( اختر جمال عثمانی۔ بارہ بنکی ۔ 9450191754موبائیل)
لکھنو نے نوابین کے دور مین تہذیب اور ادب میں بڑا مقام حاصل کر لیا تھا۔ اودھ کے قصبات تک اردو ادب اور تہذیب کے مراکز تھے۔ ان قصبات میں اردو زبان و ادب کے بہت سے ایسے شیدائی رہے ہیں جنہوں نے شعر و ادب کی آبیاری میں عمریں گذار دیں پورے خلوص کے ساتھ اور بغیر کی سلے کی تمنا کئے، نام و نمود سے بے نیازہوکر۔ معیاری ادب کی تخلیق ہوئی کچھ کتابوں کی اشاعت بھی ہوتی رہی لیکن وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے مذہب ،طب اور شعر و ادب پر مشتمل بہت سی تخلیقات قلمی نسخوںکی شکل میں ہی رہیں، اشاعت کے مراحل طے نہ ہو سکے اور اس طرح اس بیش بہا ادبی سرمائے کا ذیادہ تر حصہ ضائع ہو گیا۔
شعر و ادب کے انہیں بے لوث خادموں میں ایک منفرد اور ممتاز نام حضرتِ عزیزؔ بارہ بنکوی کا ہے۔ آبا ئی وطن قصبہ سبیحہ ضلع بارہ بنکی تھا سنِ پیدائیش تعلیمی اسناد کے مطابق جولائی ۱۹۱۵ء ہے۔ والد کا نام شیخ عبدا لصمد تھا جو محکمہ پولیس کی ملازمت کے باعث اکثر باہر رہا کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم مدرسے میں ہوئی بعد میں مشہورِ زمانہ دینی درسگاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو میں بھی زیرِ تعلیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی دوران طالب علمی میں ا ن کے حضرت مولانا ابوا لحسن علی ندوی سے دوستانہ مراسم اسطوار ہوئے ۔ جس کا ا عتراف مولانا نے عزیز صاحب کے نعتیہ کلام کے مجموعہ ـــــ’’ فاراں کی بلندی سے‘‘ کی تقریظ میں کیا ہے۔ ذریہء معاش کے طور پر مختلف ملازمتیں اختیار کیں عمر کے آخری کچھ برس دفتر سب رجسٹرار بارہ بنکی میں بطور عرائیض نویس گذارے۔شاعری کا ایسا جنون تھا کہ مسافت آڑے نہ آتی اصلاحِ سخن کی غرض سے پیدل یا سائیکل سے میلوں سفر کرتے ۔ طویل عمر پائی تقریباََ ساٹھ سال کا عرصہ شعر و ادب کی خدمت میں گذارا ۔
اپنی شاعری کے آغاز کے متعلق عزیز صاحب رقمطراز ہیں
’’ میری شاعری کا باقاعدہ آغاز ۱۹۴۷ء میں ہوا۔ ملک کے دیگر مشاہیر اضلاع اور شہروں کے مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا اس کے علاوہ لکھنو کے معتدد طرحی اور غیر طرحی مشاعروں میں شرکت کا اتفاق ہوا اور اس سورت سے لسان ا لحقیقت حضرت مولانا سید افقر موہانی وارثی مرحوم کی نگاہِ کرم ہوئی چنانچہ آخر وقت مولانا نے مجھے اپنا جانشین یہ فرماتے ہوئے منتخب فرمایا۔۔۔
’’ سپردم بتومایہء خویش را‘‘
افقر موہانی نہایت ذودگو شاعر تھے۔ مصرع طرح پر خواہ کتنی ہی سخت زمین ہو ڈیڑھ دو سو اشعار کہنے کے بعد بہترین؛ بہتر اور معمولی قسموں کا تعین کرتے۔قسموں کیے مطابق لال ہرے اور زرد قلم سے تحریر فرماتے اور شاگردوں کو انکی اہلیت کے مطابق ہر رنگ کے دو دو ، تین تین اشعار دیکر غزل پوری کراتے۔ یہ دور مولانا افقر موہا نی کے ہم عصر ظریف لکھنوی کے مطابق ’’ شاعر اسی فیصدی تعلیم سو میں سات کی‘‘ والا تھا۔
عزیز بارہ بنکوی نے اس جانشینی کا حق ادا کرنے میں کوئی کثر نہ اٹھا رکھی ۔ اردو کی خدمت انکا نصب ا لعین تھا۔ شاعری کے رموز و نکات سے مکمل آ گہی اور فن عروض پر مکمل دسترس کے باوجود نیم خواندہ مبتدین کی اصلاح کا انکا اپنا منفرد طریقہ تھا۔ اوزان اور بحور کے متعلق بھاری بھرکم اصتلاحوں کا مطلب سمجھانے کے بجائے آہنگ کی بنیاد پر شعر کہنے کی عادت ڈلواتے۔ اور یہ تجربہ مترنم بحروں میں نہایت کامیاب رہتا اور شاگرد قلیل عرصہ میں بے عیب اشعار کہنے کی صلاحیت حاصل کر لیتے۔
عزیز بارہ بنکوی اپنے ہم عصر شعرا کی طرح روایتی غزل کے پیرو تھے۔ انکی شاعری اور ترقی پسند تحریک بھی ہم عصر تھیں۔ ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ بارہ بنکی کا ایک بڑا شاعر جسکی شہرت ملک کے گوشہ گوشہ میں پہونچی ہوئی تھی، آنچل کو پرچم بنالینے کی تلقین کر رہا تھا۔بڑے بڑے اسیرانِ زلفِ غزل جدیدیت اور ترقی پسندی کی دوڑ میں شامل تھے ۔ اشتراکییت ادب کو حصار میں لیتی جا رہی تھی، حسرت بھی متاثر تھے۔ لیکن عزیز صاحب کا روایتی غزل پر ایمان غیر متزلزل رہا۔غمِ جاناں اور غمِ دوراں کا توازن برقرار رہا۔جہاں تک انکی قادرالکلامی کا سوال ہے وہ شک و شبہ سے بالاتر ہے جسکی روشن مثالیں مشاہیر کی مقبول غزلوں کی مشکل زمینوں پر کہے گئے انکے اشعار ہیں جیسے۔
دیوانے کی رودادِ الم کون سنے گا
مقصودِ بیاں اور ہے اندازِ بیاں اور
٭
اپنا دیوانہ بنا کر لاج رکھ لی آپ نے
ورنہ یہ دنیا سمجھتی اپنا دیوانہ مجھے
عزیز صاحب کی ایک اور خصوصیت جس کا یہ خاکسار بھی گواہ ہے، وہ یہ کہ ذاتی محفلوں یا احباب کے ساتھ گفتگو ہمیشہ اودھ کی مضافاتی زبان جسے عرفِ عام میں ’’ ـ کچی بولی‘‘ کہا جاتا ہے ، میں ہی کرتے جس کی شیرینی اور لطافت مسلمہ ہے ا ور مخاطب کو اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔اتنی طویل شعری مسافت کا حاصل ہماری نظر کے سامنے دو مختصر مجموعوں کی شکل میں ہے۔ ایک نعتیہ کلام کا مجموعہ’’ فاراں کی بلندی سے‘‘ اور دوسرا غزلوں پر مشتمل مجموعہ ’’کیفِ غم ‘‘ اور یہ انکی کم گوئی کا نہیں بلکہ سخاوت اور عطا کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ انکی انکساری اور فراخ دلی نے شاگرد بننے کے کسی خواہش مند کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ شاگردوں کی اس کثیر تعداد میں خواندہ، ناخواندہ، نیم خواندہ، اہل اور نا اہل سبھی طرح کے لوگ شامل تھے۔ اور کچھ جلد سے جلد صاحبِ دیوان بن جانے کو اتاولے ہوتے تھے ،جس کے نتیجے میں نشستوں میں بہت بار اپنی ہی کہی ہوئی غزلوں پر داد دینی پڑتی اور ایسے مجموعوں پر مبارکباد بھی ، جس کا بیشتر حصہ ا پنا ہی نتیجہء فکر ہوتا۔
شاگردوں کا یوں تو شمار ممکن نہیں لیکن کچھ نام جیسے رضواں بارہ بنکوی، نشتر جرولی، طیب محمودآبادی، راجو راز،شیلیندر بچن،نصیر ی انصاری ، نور بارہ بنکوی، صغیر نوری، رادھیکا پرساد اور ہاشم بارہ بنکوی کے نام تعارف کے محتاج نہیں۔
جہاں تک عزیز بارہ بنکوی کے نعتیہ کلام کا تعلق ہے اسکے لئے حضرت مولانا ابولحسن علی ندوی کی سند ہی کافی ہے، حضرت مولانا رقم طراز ہیں۔۔۔۔۔
’’ میرے دوست عزیز بارہ بنکوی نے اپنی نعتوں کا مجموعہ مرتب کیا ہے، میں نے ان نعتوں میں انکے جوش عقیدت کی جھلک دیکھی۔ کلام رواں سلیس اور جذبات محبت سے پر ہے الفاظ آسان اور شیریں ہیں۔ نعت میں دور از کار باتیں نہیں کہیں ہیں، رسول صلؑم سے بے پناہ عقیدت، نیاز مندی جو ایک بندہء مومن کا سرمایہ ہے ، ان کے کلام سے نمایاں ہے۔‘‘
کیفِ غم سے منتخب کچھ اشعار پیش ہیں جن میں روایات کی پاسداری بھی ہے، علامات و تراکیب بھی غزل کی ہیں لیکن موضوع اور مضامین منفرد ہیں۔ وہ سماجی کشمکش اور سیاسی حالاتکا ادراک بھی رکھتے ہیں۔
غبارِ گردشِ لیل و نہار ہوں لیکن
مرا وجو د بہر حال رائگاں تو نہیں
٭
نہ راس آئی جنوں کی کار فرمائی تو کیا ہوگا
بساتِ غم پہ دیوانوں کو نیند آئی تو کیا ہوگا
٭
حدودِ کوئے جاناں سر کے بل طے کرنے والوں سے
ہوا پہلے سوالِ آبلہ پائی تو کیا ہوگا
٭
اللہ یہ غربت کہیں گمراہ نہ کر دے
راضی بہ رضا ہوں ابھی ہر بات بنی ہے
٭
بزم جاناں میں حقیقت کیا شکستہ ساز کی
لاج رکھ لے یا الـہی دکھ بھری آواز کی
٭
مذاقِ عشق میں جب تک جنوں شامل نہیں ہوتا
نگاہوں کا تصادم ترجمانِ دل نہیں ہوتا
٭
اسے احتیاطِ نظر کہوں کہ قصورِ ذوقِ نظر کہوں
میں تلاشِ دیر و حرم میں تھا وہ گذر گئے رہِ عام سے
٭
عزیز بارہ بنکوی صاحب کا ۸۶ سال کی عمر میں ۷ مئی ۲۰۰۱ء کو انتقال ہوا، جانشینِ عزیز ہاشم علی ہاشم نے ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کی۔
کون ہے اب جسکو اپنائے غزل
کس کے آگے ہاتھ پھیلائے غزل
جب نہیں ہیں آپ دنیا میں عزیز
کس کے دامن میں اماں پائے غزل
ہاشم علی ہاشم کی قائم کردہ دبستانِ عزیز جس کا قیام عزیز صاحب کی حیات میں عمل میں آیا تھا کی ہر نشست کا مصرع طرح الگ بحر میں دیا جاتا ہے، اور نصیر بارہ بنکوی کی قائم کردہ بزمِ عزیز جسکی ماہانہ نشست جاری ہے ،شعرو ادب کی خدمت میں عزیز صاحب کے مشن کو آگے بڑھا رہی ہیں۔ صغیر نوری صاحب نے انکے مجموعہ کیفِ غم کواردو اور ہندی میں بیک وقت شایع کر کے اپنی محبت کا ثبوت دیا ہے۔ عزیز صاحب کو شعر و ادب کے بے لو ث خادم کے طور پر مدتوں یاد رکھا جائیگا۔
اختر جمال عثمانی دیوہ روڈ، رفیع نگر۔ بارہ بنکی
یو پی۔ انڈیا۔۲۲۵۰۰۱
موبائیل۔۹۴۵۰۱۹۱۷۵۴