فلم میں کچھ بھی غلط نہیں : مدعا علیہان کی عدالت کو یقین دہانی
لازوال ڈیسک
سرینگر؍؍جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے معروف فلمساز ودھو ونود چوپڑا کی فلم ‘شکارا’ کی ریلیز روکنے کے لئے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی کو جمعہ کے روز خارج کردیا۔ عدالت نے یہ اقدام، مدعا علیہان کی یقین دہانی کہ فلم میں کچھ بھی غلط نہیں ہے اور اس کی ریلیز سے امن وامان کی صورتحال پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے، کے بعد اٹھایا۔ دریں اثنا کشمیری پنڈتوں کی سن 1990 میں وادی کشمیر سے ہجرت پر بنی فلم ‘شکارا’ جمعہ کو ملک بھر میں ریلیز ہوگئی اور ایک تخمینے کے مطابق فلم نے پہلے دن ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی کمائی کی۔ جمعہ کی صبح جب جسٹس علی محمد ماگرے اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل بینچ نے معاملہ کی سماعت شروع کی تو مدعا علیہان کی طرف سے متعدد وکلا حاضر ہوئے اور تحریری جوابات دائر کرنے کے علاوہ عدالت کو یقین دلایا کہ فلم ‘شکارا’ میں کچھ بھی غلط نہیں ہے اور اس کی ریلیز سے امن وامان کی صورتحال پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ تحریری و زبانی یقینی دہانی کے بعد بینچ نے عرضی کو خارج کردیا۔ مدعیان افتخار حسین مسگر (سابق نیشنل کانفرنس لیڈر)، ماجد حیدری (صحافی) اور عرفان حافظ لون (وکیل) کے وکیل شفقت نزیر نے یو این آئی اردو کو بتایا کہ بینچ نے مدعا علیہان کی یقین دہانی کے بعد عرضی کو خارج کیا تاہم ہمیں عدالت کے تحریری فیصلے کا انتظار ہے۔ انہوں نے کہا: ‘ ہم نے ہر ایک بات عدالت کے سامنے رکھی۔ ابھی تک تفصیلی حکم نامہ جاری نہیں ہوا ہے کیونکہ ایک جج صاحب کو کشمیر سے باہر جانا تھا۔ تفصیلی و تحریری حکم نامہ پیر کے روز تک سامنے آسکتا ہے’۔ عرضی گزار افتخار مسگر نے یو این آئی اردو کو بتایا: ‘مدعا علیہان کی طرف سے حاضر ہونے والے وکلا نے عدالت کو یقین دلایا کہ فلم سے کوئی امن وقانون کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ فلم کا ٹریلر دیکھنے کے بعد ہم نے عدالت سے رجوع کرنا اپنا فرض سمجھا تھا’۔ودھو ونود چوپڑا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ‘مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ عزت مآب کورٹ نے عرضی مسترد کی ہے۔ یہ نفرت پر محبت کی جیت کے متعلق فلم ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ شکارا ملک میں توڑو نہیں جوڑو کا پیغام پھیلائے گی’۔ مدعیان کا مفاد عامہ کی عرضی میں کہنا تھا کہ فلم ‘شکارا’ میں فرقہ وارانہ مواد شامل ہے اور اس میں کشمیری مسلمانوں کو انتہائی منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں ایسا بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پنڈتوں کی ہجرت کے لئے کشمیری مسلمان ذمہ دار ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری مسلمانوں اور سکھوں نے کشمیری پنڈتوں کو ہجرت کرنے سے روکنے کی حتی الامکان کوششیں کیں۔عرضی میں فلم پر فوری طور پر روک لگانے اور سنسر بورڈ کی طرف سے فلم سے کچھ ڈائیلاگ نکالے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مفاد عامہ کی عرضی میں فلم کے ٹریلر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا تھا: ‘فلم کے ٹریلر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فلم میں تعصب پر مبنی اور فرقہ وارانہ مواد شامل ہے’۔فلم شکارا کے ایک سین میں دکھایا گیا ہے کہ: ‘وادی میں صورتحال نازک بنی ہوئی ہے۔ 19 جنوری کی رات کو ہزاروں لوگ سڑک پر اتر آئے جن میں سے کچھ ملی ٹینٹس نے کئی کشمیری پنڈتوں کے گھروں کو آگ لگادی’۔جمعہ کو ریلیز ہوئی فلم ‘شکارا’ کشمیری پنڈتوں کی سن 1990 میں وادی کشمیر سے ہجرت پر مبنی ہے۔ فلم کا 2 منٹ اور 34 سیکنڈ پر محیط ٹریلر، جو 7 جنوری 2020 کو ریلیز کیا گیا، میں کہا گیا ہے کہ یہ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ہے۔ہائی کورت نے جمعرات کو معاملے کی اگلے سماعت 7 فروری کی صبح ساڑھے دس بجے مقرر کرتے ہوئے مدعا علیہان بشمول پروڈکشن ہائوس اور دیگر متعلقین کو جمعہ کی صبح تک ہی یہ جواب، کہ فلم کی ریلیز پر روک کیوں نہیں لگائی جائے، دائر کرنے کی ہدایات جاری کیں تھیں۔ ہائی کورٹ کی سری نگر ونگ نے بدھ کے روز تین کشمیر نشین سماجی کارکنوں کی طرف سے فلم ‘شکارا’ کی ریلیز روکنے کے لئے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی کو سماعت کے لئے منظور کیا تھا۔