حامد اکمل کی غزلوں میں صنعتوں کی تلاش

0
0

از:۔واجد اختر صدیقی(علاقائی صدر مسلم گورنمنٹ ایمپلائز اسوسی ایشن محکمہ تعلیمات عامہ ،گلبرگہ)

حامد اکمل نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صحافت میں گزارا اوراس میدان میں اپنی پہچان ایک حق نویس صحافی کی حیثیت سے بنائی۔ لیکن حامد اکمل ایک بہترین صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعر بھی ہیں ۔انہوں نے بہترین نظمیں اور غزلیں کہی ہیں ۔ حامد اکمل کے ہر دو میدان میں کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں صحافت اور شاعری میں جو بنیادی فرق ہے وہ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ حامد اکمل نے اپنی صحافت میںشاعرانہ مبالغہ آمیزی کواور شاعری میں صحافیانہ بیان بازی کو جگہ نہیں دی۔اور اسی بنیادی فرق نے ان کو ایک بہترین شاعر کے طور پر بھی پہچان دی اور ایک بہترین صحافی کے طور پر بھی ۔حامداکمل نے نظمیں بھی لکھی ہیں اور غزلیں بھی ،ان کے یہاں تقدیسی شاعری بھی بڑی خوبصورتی کے ساتھ موجود ہے۔ عمومی طور پر جو انکی شاعری کا موضوع ہے وہ اپنے اندر جھانکنا اور باہر کی کشمکش کو دیکھ کر کبھی خلجان کا شکار ہو نا تو کبھی کبھی سچائی تک کا انکار کردینا ان کے یہاں خوب پایا جاتا ہے ان کی شاعری میںجہاں ان کی عمر کا تجربہ موجود ہے وہیں ایک نوجوان کارومانس بھی ان کی شاعری میںموجود ہے۔ پھر نئے نئے تراکیب کا استعمال، استعارے، لفظیات اورمجازو کنایات کے استعمال نے ان کی شاعری کو اضافی خوبی عطا کی ہے ۔ ان کے یہاں فکری انجلاک اور لفظی اثقال کا گزر نہیں ۔بلکہ وہ اپنی فکر کو، اپنی سوچ کوبہت ہی سلیس اور سہل انداز میں پیش کرتے ہیں اور اس میں وہ کامیاب بھی نظر آتے ہیں مگر ان ساری خوبیوں کے باوجود ان کی شاعری میں لفظی اور معنوی خو بیاں بھی در آئی ہیں جس نے ان کی شاعری میں چار چاند لگا دیا ہے۔ ذیل میں ان کی غزل کے حوالے سے لفظی اور معنوی خوبیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کی شاعری کو بہترین فن عطاکرتا ہے۔صنعت تضاد:نظم ونثرمیں ایسے الفاظ لانا جو ایک دوسرے کی ضد یا مقابل ہوں۔ ستم سہی دلِ معصوم پر روا رکھنا جو ملنا چاہو ،بچھڑنے کاحوصلہ رکھنا اس شعر میں ’’ملنا‘‘ اور ’’بچھڑنا‘‘ کے درمیان تضاد ہے ۔تو میری آنکھ کا آنسو ،میں زخم دل کا ترے تو میرے درد میں زندہ ،میں تیری آہ میں ہوں اس شعر کے پہلے اور دوسرے دونوں مصرع میں ’’تو‘‘ اور ’’میں‘‘ کا استعما ل ہوا کہ دونوں ضمیر اسم ہیں اور آپس میں متضاد ہیں ۔ڈوب چکے اب آبادی کے جنگل میں شہر کے آگے پیچھے کچھ ویرانے تھے اس شعر میں بیک وقت دو دو متضاد الفاظ لائے گئے ہیں پہلا’’ آبادی‘‘ اور ’’ ویرانے ‘‘ کے مابین تضاد ہے اور دوسرا ’’ آگے ‘‘ پیچھے ‘‘ کے مابین تضاد پایا جاتا ہے ۔ایک حقیقت تجھ سے بچھڑ کے ملنا تھا رستہ بھر بس ترے ہی افسانے تھے اس شعر کے پہلے مصرع میں ’’ بچھڑ ‘‘ اور ’’ ملنا ‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے یہ دونوں آپس میں متضاد ہیں ۔ترک وفا کی مشق بھی کر دیکھی اکمل ؔاپنے اپنے ،بیگانے بیگانے تھے اس شعر میں ’’ اپنے ‘‘ اور ’’ بیگانے ‘‘ کے درمیان تضاد ہے ۔طے ہوا ہے یوں سرابوں کا سفر اک قدم تشنہ تھا اک سیراب تھا اس شعر میں مستعمل الفاظ’’ تشنہ‘‘ اور ’’سیراب‘‘ کے درمیان تضاد ہے ۔اس کا ماتم بے صدا شور سکوت وہ رگ جاں کے لیے مضراب تھا اس شعر کے پہلے مصرع میں ’’شور‘‘ اور ’’ سکوت ‘‘ کے درمیان تضاد ہے ۔سہمے سہمے جل تھے کچھ دئیے آندھیوں کا ذکر سن کر بجھ گئے اس شعر میں ’’جل‘‘ اور’’بجھ‘‘ کے درمیان تضاد ہے ۔صنعت تکرار: شعر یا مصرع میں کسی لفظ کو مکرر لانا ۔وصال وقرب کچھ وحشتیں بڑھاتے ہیںکبھی کبھی تو ضروری ہے فاصلہ رکھنااس شعر کے دوسرے مصرع میں ’’کبھی‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔بہار مانگتی پھرتی تھی کوچہ کوچہ خراجکسی درخت پہ پتا کوئی ہرا بھی نہ تھا اس شعر کے پہلے مصرع میں ’’کوچہ ‘‘کو مکرر لایا گیا ہے ۔جو تیری راہ سے ہٹ کر کسی کی راہ میں ہوں خجل خجل سا بہت دل کی بارگاہ میں ہوںاس شعر کے دوسرے مصرع میں’’خجل‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔میں زخم زخم مداوے کی اندھی چاہ میں میں ہوں کہ جشن فتح منائی ہوئی سپاہ میں ہوںاس شعر کے پہلے مصرع میں ’’زخم‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔روش روش میری مے نوشی کا چرچا شبنم کی مئے ،پھولوں کے پیمانے تھے اس شعر کے پہلے مصرع میں ’’روش ‘‘ کومکرر لایا گیا ہے ۔ترک وفا کی مشق بھی کر دیکھی اکمل ؔاپنے اپنے ،بیگانے بیگانے تھے یہ شعر صنعت تکرار کی خوبصورت مثال ہے بیکوقت اور بلافاصلہ ’’ اپنے ‘‘ اور ’’ بیگانے ‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔مری آوارگی دیوان خانوں کی عنایت ہے گر ہستی اس سے سیکھی صحراصحرا جو بھٹکتا تھا اس کے دوسرے مصرع میں ’’ صحرا‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔اب موسم کی بات نہ کر چہرہ چہرہ ہے اخبار اس شعر کے دوسرے مصرع میں ’’چہرہ ‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔سہمے سہمے جل تھے کچھ دئیے آندھیوں کا ذکر سن کر بجھ گئے اس شعر کے پہلے مصرع میں’’سہمے‘‘ کو مکرر لایا گیا ہے ۔مراعاۃ النظیر :ایک شعر ی صنعت جس میں باہم مناسب رکھنے والی چیزوں کا ایک جگہ ذکر کرتے ہیں ۔بہار مانگتی پھرتی تھی کوچہ کوچہ خراجکسی درخت پہ پتا کوئی ہرا بھی نہ تھا اس شعر میں ’’درخت‘‘ کی مناسبت سے ’’پتا ‘‘ اور پھر ’’ہرا‘‘ لایا گیا ہے ۔کہاں تھی سہل حنا بندی نگار وطن کہ کوئی قطرہ خون جسم میں بچا بھی نہ تھا اس شعر میں ’’جسم ‘‘ کی مناسبت سے ’’خون‘‘ اور پھر ’’قطرہ‘‘ لایا گیا ہے ۔ سہمے سہمے جل تھے کچھ دئیے آندھیوں کا ذکر سن کر بجھ گئے اس شعر میں ’’دیا‘‘ ’’جل‘‘’’بجھ‘‘کے درمیان مناسبات ظاہر ہیں ۔سیاق الاعداد :شعر یا مصرع میں اعداد کا استعمال کرنا ۔ہزار بار مرے در پہ دستکیں دے کر وہ لوٹتا رہا پر مجرم صدا بھی نہ تھا اس شعر کے پہلے مصرع میں لفظ ’’ہزار‘‘ نے صنعت سیاق الاعداد کا رنگ بھرا ہے ۔کتنے لمحوں ،دیوانے فرزانے تھے کتنی صدیوں فرزانے دیوانے تھے اس شعر کے دوسرے مصرع میں ’’صدیوں ‘‘ کے استعمال نے صنعت سیاق الاعداد کا رنگ بھر دیا ہے ۔صنعت عکس:الفاظ کو منعکس کردینا۔کتنے لمحوں ،دیوانے فرزانے تھے کتنی صدیوں فرزانے دیوانے تھے اس شعر کے پہلے مصرع میں ’’ دیوانے فرزانے ‘‘ کو دوسرے میںمعکوس یعنی ’’ فرزانے دیوانے ‘‘ کردیا گیا ہے ۔حامد اکمل نے جہاں میدان صحافت میں مقام کمال وعروج حاصل کیا وہیں انہوں نے کمال کی شاعری کی ہے ۔جہاں انہوں نے اپنی غزلوں کوایک خاص فکر دی ہے وہیں ان کی شاعری میں لفظی ومعنوی کے اجتماع نے زبر دست حسن پیدا کردیا ہے ۔

 

 

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا