وہ جو کبھی حُسن و شباب کا پیکر تھا
آج مدتوں بعد دیکھا تو عجب منظر تھا
بچھڑ گیا میں شب کو تُجھ سے تیرتے تیرتے
بہت ہی گہرا میرے خواب کا سمندر تھا
کس لئے کرتا میں عزت ِنفس کا لحاظ
ساری بستی میں بے چراغ میرا گھر تھا
آج خوش ہوں آئی ہے قضا لینے مجھے
کسے معلوم میرا کانٹوں بھرا بستر تھا
ہوتا کیسے ملال اُسے دردوں کا خوشحال
وہ تو انساں نما شکل کا اک پتھر تھا
میر خوشحال احمد
دلدار کرناہ
رابط۔۔۔9622772188