چندوسی روڈ پر آباد ہمارا چھوٹا سا گائوں حضرت نگر ساٹھا اپنے آداب تہذیب ماحول اور معاشرت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ جہاں ہندو مسلمان سب آپس میں بڑی محبت سے رہتے تھے مسجد اور مندر میں کوئی فرق نہ تھا،ہولی،دسہرہ،محرم سب مل کر مناتے تھے۔محرم کی مجالس میں جہاں سید صاحبان امام باڑے میں بیٹھے ہیں وہیںپنڈت دین دیال،لالہ اوم پرکاش گپتا ،رام کرپال جاٹو اور ہری سنگھ گپت بیٹھے ہوئے تھے۔وہیں اﷲبخش بھشتی،ظفر محمد حجام اور عزیز ا فقیر ،اشفاق انصاری،حاجی رفیق سیفی بیٹھے ہوئے تھے نفرت کا کہیں دور دور پتہ نہ تھا ایسے شیرو شکر ماحول میں ہم نے آنکھ کھولی اور پرورش پائی غرض کہ پورا ہندوستان ہمارے چھوٹے سے گائوں میں سانس لیتا تھا اور الحمدﷲآج بھی گائوں کا یہ محبت بھرا ماحول برقرار ہے۔
ہمارے بچپن میں ہمارے پڑوس میں ایک بزرگ چچا سلامت رہا کرتے تھے وہ قوم کے میاںصاحب تھے مگر سنا ہے کہ میاں صاحب ہونے کے باوجود کبھی ان کے بزرگ اچھے زمیندار رہے تھے۔
چچا سلامت زیادہ تر والد،چچا،تایا کے ساتھ ہماری چوپال پر ہی بیٹھا کرتے تھے۔چچا سلامت کا یا تو مزاج ہی ایساہوگا یا شرفاء کی صحبت کا اثر تھا چچا سلامت بڑے ہی مہذب نستعلیق اور شریف النفس انسان تھے سفید کرتا پا جامہ سفید ٹوپی سفید ناگرہ جوتا سفید موزے کالی صدری پہنے بڑے ہی نفیس انسان معلوم ہوتے تھے کبھی کوئی داغ دھبہ ان کے کپڑوں پر کسی نے نہیں دیکھا ہوگا۔
چچا کی زمینداری ختم ہوئی تو زمانہ گزر گیا تھااب صرف ایک اوسط درجے کے کسان رہ گئے تھے مگر کسی غیر معیاری انسان کے یہاں کچھ کھانے پینے یااٹھنے بیٹھنے کے مطلق روادار نہ تھے اپنے برادری کے ماحول کا اثر ان پر تل بھر نہ پڑا تھا ہم بچے انہیں سلامت ابّاکہہ کر ہی سلام کرتے تھے وہ ہمیں دعائیںدیتے اور ہماری شرارتوں اور شیطانیوں پر خوش ہوتے مسکراتے تھے۔
سلامت ابا کے بہت سے بچے اور بچیاں تھیںوہ سب بھی سلامت ابا کی طرح مہذب بہ اخلاق اور با مروت تھے محلے پڑوس میں نہ کسی کو ان سے کوئی شکوہ شکایت تھی نہ پریشانی پورے گھر کا سیدھا سادا رہن سہن تھا یہی سادگی او ر شرافت ان کا ان کے اہل خانہ کا زیور تھی کسی نے ان کو کسی سے کبھی تلخ کلامی ،بدکلامی کرتے دیکھا ہی نہ تھا وقت یونہی خاموشی کے ساتھ بنا کسی آہٹ کے گزرتا جا رہاتھا ہم اور سلامت اباکے بچے دیکھتے دیکھتے بڑے ہوتے گئے جوان ہوتے گئے اور اپنی اپنی مصروفیتوںمیں گم ہو گئے اور کسی حد تک ایک دوسرے کے دلوں سے نہیں مگر نگاہوں سے دور ہوتے چلے گئے ہمارے ان کے درمیان کسی واردات دشمنی یا بیر کا کوئی سوال تھا ہی نہیں۔
ہم تعلیم حاصل کرنے اپنے گھر سے علی گڑھ چلے گئے وہاں سے ایم اے وغیرہ کرتے کراتے زمانہ لگ گیا گائوں جانا بس واجبی سارہا پھر ایم اے کرنے کے بعد آئی اے ایس میں کامیابی حاصل کرکے مختلف اضلاع میں ڈی ایم رہ کر اورمختلف ممالک میں ذمے دار عہدوں پر رہ کر رٹائرہوکر وطن واپس آگئے تو خیال آیا کہ پڑوس میں کوئی سلامت ابا بھی تو رہا کرتے تھے ان سے بھی ملاقات کرکے سلام کرکے دعائیں لی جائیں۔
والد صاحب سے پوچھا تو پتہ چلا کہ سلامت ابا نے تو بہت دنوں سے گھر سے نکلنا باہر لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا لوگوں سے ملنا جلنا ہی بند کردیا ہے آخر ایسا کیوں ہوا ؟جب ہم زیادہ سر پڑے تو والد صاحب نے بڑے افسوس ناک لہجے میں جو کہانی ہمیں سنائی اس پر افسوس بھی ہوا تعجب بھی اور تکلیف بھی۔
والد صاحب نے بتایا سلامت کے سب بچے بہت اچھی طرح گزارا کر رہے تھے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوش تھے سلامت کی چھوٹی لڑکی شاہدہ کی بیٹی کی شادی ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے میں ہوئی تھی بیٹی کا سسر دیکھنے بھالنے میں اچھا خوب صورت اور تندرست و توانا تھا بالکل جوان سا لگتا تھا شاہدہ جانے کن حالات میں کن جذبات کے تحت اسے دل دے بیٹھی اور ایک دن سب حیا شرم لوک لاج بھول کر شوہراور بچوں کو چھوڑ کر پورے کنبے کی عزت میں خاک ڈال کر بیٹی کے سسر کے ساتھ بھاگ گئی نہ اپنی ڈھلتی عمر کا لحاظ کیا نہ کسی رشتے کا پاس کیا نہ باپ بھائیوں کی عزت کا پاس۔
سلامت ابا کو پتہ چلا تو انہوں نے اور تو کچھ نہ کیا شاہدہ سے کہلا بھیجا کہ مجھے کبھی شکل نہ دکھائے بس تیرے لئے میں مر گیا اور میرے لئے تو مر گئی شریف آدمی اور کرتا بھی کیا بس یہی کر سکتا تھا یوں تو ایک عام سی بات تھی ایسے حادثے اکثر دنیا میں رونما ہوتے ہی رہتے ہیں مگر سلامت ابا کی زندگی میں ایک بھونچال آگیا ان کی تو دنیا ہی بدل گئی زندگی بے مقصد اور بے مزہ ہوگئی انہیں اپنے سارے صاف و شفاف سفید کرتے پا جامے بے حد گندے غلیظ نظر آنے لگے دامن پر ہر طرف داغ دھبے ہی نظر آنے لگے یہ لگتا تھا جیسے وہ پاگل ہو گئے ہوں۔
صاف دھلے کرتے پا جامے پہنتے تو بیٹوں بیٹیوں سے لڑتے کہتے یہ کرتا کس نے دھویاہے داغ دور سے نظر آرہے ہیں اور کپڑے نہ تبدیل کرتے وہی میلے کپڑے پہنے بیٹھے ہوتے سب پریشان کیا کریں کئی ڈاکٹروں کو دکھایا بھلایا مگر وہ یہی کہتے رہے دھبے صاف نہیں ہوئے میں نہیں پہنتا کپڑے۔
جبکہ کپڑوں پر دھبہ کہیں نام کو نہ ہوتا۔عجب احساس ذلت تھا جو انہیں پاگل کئے ہوئے تھااور ان کی جان لئے لیتا تھا ایک ان دیکھا خوف ان کاہر لمحہ احاطہ کئے رہتا ۔
ایک بار شاہدہ بہت ہمت جٹا کر میرے والد صاحب کے پاس آگئی اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگی چچاابا سے کہنا مجھے معاف کر دیں انہیں دیکھنے کو اور بھائی بہنوں سے ملنے کو بہت جی کر رہا ہے شاید آپ کا کہنا مان جائیں اور اجازت دے دیں۔
ابا نے کہا میں سلامت کا مزاج جانتا ہوں وہ ہر گز نہ مانے گا تم واپس جا سکتی ہو اور آئندہ کبھی ہمت بھی مت کرنا۔
سلامت ابا کو جب یہ بات پتہ چلی تو میرے والد کو بلا بھیجا اور کہا میر صاحب آپ نے بڑا اچھا کیا اس کتیا کی سفارش مجھ سے نہ کی ورنہ تم سے بھی تعلقات خراب ہوجاتے خیر اس کتیا کی شکل تو میں کیا دیکھتا۔
وقت گزرتا گیا سلامت ابا اندر ہی اندر گھلتے چلے گئے کھٹیا پکڑ لی مگر شاہدہ سے نہ کوئی تعلق رکھنا تھا نہ انہوں نے رکھا۔کئی بار اس نے مختلف لوگوں سے سفارش کرائی دبائو پڑوایا کہ اسے معاف کر دیں مگر سلامت ابا ٹس سے مس نہ ہوئے۔
میں ایک بار گھر آیا ہوا تھا اور بہت دن تک گھر پر رہا انہیں دنوں سنا کہ سلامت ابا کی حالت بہت نازک ہے آخری لمحات میں ہیں میں بھی انہیں دیکھنے چلا گیا بڑا خوش ہوئے مجھے دیکھ کر آنکھوں میں آنسو بھر لائے۔
اﷲجانے کیسے آنسو تھے محبت کے آنسوتھے یا اپنی زندگی کے انجام پر پچھتاوے کے آنسو تھے۔
ان کا بڑا بیٹا مولوی اشرف ان کے سرہانے بیٹھ کر سورۂ یاسین پڑھ رہا تھا کہ اچانک دوسرا بیٹا مسرور عالم گھر میں داخل ہوا اور بڑے گھبرائے لہجے میں بولا ابا شاہدہ آئی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ابا سے کہنا مجھے معاف کردیں بس ایک نظر ابا کو دیکھ لوں ابا اگر آپ اجازت دیں تو اسے گھر میں بلالوں۔
سلامت ابا نے کہا بیٹا ہم پر اس وقت بہت تکلیف ہے ہمیں مزید تکلیف مت دو میں اس کتیا سے مل نہیں سکتا وہ جاسکتی ہے گھر میں قدم نہ رکھے میرے۔
مگر پھر بھی شاہدہ بے غیرتی کے ساتھ گھر میں گھس گئی سلامت ابا کو سلام کیا انہوں نے حقارت سے منھ پھیر لیا شاہدہ نے انہیں مخاطب کرنا چاہا۔
پتہ نہیں سلامت ابا نے ارادتاً یا اتفاقاً جو لعاب دہن ان کے منھ میں جمع ہوگیا تھا اسے پوری طاقت کے ساتھ آخ تھو کی آواز کے ساتھ تھوکا سارا لعاب دہن شاہدہ کے منھ پر گیا اور سلامت ابا کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہوگئیں اور وہ بڑے اطمنان سے ابدی نیند سو گئے۔
ڈاکٹر کیفیؔ سنبھلی
نمبر دار ہائوس،نوریوں سرائے، سنبھل،اتر پردیش
موبائل:9837759663