قدیم اور عالمی شہرت یافتہ اجنتا گوفہ تک کا سفر

0
0

ذیشان الہی منیر تیمی

تاریخی، سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے مشہور و معروف اورنگ آباد کی سرزمیں پر موجود "اجنتا گوفہ” قدیم تاریخی اثاثہ ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی شہرت یافتہ بھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کی زیارت کرنے اور اس کی عجیب و غریب تصاویر، نقش و نگار اور پرنٹنگ کو دیکھنے کے لئے صرف ہند ہی نہیں بلکہ بیرون ہند کے شوقین سیاح تشریف لاتے ہیں اور یہاں آکر بھارت کی عظمت رفتہ کو دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں دبانے لگتے ہیں۔اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے دوسری صدی ق م قدیم بھارتی آرٹ کی یہ ایک بہترین شاہکار ہے- UNESCO کے مطابق ” اجنتا گوفہ "بدھ مت کی بہترین آرٹ ہے جس کو دو مرتبہ میں بنایا گیا پہلی مرتبہ کی تاریخ 2 ق م ہے جب کہ دوسری مرتبہ 400-650 CE ہے۔ جب یہ گوفہ بن کر تیار ہوگیا اس وقت سے لے مغل حکمراں "اکبر "کے زمانے تک دنیا کے کونے کونے سے مسافرین یہاں آتے رہیں لیکن ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ یہ گوفہ اتفاقی طور پر جنگل کی نذر ہوگیا اور سالوں تک لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رہا پھر ایک انگریز آفیسر JOHN SMITH نے شیر کا شکار کرتے ہوئے اس کو 1819ء میں دریافت کیا۔اس گوفہ کو -WORLD HERITAGE میں 1983ء میں شامل کیا گیا – اجنتا گوفہ کی اسی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے 26 جنوری کو مانو کالج اورنگ آباد کے طلبہ کی ایک ٹیم اس گوفہ کو دیکھنے کے لئے نکلی۔جس میں افرز ،خادم الاسلام ، امتیاز، عمران، شمشاد، مستحسن، عارف، عبد القادر، احمد اور کاتب سطور (ذیشان الہی منیر تیمی )شامل تھے۔ہم لوگ تقریبا 10 بجے صبح گاڑی سے تین گھنٹہ کا سفر کرکے اجنتا گوفہ پہنچے۔وہاں جاکر سب سے پہلے ہم لوگوں نے بریانی کھائی پھر بس پر سوار ہوکر گوفہ کے لئے نکلے تین چار منٹ کے بعد ہم لوگ وہاں پہنچ گئے اور ٹکٹ لے کر گوفہ کے اندر داخل ہوئے وہاں پر ہند اور بیرون ہند کے بہت سے سیاح موجود تھے۔یہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے گوفہ نمبر 1 سے 26 تک کا باغور مشاہدہ کیا وہاں کی نقش و نگار، پہاڑ کو بیچ سے تراشنے کا انداز، مجسمے اور پینٹنگ کو دیکھ کر ہم لوگ دنگ رہ گئے اور سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اتنا قدیم گوفہ بلا کسی سائنس و ٹکنالوجی کے کیسے بنا؟ معماروں نے کیسے اور کس چیز سے پہاڑ کو تراشا؟ کون سا ایسا پینٹ تھا جو اتنا سال گزرنے کے بعد بھی موجود ہے؟ ان تمام سوالات کے پیش نظر اس زمانے کی دماغ اور سوچ کو میں سلام کرتا ہوں۔ اس گوفہ کو دیکھتے اور گھومتے ہوئے تین گھنٹے گزر گئے لیکن ہم لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا کہ وقت کیسے گزر گیا پھر اس دن کی خوبصورت یادوں، نقش و نگار اور تصاویر کو اپنے ذہن و دماغ میں بساکر ہم لوگ لوٹ آئے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا