خواتین کیلئے زبانی ہمدردی نہیں عملی اقدام ضروری

0
0

عارف عزیز(بھوپال)
کسی امیر خاندان کی طرف سے اس کی بیٹی کی شادی پر کھل کر پیسہ خرچ کیا جانا اگرچہ اُس کا ذاتی معاملہ ہے اور کوئی بھی شخص اپنی حیثیت کے مطابق ایسا کر بھی سکتا ہے، لیکن یہی باتیں ایسی بھی ہیں جن کا دوسری بیٹیوں کی شادی پر منفی اثر پڑتا ہے اور ہمارا سماجی تانا بانا ایسی فالتو خرچ ہونے والی تقریبات کے چلتے بگڑنے لگتا ہے۔ کوئی خاندان اگر اتنی بڑی سطح پر اپنی بیٹی کی شادی نہیں کر پاتا تو وہ اندر ہی اندر گھٹتا رہتا ہے اور اگر اپنی حیثیت کے اندر اندر اس نے اپنی بیٹی کا ہاتھ کسی نوجوان کے ہاتھوں میں دے بھی دیا تو اس کی بیٹی جہیز نہ لانے یا کم لانے کا طعنہ ساری عمر اپنی ہساس اور نند سے سنتی رہتی ہے اور اگر کچھ لوگ اپنی بیٹی کو کم خرچ میں اس شادی کرکے رخصت نہیں کرنا چاہتے تو ایسی صورت میں انہیں اپنی زمین جائیداد بیچنا پڑتی ہے یا پھر قرض لے کر اپنی عزت بچانے کا دکھاوا کرنا پڑتا ہے۔ شادی بیاہ میں کھانے پینے پر ہونے والے لامحدود اخراجات کو روکنے کے لئے جمو کشمیر حکومت کی طرف سے کچھ سال پہلے یہ قانون بنایا گیا تھا کہ کسی بھی شادی میں صرف پانچ قسم کے کھانے ہی دئے جاسکتے ہیں۔ اس قانون کو ریاست میں سختی سے نافذ بھی کیا گیا۔ ایسے ہی قانون ہر ریاستی حکومت کی طرف سے بنائے جانے چاہئے تاکہ کھان-پان پر ہونے والے لامحدود خرچ کو کنٹرول کیا جاسکے۔
ملک میں جہیز مخالف قانون بھی موجود ہے۔ جہیز لینا اور دینا دونوںجرم ہیں۔ اس قانون کی پیروی کرتے ہوئے کہیں کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ دھڑلے سے نہ صرف بھاری بھرکم جہیز کا تبادلہ ہورہا ہے بلکہ جہیز سے متعلق سامان کے علاوہ بڑے پیمانے پر رقم بھی اپنی بیٹی کو عورت امیر والدین کی طرف سے دی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے ایسی کسی شادی میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کی خبریں تو کبھی نہیں سنائی دیتیں، جبکہ ایسی خبریں ضرور کبھی نہ کبھی سننے کو ملتی ہیں کہ دولہے کی بارات بیرنگ واپس لوٹا دی گئی۔ یا پھر لڑکی کی پہل پر ہی لالچی دولہے کے خلاف پولس میں شکایت درج کرائی گئی ہو، لیکن حکومت اور پولس کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے کہ وہ پورے ملک میں روزانہ ہونے والے شادی کی تقریبات پر نظر رکھ سکے اور اس بات کا یقین کرسکے کہ کہیں غیر قانونی طور پر جہیز یا نقد رقم کا لین دین تو نہیں ہورہا یا کہیں کھانے پر اندھا دھند خرچ تو نہیں کیا جارہا ہے۔
مجموعی طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خواتین کے تئیں سیاست دانوں کی طرف سے ہمدردی جتانا، خواتین کے ۳۳ فیصد ریزرویشن کے لئے ڈرامائی کوشش کرنا اور بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ جیسے منصوبوں کا مختلف ریاستی حکومتوں کی طرف سے نافذ کرنا ایک خاتون ووٹ بینک سے متعلق قدم دکھائی دیتا ہے۔اس کے علاوہ بیٹی بچاؤ مہم بھی کچھ ایسی ہے۔جس سے لڑکیوں کا بھلا ہونا محال ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا