جمہوریت حالت نزع میں ہے !

0
0

تحریر : منصور قاسمی ، ریاض سعودی عرب

 

ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلاتا ہے ، یہاں کا آئین مذہب، رنگ ، نسل ،ذات پات ، میں تفریق نہیں کرتا ۔مندر میں سنکھ بجانے سے کوئی نہیں روکتا ، مسجد کے میناروں سے اللہ اکبر کی صدائیں آتی ہیں، کلیسا میں بائبل پڑھی جا تی ہے اور گرودوارے میں گروبانی گائی جاتی ہے، مولوی پنڈت سے ملتا ہے تو پرنام کرتا ہے اور پنڈت مولوی سے ملتا ہے تو چرن چھوتا ہے ؛اسی ہمہ رنگت و محبت کی وجہ سے ہندوستانی جمہوریت کا چرچا چہار دانگ عالم میںہے ا ور جب یوم جمہوریہ ۲۶؍جنوری آتا ہے تو اس احساس و فرحت سے کہ ہم ایک جمہوری ملک میں جی رہے ہیں ، ہر کسی کاسر فخر سے اونچا ہو جاتا ہے ۔ہندو ،مسلم ،سکھ ،عیسائی سب مل کر آئین کے نفاذ کا جشن مناتے ہیں ، یکجہتی اور آئینی تقاضوں کی تکمیل اور جمہوری قدروں کو استحکام بخشنے کا عہددہراتے ہیں ،جذبات سے لبریز ہاتھوں میںترنگا لئے آئین ہند زندہ باد ، ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور گاتے ہیں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ،،لیکن گزشتہ چھ سالوں میں بی جے پی ، بی جے پرست اور مودی سرکار نے جمہوریت کے معنی و مفہوم کوہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ کہا جاتا ہے: جمہوریت کے چار اہم ستون ہیں ،عدلیہ ، مقننہ ، انتظامیہ اور صحافت ،یہ چاروں ستونیں کسی ملک کی جمہوریت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہیں ،ان میں سے اگر ایک بھی گر جائے تو جمہوریت کی عمارت منہدم ہو جائے گی ، ٹیڑھا ہو جائے تو لقوہ زدہ ہو جائے گی ،بدقسمتی سے اس وقت ہندوستانی جمہوریت کے یہ چاروں ستون یا تو گر گئے ہیں یا لقوہ زدہ ہو گئے ہیں ۔عدلیہ جو جمہوریت کا سب سے اہم اور مضبوط ستون ہے، اس پر بھگوا پنجے گاڑ دیئے گئے ہیں ۔آپ کو یاد ہوگا سپریم کورٹ کے ہی چار فاضل ججوں نے مشترکہ کانفرنس کر کے عدالتی نظام پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا تھا :کورٹ میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہے اور یہ جمہوریت اور ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ،، ۔اس کے بعدتین طلاق کو کورٹ نے مجرمانہ فعل قرار دیتے ہوئے طالق پر تین سال قید بامشقت کی سزا کا اعلان کردیا جبکہ آئین ہند اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزدی دیتا ہے ؛چونکہ مودی کی چاہت یہی تھی سو عدلیہ نے پورا کیا ۔بابری مسجد اور رام جنم بھومی کا فیصلہ سناتے ہوئے کورٹ نے مانا کہ : کسی مسجد کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی تھی، مسجد کے اندر مورتیا ں رکھنا غیر قانونی تھا، مسجد کا انہدام جرم تھا،،اس کے باوجود فیصلہ رام مندر کے حق میں سنادیا ۔کیونکہ حکومت سے لے کرایک عام ہندو کی خواہش اور مطالبہ یہی تھا چنانچہ جج صاحبان نے شواہد وثبوت کو در کنار کر کے عقیدت کی بنیاد فیصلہ صادر فرمادیا ۔اب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سو سے زائدمقدمے ہوئے ، کورٹ جانتا ہے کہ یہ کالا قانون مذہب کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جو کہ غیر قانونی ہے ؛مگر کورٹ نے اس کو خارج کرنے کے بجائے چار ہفتے کی مہلت دے دی تاکہ موضوعہ قانون کے خلاف ہو رہے احتجاجات اور مظاہرے سرد پڑ جائیں یا ختم ہو جائیں اور تین طلاق و بابری مسجد کی طرح حکومت کے حق میں فیصلہ سنا دے۔ دفعہ ۱۴۔ ۱۵ میں مساوی حقوق کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلا تفریق رنگ ، نسل ، مذہب ،پیشہ اور شہریت کی بنیاد پر قانون کی نظر میںسبھی ہندوستانی شہری برابر ہیں ، قانون سبھی کو یکساں تحفظ فراہم کرتا ہے ، حکومت کے ذریعہ ، مذہب، خاندان ،،جنس ، جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی علاقے میں رہنے والے شہریوں کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں ہوگا مگر حکومت اور کورٹ خود بھید بھاؤکررہی ہیں ۔ مجھے یہ لکھتے ہوئے کوئی تردد نہیں ہو رہا ہے کہ عدلیہ نے اپنا وقار اور اعتماد مکمل طور پرکھو دیا ہے ۔ مقننہ :یعنی قانون ساز ادارے اور جماعتیں ۔۔ یہ ادارے اور جماعتیں وہی قانون بنا رہے ہیں جو حکومت چاہتی ہے؛ اگر حکومت کی نہیں مانی گئی تو ادارہ کی حیثیت اور جماعت کا وجود ختم ۔انتظامیہ: ا س وقت ہندوستانی انتظامیہ قانون کی پاسداری نہ کر کے حکومت کی غلامی کر رہا ہے ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، جے این یو میں دہلی پولیس کا مجرمانہ کردار عیاں ہے ، اے ایم یو ، لکھنؤ اور میرٹھ میں پولیس کی کھلم کھلا غنڈہ گردی دنیانے دیکھا، اس کے علاوہ سی بی آئی، ای ڈی اور دیگر ادارے بھی شاہوں کے اشارے پر رقصاں ہیں ،جو حکم آتا ہے افسران سر کے بل کھڑے ہو کر ادا کرتے ہیں ۔ صحافت :صحافت پوری طرح حکومت کے قبضے میں ہے ، رات دن حکومت کی ثناخوانی اور دلالی میں مصروف ہے ، اسی گھٹیا صحافت کی وجہ سے ٹاپ ۱۰۰ میںبھی انڈین صحافت نہیں ہے ، گو کہ مودی حکومت میں جمہوریت کے چارو ںستون ناکام ہو گئے ہیں ۔
جمہوریت کیا ہے ؟ابراہم لنکن کہتے ہیں:لوگوں کے لئے ، لوگوں کے ذریعے ، لوگوں کی حکومت کا نام جمہوریت ہے ،،۔اس کو آپ یوں سمجھ لیں ، لوگوں کی رائے اور فیصلے کا نام جمہوریت ہے ؛ مگر ہندوستانی جمہوریت میں لوگوں کی رائے کا کوئی احترام نہیں ہے ۔ سی اے اے جو کہ دفعہ ۱۴ کے متناقض ہے اور این آر سی کے خلاف پورے ملک میں احتجاجات اور مظاہرے ہو رہے ہیں ،مرد تو کجا، عورتیں بھی اپنے معصوم بچوں کو لے کرسرد شب میں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں مگر وزیر داخلہ امیت شاہ کہتے ہیں :ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، ، کہیں مظاہرین پر آنسو گیس چھوڑے جا رہے ہیں ، تو کہیں لا ٹھیاں برسائی جارہی ہیں ۔کبھی منمانا طریقے سے حکومت کی سرخ روئی کے لئے مجسٹریٹ دفعہ ۱۴۴ لگا دیتا ہے تو کبھی حکومت انٹرنیٹ بند کرنے اور مواصلاتی نظام کو معطل کرنے کا حکم جاری کر دیتی ہے ،پبلک ڈسکورس کا ڈھانچہ ایسا بنا دیا گیا کہ آپ بولئے مت ، سوچئے مت ، سوالات مت کیجئے ، آپ جمہوریت کی باتیں مت کیجئے ورنہ آپ غدار ٹھہرا دیئے جائیں گے،آزادی کے نعرے مت لگائیے ورنہ دیش دروہ کے مقدمے میں پھنسا دیئے جائیں گے۔ وہ کشمیر جو جنت نشاں تھا اس کو مودی اور شاہ نے اپنی تنگ نظری ، انتہاپسندی اور احمقانہ فیصلوں سے جہنم بنادیا ۔ سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے روح رواںاٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا : انسانیت ، کشمیریت اور جمہوریت کے اصولوں پر کشمیر کا مسئلہ حل کیا جائے ،، مگر آج کشمیر میں جمہوریت ،کشمیریت اور انسانیت تہ تیغ کر دی گئی ہے ، ۵ ؍اگست ۲۰۱۹ سے کشمیریوں کے حقوق سلب کر لئے گئے ہیں، انہیں بنیادی ضرورتوں سے محروم کردیا گیا ہے، سیاسی قائدین بھی اب تک مقید ہیں گو کہ پوراکشمیر ایک جیل خانہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ کشمیر کو دو یونین ٹیر یٹری میںمحض اس لئے بانٹ دیا گیا کہ پورے ہندوستان میں یہی مسلم اکثریت والا ایک صوبہ تھا ۔جب ملک میں آئین نفاذ کیا جا رہا تھا، اس وقت آئین کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے ہندوستان کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد نے کہا تھا : ملک کے فلاح و بہبود کی ذمہ داری ملک کے حکمراں پر ہے ،،مگر مودی حکومت فلاح و بہبود اور معیشت پر بات کرنے کے بجائے سی اے اے ، این آر سی ، این پی آر پر ملک کو الجھا رکھا ہے ، یہی وجہ ہے کہ دی اکانومسٹ انٹلیجنس یونٹ(ای آئی یو) کی رپورٹ جو ۱۶۵ ممالک کی جمہوریت پر مشتمل ہے، کہتی ہے’’ ہندوستانی ڈیمو کریسی ( جمہوریت کی سطح)۲۰۱۹ کی عالمی فہرست میں ۱۰ درجہ لڑھک کر ۵۱ ویں مقام پر آگئی ہے، اس کا اسکور ۹۔۶ رہا جو گزشتہ ۱۳ سالوں میں سب سے کم سطح ہے اور معیار میں کمی کی وجہ کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی، شہری آزادی اور شہریت ترمیمی قانون کا نفاذ ہے ،ڈیمو کریسی کی فہرست انتخابی عمل اور تنوع ، سماجی آزادی ، سیاسی ثقافت ، سیاسی شراکت اور حکومت کے طریقہ ء کار کی بنیاد پرتیار کی جاتی ہے ،یعنی ہندوستان کو ناقص جمہوری ملک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، مگر میرا ماننا ہے بلکہ دنیا مان رہی ہے کہ ہندوستان کی مودی حکومت تنگ نظر بھی ہے اور آمرانہ رویہ بھی اپنائے ہوئی ہے اس لئے ہندوستانی ڈیمو کریسی کو ۴ پوائنٹ سے بھی کم درجہ دیا جانا چاہئے۔
اب ہمیں جمہوریت پسند افراد بتائیں کہ حالت نزع میںجمہوریت کو دیکھ کر یوم جمہوریہ ۲۶ جنوری کو ہم جشن منائیں یا ماتم کریں ؟
[email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا