یہ دفعہ کھوکھلی ہوچکی تھی، کشمیریوں کا اس کے ساتھ جذباتی رشتہ تھا
ہمارے ساتھی جیلوں میں ہیں، ہم باہر نکل کر سیاست کریں خود غرضی ہے: مظفر بیگ
یواین آئی
سرینگر؍؍پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے سینئر لیڈر اور سابق نائب وزیر اعلیٰ مظفر حسین بیگ نے کہا کہ آئین ہند کی دفعہ 370 کھوکھلی تھی اور آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو نے سن 1962 میں بھارتی پارلیمان میں کہا کہ جموں وکشمیر کو خصوصی حیثیت عطا کرنے والی اس دفعہ میں تخفیف کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہلیان جموں وکشمیر بالخصوص کشمیریوں کا دفعہ 370 کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی نوکریوں اور زمین کو تحفظ اس دفعہ کے تحت نہیں بلکہ دفعہ 35 اے کے تحت حاصل تھا۔مظفر حسین بیگ، جنہیں امسال یوم جمہوریہ کے موقع پر ملک کے تیسرے بڑے سویلین ایوارڈ ‘پدم بھوشن’ سے سرفرار کیا گیا، نے یہ باتیں یو این آئی اردو کو ایک انٹرویو میں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کی تنسیخ اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے معاملے پر سپریم کورٹ کا فیصلہ مرکزی حکومت کے حق میں آتا ہے تو جموں وکشمیر کے لوگوں کے درمیان دو چیزیں مانگنے پر اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ اول جو حقوق دفعہ 35 اے کے تحت حاصل تھے وہ دفعہ 371 کے تحت فراہم کئے جائیں اور دوم جموں وکشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیا جائے۔ مظفر حسین بیگ، جو گزشتہ ایک ماہ سے کافی سرگرم نظر آرہے ہیں، نے جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کو تمام سیاسی لیڈران کی رہائی سے مشروط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ خود غرضی ہوگی کہ ہمارے ساتھی جیلوں میں بند ہیں اور ہم باہر نکل کر سیاست کریں۔انہوں نے سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری کی سرگرمیوں پر راست تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر سیاسی لیڈران کی نظر بندی کے بیچ دو تین لوگوں کا اٹھ کر کبھی گورنر سے ملاقات کرنا تو کبھی کسی اور سے ملنا عجیب لگتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ مرکزی سرکار سے جو کام کرانے ہوں ان کے لئے ڈیلی گیشنز بننے چاہیے۔مظفر بیگ نے دفعہ 370 پر اپنے حالیہ بیانات پر ڈٹے رہتے ہوئے کہا: ‘یہ حقیقت ہے کہ دفعہ 370 کھوکھلی تھی۔ جموں وکشمیر کے لوگوں کو جھوٹ بولا گیا ہے۔ 1962 میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے پارلیمنٹ میں کہا کہ دفعہ 370 میں تخفیف کی گئی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کی دفعہ 370 کے ساتھ وابستگی نہیں تھی’۔ انہوں نے کہا: ‘دفعہ 370 ایک علامت تھی۔ اصلی حقوق دفعہ 35 اے میں تھے۔ دفعہ 370 کے ساتھ ایک جذباتی رشتہ تھا۔ بالخصوص یہ رشتہ کشمیر کے لوگوں کا تھا۔ لیکن اصل چیز دفعہ 35 اے میں تھی۔ جب میں وزیر تھا تو میں نے اسمبلی میں کہا تھا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو دفعہ 35 اے کے تحت حاصل حقوق محفوظ رہنے چاہیے’۔مظفر حسین بیگ نے نوکریوں و زمین کا تحفظ اور ریاست کا درجہ واپس حاصل کرنے کا لائحہ عمل بتاتے ہوئے کہا: ‘فی الوقت جموں وکشمیر کا کیس سپریم کورٹ میں ہے۔ اگر سپریم کورٹ سے فیصلہ آتا ہے کہ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی تنسیخ اور جموں وکشمیر کو ریاست سے یونین ٹریٹری میں تبدیل کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے صحیح ہیں تو ایسی صورت میں یہاں کے لوگوں کے درمیان دو چیزیں مانگنے پر اتفاق رائے ہونا چاہیے’۔ انہوں نے کہا: ‘اول جموں وکشمیر کو جو حقوق دفعہ 35 اے کے تحت حاصل تھے وہ دفعہ 371 کے تحت فراہم کئے جائیں۔ جس طرح شمالی مشرقی ریاستوں کو فراہم ہیں۔ آئی اے ایس اور آئی پی ایس کی الگ بات ہے لیکن جو یہاں کی عام نوکریاں وہ یہاں کے لوگوں کو ہی ملنی چاہیں۔ دوم جموں وکشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیا جائے’۔بیگ نے کہا کہ جموں وکشمیر میں مستقل نوکریوں کے لئے نوٹیفکیشنز جاری ہونے کا سلسلہ اس لئے بند ہے کیونکہ مرکزی حکومت ظاہری طور پر یہ نوکریاں یہاں کے لوگوں کے لئے ہی مخصوص رکھنے پر غور کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا: ‘جموں وکشمیر کو ایک یونین ٹریٹری بنایا گیا ہے۔ ملازمت کے لئے کیرلا اور آسام والا بھی درخواست دے سکتا ہے۔ میرے خیال میں مرکزی حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی ہے اسی لئے یہاں مستقل نوکریوں کا بھرتی عمل بند پڑا ہے’۔ مظفر حسین بیگ نے جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کو تمام سیاسی لیڈران کی رہائی سے مشروط قرار دیتے ہوئے کہا: ‘میں نے پارٹی سرگرمیاں بند نہیں کی تھیں۔ البتہ جب میں ہسپتال میں تھا یا خانہ نظر تھا تو اس وقت میں پارٹی کے لئے کام نہیں کرپایا۔ میں لوگوں اور پارٹی کارکنوں سے ملتا ہوں لیکن پارٹی جلسوں یا تقریبات کا سلسلہ پانچ اگست سے بند ہی ہے’۔ یہ پوچھے جانے پر کہ جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیاں کب بحال ہوسکتی ہیں تو ان کا کہنا تھا: ‘کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ اس پر انحصار کرتا ہے کہ کب مرکزی حکومت اس کی اجازت دیتی ہے۔ ہمارے ساتھی ابھی جیلوں میں بند ہیں۔ میرا تین مہینوں سے مطالبہ ہے کہ سیاسی قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد ہی کوئی سیاسی سرگرمی دیکھنے کو مل سکتی ہے نہیں تو یہ خود غرضی ہوگی کہ ہمارے ساتھی جیلوں میں بند ہیں اور ہم باہر نکل کر سیاست کریں’۔ مظفر حسین بیگ نے سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری کی سرگرمیوں پر راست تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا: ‘کوئی کیا کرتا ہے میں اس پر تبصرہ نہیں کرتا۔ میری طرف سے کیا پہل ہوگی؟ پہلے تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے لوگوں کو چھوڑ دیا جائے تاکہ ہم مشورہ کرسکیں۔ چند لوگوں کے کہنے سے یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ تین سابق وزرائے اعلیٰ جیلوں میں بند ہیں۔ سابق وزرا، ممبران اسمبلی و کونسل بند ہیں۔ یہ عجیب لگتا ہے کہ دو تین لوگ اٹھ کر کبھی گورنر سے ملاقات کریں گے تو کبھی کسی اور سے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘مرکزی سرکار سے جو کام کرانے ہوں ان کے لئے ڈیلی گیشنز بننے چاہیے۔ اس میں تمام خطوں اور مذاہب کے لوگ شامل ہونے چاہیے۔ سب کی مشترکہ آواز ہونی چاہیے۔ بڑے مہذب اور ذمہ دار طریقے سے وہ لوگوں کے مطالبات پیش کرنے چاہیے’۔ بتادیں کہ مظفر حسین بیگ کو یوم جمہوریہ کے موقع پر امسال ملک کے تیسرے بڑے سولین ایوارڈ پدم بھوشن سے سر فراز کیا گیا۔ مرکزی سرکار کے ایک بیان کے مطابق مظفر حسین بیگ کو یہ ایوارڈ عوامی معاملات کے تئیں ان کی خدمات کے صلے میں دیا گیا ہے۔شمالی کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے 73 سالہ مظفر حسین بیگ سابق ریاست جموں کشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور سال 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں بارہمولہ پارلیمانی حلقے سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے تھے۔میدان سیاست میں قدم رکھنے سے قبل مظفر حسین بیگ نے عدالت عظمیٰ میں کئی برسوں تک وکالت کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔ ان کا شمار پی ڈی پی کے بانیوں میں کیا جاتا ہے۔موصوف لیڈر نے جموں میں پارٹی ہیڈکوارٹر پر یوم جمہوریہ کی تقریب کے موقع پر پرچم کشائی کی رسم انجام دی اور اپنے ساتھ آئین ہند کی ایک کاپی بھی لائے تھے۔ یاد رہے کہ پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مرکز کی طرف سے دفعہ370 اور دفعہ 35 اے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو جموں کشمیر میں کوئی ترنگا اٹھانے والا نہیں ہوگا۔مظفر بیگ کا بھارت کا تیسرا سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد کہنا تھا کہ جموں کشمیر میں رائے شماری کبھی بھی نہیں ہوسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا: ‘جموں کشمیر میں رائے شماری کبھی بھی نہیں ہوسکتی ہے، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جموں کشمیر کے لئے خود مختاری مانگ رہے ہیں جس کا صاف معنی یہ ہے کہ انہوں نے بھی جموں کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ تسلیم کیا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں کشمیر کو وہ سب کچھ دیا جائے جو اس کو آئین دیتا ہے’۔