نریندرمودی، سب سے کمزور وزیر اعظم ؟
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
email:[email protected]
Ghaus Siwani ki Mehfil/Facebook
ملک کی معیشت جس بدتردور سے آج گزر رہی ہے،ماضی میں کبھی نہیں گزری۔یہاں تک کہ بھارت کی معیشت میں آئی سستی کے سبب دنیا کی اکانومی متاثر ہورہی ہے۔دوسری طرف حالیہ برسوں میں بھارت کی جمہوریت کمزور ہوئی ہے۔ جمہوریت کے عالمی انڈکس میں آج بھارت جس مقام پر ہے،پہلے اتنے نیچے کبھی نہیں رہا۔ مسئلہ کشمیر پر عالمی پلیٹ فارموں پر جس قدر ہمارا موقف آج کمزور پڑا ہے، پہلے کبھی نہیں رہا، یہاں تک کہ اب یوروپین یونین پارلیمنٹ میں بھی کشمیر اور شہریت قانون کا معاملہ پہنچ چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ معاملہ قرارداد سے بھی آگے جائے گا۔آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن(اوآئی سی ) نے بھی ان ایشوز پر اپریل میں مٹینگ طلب کی ہے۔ بھارت میں میڈیا کی آزادی کو بھی خطرہ لاحق ہے ،کیونکہ حق گوئی جرم بن چکی ہے اور بیشترمیڈیا گھرانوں کو منہ مانگی قیمت پر خرید لیا گیا ہے۔ جس قدر جرائم اور خاص طور پر ریپ کے واقعات ہمارے ملک میں آج ہورہے ہیں، پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ یہ تو خود وزارت داخلہ ہند کے ماتحت چلنے والے ادارے کرائم رکارڈ بیورو کے اعدادوشمار سے واضح ہے۔ کرپشن میں بھی اضافہ ہواہے اور عالمی انڈکس میں یہاں بھارت کو اونچا مقام ملا ہے۔ عوام سڑکوں پر ہیں، طلبہ کلاسیز کا بائیکاٹ کر کے تحریک کے راستے پر ہیں اور شہریت قانون واین آرسی کے سبب ملک کی عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے مگر وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے حواری کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے وہ کتنے کمزور وزیراعظم ہیں۔ ان کی بے بسی اور لاچاری دیدنی ہے۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کو کمزور وزیراعظم کہنے والوں کو آج خوداپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اتنے کمزور وزیراعظم تو اندرکمار گجرال اور چندرشیکھر بھی نہیں تھے اور ان کے عہد حکومت میں عالمی سطح پر بھارت کی ایسی سبکی نہیں ہوئی تھی۔ دوسری طرف قوت کا تنہا مرکز بھی وہ نہیں رہے۔ تمام بڑے فیصلے امت شاہ لے رہے ہیں جب کہ آرایس ایس کی مداخلت بھی ہرفیصلے میں رہتی ہے۔آج حکومت کی ریموٹ امت شاہ اور آرایس ایس کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اور مودی صرف شوبوائے بن کر رہ گئے ہیں۔
سرکار کے غلط فیصلوں سے شرمندگی
برطانوی جریدے ’دی کانومسٹ‘ کی رپورٹ میں متنازعہ شہریت قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’مودی حکومت کے اقدامات بھارت کے لیے سیاسی زہر ثابت ہوں گے، ان کے فیصلوں سے بھارت بھر میں خون خرابے کا خطرہ ہے۔‘ دوسری طرف عالمی میڈیا کے مطابق ’یورپی پارلیمان میں سوشلسٹ اور ڈیموکریٹ گروپ نے سی اے اے کو تفریق آمیز اور خطرناک طریقے سے تقسیم کرنے والا قانون بتاتے ہوئے اس کے خلاف ایک قرارد پیش کیا ہے ۔اس میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے سے دنیا میں سب سے بڑی بدامنی کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔ بل میں اس بات پر زور دیا گیاہے کہ ہندوستان میں یورپی یونین کے رکن ملکوں کے سیاسی نمائندے ہندوستانی حکام سے ملاقات میں ذات اور مذہب کی بنیاد پر اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تفریق آمیز رویّے کا معاملہ اٹھائیں۔‘
مذہب دیکھ کر تعاون
کسی بھوکے کو کھانا کھلانے سے پہلے آپ اس کا مذہب پوچھیں گے؟ کسی عورت کی عزت بچانے سے پہلے آپ اس کا دھرم جانیںگے اور پھر اس کی مدد کا فیصلہ کرینگے؟نہیں نا! مگر شہریت قانون میں یہی شق حکومت نے رکھا ہواہے کہ وہ پریشان حال غیرملکیوں کی مدد کریگی ان کا مذہب دیکھ کر۔ شہریت قانون کے بارے میں باربار کہا جارہا ہے کہ وہ تفریق آمیزہے کیونکہ اس میں شہریت دینے کی بنیاد مذہب کو بنایا گیاہے۔ آج کے دور میں ایسے قانون کو دنیا قبول نہیں کرسکتی اور یہی سبب ہے کہ اس قانون کے خلاف ملک وبیرون ملک میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔یوروپین یونین اور دوسرے بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر تو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ یہ قانون نہ صرف آئین ہند کی شق نمبر چودہ کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان پر عائد ذمہ داریوں اور عالمی معاہدوں کے بھی خلاف ہے۔
یہ کہاں آگئے ہم؟
اسی کے ساتھ کئی اہم سوال ملک کے مستقبل کو لے کر بھی اٹھ رہے ہیں۔مثلاً کیابھارت ،شدت پسندی کی راہ پر جارہاہے؟ کیا جس راہ پر چل کر پاکستان نے خود کو برباد کرلیا ،اب اسی راستے پر ہندوستان بھی چل پڑا ہے؟ کیا جو ’دوقومی نظریہ‘ تقسیم ملک کا سبب بنا،اب ہندوستان کی بھگواوادی سرکار ،اسی نظریے کو درست ثابت کرنے میں نہیںلگی ہوئی ہیں؟ کیا جس طرح پاکستان، اسلام کے نام پر دہشت گردی کا شکار ہوگیا، اسی طرف اب بھارت کو دھکیلنے کی کوشش نہیں ہورہی ہے؟ آج اس قسم کے سوالات اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ ہمارے ملک میں ہندتو کی سیاست کے سبب نہ صرف ہندوشدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ سماج سے رواداری کم ہوئی ہے اور اس کی جگہ تنگ نظری نے لی ہے۔ آج حالات ایسے ہیں گویا ہندوستان پر آئین وقانون نہیں بلکہ تنگ نظرلوگوں کے نظریات کا راج ہے جہاں لکھنے، بولنے اور کھانے پینے تک کی آزادی نہیں ہے۔ یہی سماجی تقسیم ملک کے بٹوارے کا سبب بنی تھی اور آج پھر اسی راستے پر ملک کو لے جانے کی کوشش چل رہی ہے۔ دوقومی نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان بنا تھا، وہ پاکستان میں دم توڑ چکا ہے مگر اب بھارت میں اسے بھگواوادیوں کی طرف سے زندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ بات بات میں ان کی طرف سے پاکستان کا نام لیا جاتا ہے اور ہزاروں سال سے بھارت میں رہ رہے لوگوں کو پاکستان چلے جانے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔آخر بھاجپائیوں کی زبان پر پاکستان کا نام بار بار کیوں آتا ہے؟ یہ ان کے پاکستان پریم کے سبب تو نہیں ہے؟ کیا ان کے دل کی بات بار بار زبان پر آجاتی ہے؟
دوقومی نظریہ کیا ہے
ہندووں کے لئے ایک ملک ہندوستان ہو اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ ملک ہو۔ اس نظریے کو’’دوقومی نظریہ‘‘ کہتے ہیں جسے سب سے پہلے ہندو مہاسبھا کی طرف سے پیش کیا گیا تھا ۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے بھی اسے اپنایا اور ملک میں نفرت انگیز پرچار کر کے مختلف طبقات میں دوریاں پیدا کیں۔دین دیال اپادھیائے نے ایک مضمون’’مسلم سمسیا‘‘ کے عنوان سے لکھا تھاجس میں انھوں نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ہندواور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اسی نظریے کو بعد میں مسلم لیگ نے اپنایا تھا۔ پاکستان کے قیام کی بنیاد میں ’’دو قومی نظریہ‘‘ کا اصول تھا۔ اس کے مطابق ہندو اور مسلمان دو الگ تھلگ قومیں ہیں جو ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔اسی اختلاف نے پاکستان کے مطالبے کوقوت دیا۔ دوقومی نظریے کو کس نے جنم دیا تھا، یہ اہم نہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ اس کو اُس وقت بھارتی معاشرے کے دو طبقوں کی طرف سے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘پالیسی کے تحت جم کر کھاد پانی دیا گیا۔ نتیجے کے طور پر ملک کی تقسیم عمل میں آئی اور موجودہ حکومت میں قانون کی بنیاد بھی مذہب بن گیا ہے جو ملک کی سلامتی اور اتحاد کے لئے ایک بڑا خطرہ ہے۔
آزادی کے بعدکے حالات
جب کسی خطے میں شدت پسندی بڑھتی ہے تو لازمی نتیجے کے طور پر سماجی تقسیم بھی ہوتی ہے۔آج ویسے ہی حالات پیدا کئے جارہے ہیں جیسے تقسیم وطن کے وقت تھے۔آزادی اور تقسیم کی شرائط کے مطابق لیڈران اس بات پر متفق تھے کہ تقسیم تو ہوگا پر آبادی کا ٹرانسفر نہیں کریں گے۔لیکن نفرت کا عفریت اب قابو سے باہر ہو کر اپنے حکمرانوں کی بات ماننے سے انکار کر چکا تھا۔ بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کے زیرسایہ عدم تحفظ اس قدر بڑھتا گیا کہ لوگوں کو انھیں سے جان بچا کر بھاگنا پڑا، جن کے ساتھ نسلوں سے رہتے آ رہے تھے۔ انسانی تاریخ میں آبادی کی سب سے بڑی منتقلی ہوئی اور منتقلی اپنی مرضی سے نہیں ہوئی تھی، بلکہ دم گھونٹنے والے فرقہ وارانہ ماحول کی وجہ سے ہوئی تھی۔ایسے میں کوئی دوقومی نظریہ کو مانتا ہو یا نہ مانتا ہو مگر کاغذ پر لکیر کھینچ کر بنائی گئی سرحد کے دوسری طرف جانا ان کی مجبوری تھی۔ انہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نظریاتی طور پر دو قومی نظریے کو اپنا لیا۔
تقسیم نہیں اتحاد
پاکستان بھلے بنا تھا دو قومی نظریے کی وجہ سے، لیکن ہندوستان کے لوگ نہ صرف اس اصول کو خارج کرتے رہے، بلکہ پرامن بقائے باہمی اور سرودھرم کے اصول کے ساتھ چلتے رہے۔ آگے چل کر تاریخ نے ثابت کر دیا کہ دوقومی نظریے کی جگہ کوڑے دان تھی، جب آزادی کے پچیس سالوں کے اندر اندر پاکستان خود دو حصوں میں بٹ گیا۔ وہیں سرودھرم کی پالیسی پر چلنے والا ہندوستان ایک قوم کے طور پر آج بھی برقرار ہے۔ ہندوستان کی اکھنڈتا ملک دشمنوں کو کھٹکتی رہی ہے اور اس کے اتحاد کے شیرازے کو بکھیرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر ناکام رہیں ۔ آج جس طرح سے سماج کو بانٹنے کی کوشش چل رہی ہے اور جس قسم کے قوانین بنائے جارہے ہیں وہ نہ صرف قابل مذمت ہیں بلکہ سماج کو بانٹنے والے بھی ہیں۔ ان سے ملک کو خطرہ ہے۔ ماضی میں بھی اس قسم کی طاقتیں سرگرم رہی ہیں مگر آج حالات اس لئے مختلف ہیں کہ نفرت کی سوداگری کو حکومت کا سائبان بھی حاصل ہے۔اس وقت بھارت میں بھی عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بونے کی کوشش چل رہی ہے مگر آج سینکروں قلمکار، آرٹسٹ،سائنٹسٹ،مورخ ،دانشور اور کروڑوں عوام اس کے خلاف میدان میں آرہے ہیں۔ یہ ملک کے لئے امید کا راستہ ہے اور یہ راستہ تقسیم کرنے والی قوتوں کو ناکام بناکر ملک کو مزید مضبوط بنائے گا۔بی جے پی کے سابق لیڈر اور صحافی ارون شوری نے چند سال قبل ایک پروگرام میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ کی موجودگی میں نریندر مودی کے تعلق سے کہا تھا کہ موجودہ وزیراعظم اب تک کے سب سے کمزور وزیر اعظم ہیں، اب عوام کو منموہن سنگھ کی کمی کھل رہی ہے۔ ارون شوری نے الزام لگایا تھاکہ’ مودی حکومت سے معیشت سنبھل نہیںرہی ہے اور وہ صرف اخبارات کی شہ سرخیوں کو مینج کر رہی ہے۔‘آج شوری کی بات کا مطلب زیادہ واضح ہوکر سامنے آنے لگا ہے جب ملک داخلی اور خارجی سطح پر کئی بڑے مسائل سے نبرد آزما ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ اگر نریندر مودی کمزور وزیراعظم نہ ہوتے تو آج اپنے زرخرید میڈیا کی مدد سے ہندو۔مسلمان نہ کھیل رہے ہوتے۔
"نوشتئہ دیوار پڑھنے کی کوشش کیجئے”
از الحاج داکٹر عبدالرؤف
ڈائرکٹر دانش گاہ اسلامیہ ہائی سکول، آسنسول
شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک صدی قبل فرمایا تھا
"عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں”
(تشریح) "جب ملت کے نوجوانوں میں عزائم بیدار ہو جائیں اور یہ نو جوان کسی تحریک ، کسی تنظیم کسی بلند و بالا مقصد کے لئے میدان عمل میں آجائیں تو وہ عقاب بن کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں گے”۔
بیسوی صدی کی عظیم شخصیت حضرت مو لانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک موقع پر اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ عصری علوم کے فیض یا فتہ طلبہ ہی قوم کی قیادت کریں گے ۔میں ملت کے نوجوانوںسے مایوس نہیں ہوں جو عصری علوم یو نیورسیٹوں اور کالجز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ملت کی قیادت کریں گے۔ مذکورہ بالا ان دو عظیم مفکروں کی دور اندیش نگاہوں نے بہت کچھ پہلے سے ہی سمجھ لیا تھا اور دیکھ لیا تھا۔
اس کا مظاہرہ آج مجھے نظر آرہا ہے ملک کی موجودہ قیادت نے اپنی عنانیت اور آئیڈیو لوجی کو برقرا ر رکھنے کے لئے مسلمانوں کے لئے ہر حر بہ استعمال کر رہی ہے۔ اپنی عدد ی طاقت کے زعم میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں وایوان بالا سے تین طلاق بل پاس کیا۔ جسے صدر مملکت کی منظوری کے بعد قانونی شکل اختیار ہوا۔ جسے ملک کے مسلمانوں نے آپسی چہ میگوئیوں کے بعد خاموشی اختیار کر لی۔ بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مسلمانان ملک خاموش رہے۔ لیکن مقننہ کا حالیہ فیصلہ CAAکے نفاذ NPRکا نفاظ NRCکی تشکیل نے مسلمانوں کے خاموش سمندر میں اُبال، ٹھاٹھیں مارتا ہوا موج بر پا کر دیا ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا قانون سے اس ملک میں ہمارے وجود کو ہی مٹا دینے کا خطرہ لاحق ہے۔ مزید بر آنکہ پارلیمنٹ میں جب وزیر داخلہ نے سینہ ٹھونک کر اعلان کیا تھا کہ آسام کے بعد پورے ملک میں NRCکا نفاذ ہو گا اور دیش کے ایک ایک انچ زمین سے گھس بیٹھئے کو نکال باہر کیا جائے گا۔ آسام کے NRC لسٹ میں جب 19لاکھ میں 14لاکھ غیر مسلمین کا نام آگیا تو انہوں نے غیر مسلمین کو ہندوستانی شہریت اور مسلمانوں کو در انداز ٹھہرانے کے لئے CAAکا بل 11؍ دسمبر 2019ء کو دونوں ایوانوں نے پاس کر دیا جسے راشٹر پتی کی دستخط سے قانون بھی بن گیا۔ اس کالے قانون کے نفاذ سے ہماری پیرانہ قیادت نے” ٹک ٹک دیدم، دم نہ گشیدم”، کے مصداق خاموشی اختیار کرلی جبکہ ناصحانہ قوم و ملت نے یہ اعلان کیا کہ پورے ملک کے مسلمان اپنے اپنے شہریت ہونے کے ثبوت کے کاغذات درست کریں۔
لیکن ہماری قوم کے جانباز و شاہین صفت جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ نے 12؍ دسمبر 2019ء کو یہ اعلان کر دیا کہ ملک میںNRC، CAA،NPRکا نفاذ نہیں ہوگا۔ ہم لوگ کسی طرح کا کاغذات حکومت کو نہیں دکھائیں گے۔ جواہر لال نہرو یو نیورسٹی کے طلبہ نے اور سارے ہندوستان کی یونیورسیٹوں کے طلبہ نے جامعہ ملیہ کے طلبہ کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا ہے۔ ان نوجوانوں کے ساتھ طالبات بھی اس کالے قانون میں پیش پیش ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آفریں ہے۔ جامعہ ملیہ کی بہادر طالبہ "لدیدہ”جس نے احتجاج میں پولس کے ڈنڈے کھائی ہیں ان کی خدادا ہمت ہے کہ اس احتجاج میں اپنی طالبہ بہنوں کے ساتھ ساتھ پیش پیش ہیں۔ اپنی کئی دوستوں کو پولیس کے ڈنڈے سے بچائی ہیں۔
یہ نوجوانان جو حکومت کے ظلم کو روکنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ان کی ہمت کی داد پوری قوم دیتی ہے۔ وہ قابل قدر ہے۔ ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری دستورکی حفاظت اور تکسیری سماج کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہیں۔
ہماری خواتین بھی قائدانہ رول ادا کرنے میں سر فہرست ہیں۔ جس کی مثال جامعہ ملیہ کی طلبہ لدیدہ اور شاہین باغ میں مستقل 45دنوں سے دھرنا میں بیٹھی ہوئی خواتین اور ان کے نقش قدم پر پورے شمال و جنوب میں خواتین کا احتجاج ہے۔ جو اس سخت سردی کے موسم میں ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری آئین کی حفاظت کے لئے تمام ہی مذاہب کے افراد و خواتین شریک ہیں بس ایک ہی آواز NRC،CAA،NPR، ہٹاؤ ہم اسے نہیں مانیں گے یہ دھرنا شب و روز جاری ہے۔بعض ریاستوں (لکھنو) میں ان خواتین کے کمبلوں کو پولیس نے چھین لیا بچوں کے بے بی فوڈ کو بھی چھین لیا۔ بنیادی ضروریات پبلک واش روم میں تالا لگا دیا۔
لیکن عزائم جوان ہیں، نوجوان خون کی رگوں میں گردش کر رہی ہے حب الوطنی سے اپنے جوش و جذبات میں وہ آہنی عزم رکھتی ہیں۔ادھر CAAکی حمایت میں 20؍ جنوری 2020ء کو لکھنو کی ایک ریلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے سابقہ تیور کو برقرار رکھتے ہوئے تقریر کی "میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں جسے مخالفت کرنا ہے کرے CAAواپس نہیں لیا جائے گا”۔۔۔۔۔ ملک کے نوجوانوں کو وزیر داخلہ کے بیان پر اس چالیس دن کے احتجاج پر آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔
اب جامعہ ملیہ کے نوجوان طلباء طالبات کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں بلا لحاظ مذہب و ملت ڈاکٹرز ، انجینئیرز، وکلا ، جرنلسٹ اعلیٰ عہدیداران خواتین غرضیکہ ملک کی 67فیصد آبادی کی نمائندگی کی شرکت ہو رہی ہے۔ حکومت کی غیر لچک دار پالیسی نے انگریزوں کی نو آبادیاتی نظام کی یاد تازہ کر دی ہے۔
ایک طرف مسلم نوجوانوں کا اور غیر مسلموں کی کثیر تعداد جس میں ہندو،سکھ، عیسائی سبھی شامل ہیں۔ میدان میں آگئے ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ لیکن عزائم جوان ہیں۔
دوسری طرف ظلم و ستم کا کوہ گراں ہے۔ ایک طرف ملک کا آئین بچانا ہے انصاف کا پرچم و عدالت ہے۔
دوسری جانب حکومت کی شان اور طاقت ہے نوجوان اور طلبہ خواتین، ملک کے انصاف پسند شہری اس وقت کے انتظار میں ہیں جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہے عقابی اور شاہین صفت نوجوان سڑکوں اور خاک پر نمازیں ادا کر رہے ہیں یقیناً اس ایمان کے ساتھ ‘بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی، جو منظر بھی ہے ناظر بھی ، وہ اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت کا انصاف کا اور سیکولرزم کا بول بالا ہو، اور ہندوستان کے ہر شہری بالخصوص مسلمانوں کو اس کالے قانون سے نجات ملے، صدیوں صدیوں سے مقیم سارے ملک کی سوندھی مٹی سے ہمیں جدا نہیں کیا جائیگا۔
اب رہ گئی بات ہمارے ناصحین قوم جو مسلمانوں کو بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنے اپنے کاغذات درست کرلیں۔
واحسر تا۔۔۔۔! ان ناصحین قوم و ملت سے یہ سوال ہے جب آپ حکومت کے سامنے سپر ڈال کر کاغذات بنانے کی تلقین فرمارہے ہیں تو مسلمانوں کے 25فیصد آبادی جو غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں ان کے پاس کوئی مکان نہیں کوئی دستاویزات نہیں مانا کہ پوش علاقہ میں رہنے والے 75فیصد مسلمان اپنے کاغذات درست کرلیں تو بقیہ 25فیصد مسلمانوں کو آپ حکومت کی حراستی کیمپ) (Detention Camp میں جانے کے لئے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔؟
آفرین ہے ان عقابوں ، شاہینوں اور جانباز جامع ملیہ کے نوجوانوں پر جنہوں نے پوری ملت سے ہمدردی کی بناپر سب سے پہلے NO NRC، NO CAA، NO NPR ہم کسی بھی صورت میں اپنے کاغذات حکومت کو نہیں دکھائیں گے۔؎
یہ تحریک جاری و ساری ہے اس تحریر کو قلمبند کرتے ہوئے آج 23؍ جنوری2020ء مشہور مجاہد آزادی نیتاجی شبھاش چندر بوس کی یو م پیدائش ہے۔
شو شل میڈیا پر نیتاجی کی آزاد ہند فوج کا قیام اور ملک کی آزادی کے جوانوں کو آزادی کا پیغام دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جسکا ایک ایک لفظ موتی ہے، انہوں نے آزاد ہند فوج کے قیام کے وقت ملک کے نوجوانوں سے خطاب کیا تھا۔”تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا” لیکن یہ نعرہ انگریزوں کے خلاف تھا۔ لاریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج یہ جذبہ نوجوانوں میں ملک کے چہار طرف موحزن نظر آرہا ہے۔
لہذا ۔۔ نوشتئہ دیوار پڑھنے کی کوشش کیجئے۔!
"نوشتئہ دیوار پڑھنے کی کوشش کیجئے”
از الحاج داکٹر عبدالرؤف
ڈائرکٹر دانش گاہ اسلامیہ ہائی سکول، آسنسول
شاعر مشرق علامہ اقبال نے ایک صدی قبل فرمایا تھا
"عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں”
(تشریح) "جب ملت کے نوجوانوں میں عزائم بیدار ہو جائیں اور یہ نو جوان کسی تحریک ، کسی تنظیم کسی بلند و بالا مقصد کے لئے میدان عمل میں آجائیں تو وہ عقاب بن کر آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں گے”۔
بیسوی صدی کی عظیم شخصیت حضرت مو لانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک موقع پر اپنی تقریر میں فرمایا تھا کہ عصری علوم کے فیض یا فتہ طلبہ ہی قوم کی قیادت کریں گے ۔میں ملت کے نوجوانوںسے مایوس نہیں ہوں جو عصری علوم یو نیورسیٹوں اور کالجز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یقیناً وہ ملت کی قیادت کریں گے۔ مذکورہ بالا ان دو عظیم مفکروں کی دور اندیش نگاہوں نے بہت کچھ پہلے سے ہی سمجھ لیا تھا اور دیکھ لیا تھا۔
اس کا مظاہرہ آج مجھے نظر آرہا ہے ملک کی موجودہ قیادت نے اپنی عنانیت اور آئیڈیو لوجی کو برقرا ر رکھنے کے لئے مسلمانوں کے لئے ہر حر بہ استعمال کر رہی ہے۔ اپنی عدد ی طاقت کے زعم میں پارلیمنٹ کے ایوان زیریں وایوان بالا سے تین طلاق بل پاس کیا۔ جسے صدر مملکت کی منظوری کے بعد قانونی شکل اختیار ہوا۔ جسے ملک کے مسلمانوں نے آپسی چہ میگوئیوں کے بعد خاموشی اختیار کر لی۔ بابری مسجد کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مسلمانان ملک خاموش رہے۔ لیکن مقننہ کا حالیہ فیصلہ CAAکے نفاذ NPRکا نفاظ NRCکی تشکیل نے مسلمانوں کے خاموش سمندر میں اُبال، ٹھاٹھیں مارتا ہوا موج بر پا کر دیا ہے۔ چونکہ مذکورہ بالا قانون سے اس ملک میں ہمارے وجود کو ہی مٹا دینے کا خطرہ لاحق ہے۔ مزید بر آنکہ پارلیمنٹ میں جب وزیر داخلہ نے سینہ ٹھونک کر اعلان کیا تھا کہ آسام کے بعد پورے ملک میں NRCکا نفاذ ہو گا اور دیش کے ایک ایک انچ زمین سے گھس بیٹھئے کو نکال باہر کیا جائے گا۔ آسام کے NRC لسٹ میں جب 19لاکھ میں 14لاکھ غیر مسلمین کا نام آگیا تو انہوں نے غیر مسلمین کو ہندوستانی شہریت اور مسلمانوں کو در انداز ٹھہرانے کے لئے CAAکا بل 11؍ دسمبر 2019ء کو دونوں ایوانوں نے پاس کر دیا جسے راشٹر پتی کی دستخط سے قانون بھی بن گیا۔ اس کالے قانون کے نفاذ سے ہماری پیرانہ قیادت نے” ٹک ٹک دیدم، دم نہ گشیدم”، کے مصداق خاموشی اختیار کرلی جبکہ ناصحانہ قوم و ملت نے یہ اعلان کیا کہ پورے ملک کے مسلمان اپنے اپنے شہریت ہونے کے ثبوت کے کاغذات درست کریں۔
لیکن ہماری قوم کے جانباز و شاہین صفت جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے طلبہ نے 12؍ دسمبر 2019ء کو یہ اعلان کر دیا کہ ملک میںNRC، CAA،NPRکا نفاذ نہیں ہوگا۔ ہم لوگ کسی طرح کا کاغذات حکومت کو نہیں دکھائیں گے۔ جواہر لال نہرو یو نیورسٹی کے طلبہ نے اور سارے ہندوستان کی یونیورسیٹوں کے طلبہ نے جامعہ ملیہ کے طلبہ کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی کیا ہے۔ ان نوجوانوں کے ساتھ طالبات بھی اس کالے قانون میں پیش پیش ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آفریں ہے۔ جامعہ ملیہ کی بہادر طالبہ "لدیدہ”جس نے احتجاج میں پولس کے ڈنڈے کھائی ہیں ان کی خدادا ہمت ہے کہ اس احتجاج میں اپنی طالبہ بہنوں کے ساتھ ساتھ پیش پیش ہیں۔ اپنی کئی دوستوں کو پولیس کے ڈنڈے سے بچائی ہیں۔
یہ نوجوانان جو حکومت کے ظلم کو روکنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں ان کی ہمت کی داد پوری قوم دیتی ہے۔ وہ قابل قدر ہے۔ ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری دستورکی حفاظت اور تکسیری سماج کی حفاظت کے لئے سینہ سپر ہیں۔
ہماری خواتین بھی قائدانہ رول ادا کرنے میں سر فہرست ہیں۔ جس کی مثال جامعہ ملیہ کی طلبہ لدیدہ اور شاہین باغ میں مستقل 45دنوں سے دھرنا میں بیٹھی ہوئی خواتین اور ان کے نقش قدم پر پورے شمال و جنوب میں خواتین کا احتجاج ہے۔ جو اس سخت سردی کے موسم میں ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری آئین کی حفاظت کے لئے تمام ہی مذاہب کے افراد و خواتین شریک ہیں بس ایک ہی آواز NRC،CAA،NPR، ہٹاؤ ہم اسے نہیں مانیں گے یہ دھرنا شب و روز جاری ہے۔بعض ریاستوں (لکھنو) میں ان خواتین کے کمبلوں کو پولیس نے چھین لیا بچوں کے بے بی فوڈ کو بھی چھین لیا۔ بنیادی ضروریات پبلک واش روم میں تالا لگا دیا۔
لیکن عزائم جوان ہیں، نوجوان خون کی رگوں میں گردش کر رہی ہے حب الوطنی سے اپنے جوش و جذبات میں وہ آہنی عزم رکھتی ہیں۔ادھر CAAکی حمایت میں 20؍ جنوری 2020ء کو لکھنو کی ایک ریلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے سابقہ تیور کو برقرار رکھتے ہوئے تقریر کی "میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں جسے مخالفت کرنا ہے کرے CAAواپس نہیں لیا جائے گا”۔۔۔۔۔ ملک کے نوجوانوں کو وزیر داخلہ کے بیان پر اس چالیس دن کے احتجاج پر آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔
اب جامعہ ملیہ کے نوجوان طلباء طالبات کے ساتھ ساتھ سارے ملک میں بلا لحاظ مذہب و ملت ڈاکٹرز ، انجینئیرز، وکلا ، جرنلسٹ اعلیٰ عہدیداران خواتین غرضیکہ ملک کی 67فیصد آبادی کی نمائندگی کی شرکت ہو رہی ہے۔ حکومت کی غیر لچک دار پالیسی نے انگریزوں کی نو آبادیاتی نظام کی یاد تازہ کر دی ہے۔
ایک طرف مسلم نوجوانوں کا اور غیر مسلموں کی کثیر تعداد جس میں ہندو،سکھ، عیسائی سبھی شامل ہیں۔ میدان میں آگئے ہیں۔ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ لیکن عزائم جوان ہیں۔
دوسری طرف ظلم و ستم کا کوہ گراں ہے۔ ایک طرف ملک کا آئین بچانا ہے انصاف کا پرچم و عدالت ہے۔
دوسری جانب حکومت کی شان اور طاقت ہے نوجوان اور طلبہ خواتین، ملک کے انصاف پسند شہری اس وقت کے انتظار میں ہیں جب تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے۔
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہے عقابی اور شاہین صفت نوجوان سڑکوں اور خاک پر نمازیں ادا کر رہے ہیں یقیناً اس ایمان کے ساتھ ‘بس نام رہے گا اللہ کا جو غائب بھی ہے حاضر بھی، جو منظر بھی ہے ناظر بھی ، وہ اپنی قربانیاں پیش کر رہے ہیں تاکہ ملک میں جمہوریت کا انصاف کا اور سیکولرزم کا بول بالا ہو، اور ہندوستان کے ہر شہری بالخصوص مسلمانوں کو اس کالے قانون سے نجات ملے، صدیوں صدیوں سے مقیم سارے ملک کی سوندھی مٹی سے ہمیں جدا نہیں کیا جائیگا۔
اب رہ گئی بات ہمارے ناصحین قوم جو مسلمانوں کو بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنے اپنے کاغذات درست کرلیں۔
واحسر تا۔۔۔۔! ان ناصحین قوم و ملت سے یہ سوال ہے جب آپ حکومت کے سامنے سپر ڈال کر کاغذات بنانے کی تلقین فرمارہے ہیں تو مسلمانوں کے 25فیصد آبادی جو غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گذار رہے ہیں ان کے پاس کوئی مکان نہیں کوئی دستاویزات نہیں مانا کہ پوش علاقہ میں رہنے والے 75فیصد مسلمان اپنے کاغذات درست کرلیں تو بقیہ 25فیصد مسلمانوں کو آپ حکومت کی حراستی کیمپ) (Detention Camp میں جانے کے لئے چھوڑ دیں گے۔۔۔۔۔؟
آفرین ہے ان عقابوں ، شاہینوں اور جانباز جامع ملیہ کے نوجوانوں پر جنہوں نے پوری ملت سے ہمدردی کی بناپر سب سے پہلے NO NRC، NO CAA، NO NPR ہم کسی بھی صورت میں اپنے کاغذات حکومت کو نہیں دکھائیں گے۔؎
یہ تحریک جاری و ساری ہے اس تحریر کو قلمبند کرتے ہوئے آج 23؍ جنوری2020ء مشہور مجاہد آزادی نیتاجی شبھاش چندر بوس کی یو م پیدائش ہے۔
شو شل میڈیا پر نیتاجی کی آزاد ہند فوج کا قیام اور ملک کی آزادی کے جوانوں کو آزادی کا پیغام دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے جسکا ایک ایک لفظ موتی ہے، انہوں نے آزاد ہند فوج کے قیام کے وقت ملک کے نوجوانوں سے خطاب کیا تھا۔”تم مجھے خون دو میں تمہیں آزادی دوں گا” لیکن یہ نعرہ انگریزوں کے خلاف تھا۔ لاریب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج یہ جذبہ نوجوانوں میں ملک کے چہار طرف موحزن نظر آرہا ہے۔
لہذا ۔۔ نوشتئہ دیوار پڑھنے کی کوشش کیجئے