غلام نبی کمار
7053562468
اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں میں کئی اہم معتبر رسالے شائع ہوئے ہیں جن میں کچھ بڑی پابندی کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ رسالوں کے موضوعات اور ان میں شامل تحریریں ہی ان کا معیار متعین کرتی ہیں۔ ادبی دنیا میں یک موضوعی رسائل و جرائد بھی شائع ہوتے ہیں۔ ہمیں انھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بعض رسالوں کی پہچان ان کی خصوصی اشاعتیں بن گئی ہیں اور ان سے بھی ادب کی سمت و رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہت سارے اہم و رسائل و جرائد تسلسل کے ساتھ شائع نہیں ہو پاتے،جس کی کئی وجہیں ہیں۔ میںیہاں تفصیل میں نہیں جانا چاہوں گا۔ حالیہ دنوں میں جدید ذہن کی نمائندگی کرنے والے کئی اہم رسائل کے مدیران کی بے وقت موت سے بھی ادبی صحافت کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔ ایسے چند رسائل میں ذہن جدید، عالمگیر ادب، رنگ، افق ادب وغیرہ شامل ہیںجن کے مدیران ادب کے خدمت گزاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن گذشتہ چند برسوں سے ایسے رسائل بھی شائع ہونے لگے ہیں جو ادبی صحافت، اس کی تہذیبی قدروں اور روایت کی پاسداری میں پیش پیش ہیں۔ جن میں ”ادب سلسلہ”, ” شاعر”, ”پنج آب”, ”دربھنگہ ٹائمز”، ” نگینہ ”،لفظ لفظ” ”سب رس” ادبی نشیمن”, ”جہان اردو”، ” انتساب”، ”تمثیل نو”، ” کوہسار” ”عالمی میراث” وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ موجودہ دور میں جہاں ادبی صحافت کو سخت مالی دشواریوں کا سامنا ہے وہیں اس کے باوجود ان رسائل کے مدیران کی کوششیں اور کاوشیں قابل صد تحسین ہیں جو اپنے عزائم اور ہمت و حوصلے کو کسی بھی اعتبار سے پست نہیں ہونے دیتے۔ سہ ماہی’’ادب سلسلہ‘‘محمد سلیم علیگ کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ اس کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر تنویر فریدی ہیں۔ ادب سلسلہ کے اب تک 13 شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ جس میں سرسید احمد خان پر دو ضخیم شمارے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ افسانہ نمبر، خواتین نمبر، مزاحمتی ادب نمبر وغیرہ شمارے ’’ادب سلسلہ ‘‘کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔ مذکورہ خصوصی اشاعتوں کے سبب ادب سلسلہ ادبی صحافت کی دنیا میں اہم مقام بنا چکا ہے۔ ’’ادب سلسلہ‘‘ کے مدیر محمد سلیم علیگ ہر شمارے کے لیے ایک خصوصی موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ ابھی تک دیر سویر ہر شمارے کے لیے انھیں تحریریں موصول ہوتی رہیں، اس طرح وہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب و کامران ہوتے رہے۔ آپ سب جانتے ہیں کہ کسی خاص موضوع پر لکھنے کے لیے قلم کاروں کو آمادہ کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے، لکھی لکھائی تحریریں تو بہت مل جاتی ہیں، لیکن کسی خاص موضوع پر لکھوانا، وہ بھی تب جب قلم کاروں اور ادیبوں کو دیے گئے موضوع سے متعلق اپنے جذبات و احساسات اور مشاہدات و تجربات کا مظاہرہ بے باکی سے کرنا ہو۔ ’’ادب سلسلہ‘‘ کے زیر شمارے کے لیے قلم کاروں کو ’’موجودہ ادبی منظرنامہ معیار، محاسبہ، تنقید، تحقیق، فکشن اور شاعری کے حوالے سے‘‘سے متعلق مضامین لکھنے کی دعوت دی گئی تھی۔ یہ خاص شمارہ صدر شعبۂ اردو،بنارس ہندو یونی ورسٹی کے استاد اورموجودہ عہد کے معروف محقق اور ناقد پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کی ادارت میں شائع ہوا ہے۔ اس شمارے میں ”موجودہ ادبی منظرنامہ کے تحت آٹھ مضامین شائع کیے گئے ہیں جن میں ” معاصر ادب: اندیشے اور تقاضے ” از پروفیسر علی احمد فاطمی، ”اردو مشاعرہ روایت اور موجودہ صورت حال” از پروفیسر شہپر رسول, ”موجودہ ادبی منظرنامہ: معیار و محاسبہ”، ” ڈاکٹر سید احمد قادری، ”شہرت خانے کی قطار میں کھڑا نقاد”، ” ڈاکٹر ابو بکر عباد، ”مشاعروں کا منظرنامہ: درباب رقص شرر”، از سہیل انجم، ” معاصر ادب کی سچائیاں” از محمد بشیر مالیر کوٹلوی، ” اردو فکشن کتنا حقیقت کتنا فسانہ” از ڈاکٹر خالدہ ناز، ”کیرالا میں اردو زبان و ادب کی موجودہ صورت حال” از شمس الدین الدین قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح نیا قلم نئی روشنی کے تحت چھے مضامین شامل اشاعت ہیں۔ حصہ نثری فن پارے میں سلام بن رزاق، عارف نقوی، سیمین کرن، پروفیسر اسلم جمشیدپوری، رومانہ روی، مہوش نور کے افسانے شائع کیے گئے ہیں۔ جب کہ نثری تخلیقات میں پروفیسر شہناز نبی، صادقہ نواب سحر، اسلم حسن کی شعری تخلیقات کو جگہ ملی ہے۔ اس کے علاوہ نظمیں، غزلیں اور یاد رفتگاں کے تحت بھی تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔گوشہ یاد رفتگاں میں ”آہ عابد کر پانی: یعنی تم بھی” مشرف عالم ذوقی کا تحریر کردہ مضمون ہے جس میں انھوں مرحوم سے متعلق بہت ہی فکر انگیز مضمون تحریر کیا ہے۔ مزید برآں تبصرے کا گوشہ بھی بڑا جاندار ہے۔ جس میں مشرف عالم ذوقی کے تازہ ناول”مرگ انبوہ” پر شہناز شورہ کا تبصرہ شامل ہے۔ شہناز شورہ نے اس تبصرے میں ناول کے تمام پہلوؤں کو بڑی بے باکی بیان کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ یہ ناول نگار کی دور اندیشی تھی جو انھوں نے اس وقت ایسے موضوعات کو چھوا جب وہ ملک میں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے جب کہ ناول میں بیان کیے گئے حالات ملک کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ اس ناول کو عصر حاضر کے حالات کا آئینہ کہا جا سکتا ہے۔ اس شمارے کی ترتیب و تہذیب میں جگرکاوی کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس کے لیے مدیر محمد سلیم علیگ اور مہمان مدیر پروفیسر آفتاب احمد آفاقی کو مبارک بادی کے مستحق ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ”ادب سلسلہ” کا زیر نظر شمارہ قارئین کو بہت پسند آئے گا اور وہ اس دستاویزی شمارے کی ایک کاپی اپنے لیے ضرور محفوظ کرانا چاہیں گے۔