویران پڑے ہیں جن میں لداخ کا چالونکا گاؤں بھی ہے یہ گاؤں بھی لڑائی سے پہلے پاکستان کا حصہ تھا اور لڑائی کے بعدبھارت کے حصے میں آگیا جب چالونکا گاؤں کے لوگ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے تو اس کے کچھ دن بعد ہی جنگ بندی کا اعلان ہو گیا گاؤں کے 76 پریوار وں میں سے صرف دو پریوار ہی واپس لوٹے باقی پاکستان میں ہی رہ گئے اب اس گاؤں میں صرف لوگوں کے اجاڑ بیاباں گھر باقی ہیں ۔
بالکل پاس رہ کر بھی بے حد دور یہ کہانی ہے ان پریواروں کی جنھیں 1971 کی بھارت پاکستان لڑائی نے دو سرحدوں کے بیچ میں بانٹ دیا۔ ان پریواروں کے بیچ صرف ایک پہاڑ کا فاصلہ ہے لیکن یہ فاصلہ اتنا بڑا ہے کہ 50 سال ہونے کو آئے ہیں لیکن تب کے یہ بچھڑے ہوئے پریوار اب تک نہیں مل پائے ہیں ۔71 کی یہ جنگ صرف 13 دنوں تک چلی لیکن ان تیرہ دنوں کی جنگ کے نتیجے میں کئی لوگ اپنوں سے بچھڑ گئے اس لڑائی کے دوران گلگت بلتستان کے کچھ پاکستانی گاؤں بھارت کے حصے میں آ گے تو کچھ پاکستانی حصے میں ہی رہ گئے۔ ان گاؤں کے ڈھائی سو پریوار اپنوں سے بچھڑ گئے ۔دونوں ملکوں کے درمیان اس جنگ نے ان سے ان کے گاؤں ہی نہیں چھینے بلکہ ان کا ہر رشتہ جدا کر دیا۔ 1971 کی اس جنگ نے ان پہاڑوں کے درمیان دوبارہ سرحد کھینچی تھی اور سرحد کی اس دیوار نے کئی لوگوں سے ان کے اپنے چھین لئے کئی لوگ ملنے کی آس لئے اس دنیا سے چلے گئے کئی لوگوں نے اپنوں سے ملنے کے لئے کئی بار ویزے اپلائی کئے اور ہر بار ظالم سیاست نے مسترد کر دئیے اور کئی بہنیں پہاڑ کے اس پار دریا کے کنارے بیٹھ کے اپنوں کو نہارتے نہارتے مالک حقیقی سے جا ملیں لیکن سرحد کو لانگ کر اپنے بچھڑے بھائیوں سے نہ مل پائیں بیویاں اپنے شوہروں سے ملنے کے لئے تڑپتی رہیں لیکن مر کر بھی سرحد کو نہ ختم کر سکیں کئی بیچاری بیویاں اپنے شوہروں سے ملنے کی آس میں غرق آب ہو گئیں اور لہروں کے دوش پہ بہہ کر اتفاقاً اپنے شوہروں سے جا ملیں اور آخری آرام گاہ ان کے پاس حاصل کر لی لیکن جیتے جی سرحد نہ لانگ سکیں کئی بھائی کچھ میلوں کی دوری پہ اپنے بھائی بہنوں سے ملنے کی امید دامن میں لئے جی رہے ہیں لیکن پچھلی چار دہائیوں سے سرحد کو لانگنے کی امید نہیں چھوڑ پا رہے آخر ان کے اپنے تو محض ایک آواز کی دوری پر ہی تو ہیں اب وقت کا تقاضہ ہے کہ میلوں کا یہ فاصلہ جو یہ بچھڑے لوگ چار دہائیوں سے نہیں لانگ پائے وہ فاصلہ کبھی ان کے لئے مٹ پائیگا؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا