آزاد تھے، آزاد ہیں، آزاد رہیں گے*۔۔۔

0
0
از:محمد عاصم کمال الاعظمی
    ایڈیٹر رسالہ پاسبان
ہرحال میں ہم شیوۂ اجداد رہیں گے!
آزاد تھے، آزاد ہیں۔ آزاد رہیں گے!
 ملک ستّرویں یوم جمہوریہ کا جشن منانے کی تیاری میں ہے، جمہوریت اور اس کے آئینی دفعات پراعتماد کا عزم ظاہر کرنے والا ہے، کہ جس جمہوریت اور اس کے جمہوری نظام نے ہمیں مختلف رنگا رنگ سے لبریز پیارا وطن اور حسین چمن دیا، جس نے تعدد ِ مذاہب کے ساتھ قومی یکجہتی، بھائی چارہ، دردِ دل اور اتحاد واتفاق کا سبق سکھایا، ہرطرح کی فکری ومذہبی آزادی فراہم کی، یقیناً ہم اس جمہوریت پر نازاں اور فخرکناں ہیں؛ مگرآج ہماراملک تاریخ کےجس دوراہے پر کھڑا ہے، ضرورت ہے اس جمہوریت کے احتساب کی!
اس کے بنیادی حقوق اور اس کے آئینی دفعات کو سمجھنے کی!
کہ کیا جمہوریت کا ڈھانچہ باقی ہے؟
آج وہ جمہوریت کس حال میں ہے !سدا جِسے ہم نے اپنی جان، مال اور عزت و آبرو سے عزیز رکھا ؟
کیا اس کے شہریوں اور اس کے سایے تلے پلنے والوں میں جمہوری احساسات موجود ہیں؟
کیا انھوں نے گنگا جمنی تہذیب کا مادہ اور عنصرِ غالب برقرار رکھا ہے؟
تو ظاہر ہےکہ جس ڈکٹیٹرشپ اور آمریت کا خاتمہ کردیا گیا تھا، جس بھید بھاؤ کی سیاست سے دیس کو آزادی ملی تھی، جس نفرت کے بازار کو بھائی چارہ اور جمہوری اصولوں سے مقفل کردیا گیا تھا۔۔۔۔آج اس جوڑ توڑکی ذہنیت نے پھر اپنے خاکے بننے شروع کردئیے،جس سونے کی چڑیاکو غاصب اور ظالم انگریز شکاریوں کے ناپاک پنجوں سے چھڑا کر آزاد کیا گیا تھا، آج اس کے پَر کترنے کی بات ہورہی ہے، اسے مخصوص ذہنیت ،مخصوص فرقے کے متعصبانہ پنجڑے میں قید کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جمہوری حقوق اور اقدار کو پامال کرکے ایک نئے قانون اور نئے سنودھان کی تیاری چل رہی ہے، دیس کے پنچانوے فیصد شہریوں کو محض پانچ فیصد کا غلام اور ماتحت قرار دینے کا ارادہ بروئے کار لایا جارہا ہےاور اس مذموم عزم کی تکمیل کے لیے برسراقتدار حکومت سراپا تحریک وتبلیغ ہے، وہ لوگوں کے جذبات سے کھیل کر جمہوریت کی عمارت کو ڈھانا چاہتی ہے، اس چمن کے تمام پھولوں کو مَسل کر صرف گیروا رنگ کِ؛ھلانا چاھتی ھے، مذہب، نسل اور ذات پات کی بنیاد پر منافرت کو ہوا دینا چاہتی ہے؛ چنانچہ اس سلسلے کی اس کی بڑی کوشش اور بڑا قدم ، حال ہی میں پیش کئے گئے   caa, اور Nprجیسے قانون کی شکل میں رونما ہوا، جس نے بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی تشخص وامتیاز کو شرمسار کردیا، اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کی چولیں ہلادیں، اسے تاریخ کے اسی موڑ پر لاکھڑا کیا جہاں وہ ستر بہتر سال قبل تھا، وِکاس اور ترقی کے عنوان سے کرسی اقتدار تک پہنچنے والی یہ حکومت، اس ملک کو پھر سے پچھہتر سال قبل کے کی جانب ڈھکیلنا چاہتی ہے۔
سی اے اے، این پی آر،اور این آرسی۔۔۔۔۔۔:یہ وہ سیاہ قانون ہے، جس نے ہر جمہوریت پسند کی آنکھ سے نیند چھین لی، ان کی طبیعت کا سکون غارت کردیا،اور ان میں سُم ِ قاتل اور زہریلا ناگ این آرسی ہے، کیونکہ اگر حکومت کی منشاء مطابق اِس ملک میں اُس کا نفاذ ہوجائے ، تو لاکھوں کروڑوں لوگ شہریت سے محروم ہو جائیں، جائدادوں اور ملکیتوں سے بے دخل کردئیے جائیں، ملازمتیں اور نوکریاں چھین لی جائیں ، کم از کم حق ِ رائے دہی سلب کرکے ملک کا دوسرا شہری قراردےدیا جائے، خواتین کی عزت و آبرو غیر محفوظ ہوجائے گی، مکانات مسمار کردئیے جائیں گے، نفرت وذلت کا بازار گرم کرکے نسل کشی عام ہوجائے گی، اور یوں ساری قوم کو ملک دشمن گردان کر ہرظلم وستم کو روا رکھا جائے گا۔۔۔۔۔ ورنہ بطور آخری حل ڈیٹینشن سینٹروں میں ٹھوس دیا جائے گا ، جو بلاشبہ انسانیت سوزی کا ایک بدترین عنوان ہے۔۔۔ جیسے ماضی میں اسٹالن نے یوکرین میں کیا، سات لاکھ لوگوں سے ان کی زندگیاں چھین کر سائبیریا کے جنگلات میں قائم ڈیٹینشن سینٹرز میں بندکردیا گیا، جیسے ہٹلر نے جرمنی میں کیا، بڑے پیمانے پر قتل وغارت گری کرکے لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو کانسنٹریشن کیمپوں میں ڈال دیا گیا، اور جیسے حال میں برما نے روہنگیا اقلیت کے ساتھ کیا اور جس طرح چائنااقلیتی طبقہ کے ساتھ کررہا ہے۔۔۔۔ ؛ چنانچہ حکومت نے اس کا ایک تجربہ آسام میں کیا، جو ان کی امیدوں کو بَرلانے والا ثابت نہ ہوا ، جس کے مطابق 19لاکھ شہریت سے محروم لوگوں میں 13لاکھ کاتعلق اکثریتی طبقے سے تھا ، تو اس ناکامی کو چھپانے،این آر سی کے خوفناک سانپ سے اکثریتی فرقے کو بچانے اور اس کے زہر کو نکال باہر کرنے کے لیے caa کا امتیازی قانون پیش کیا، اور جب ملک کی جمہوریت پسند اور محب ِ وطن عوام نے اس شرمناک کھیل کو بھانپ لیا توnpr کا ایک نیاجال پھینکا گیا جو یقیناً این آرسی کاپہلا قدم اور اس کی تمہید ہے۔۔۔۔۔
       وطنِ عزیز عجیب کشمکش سے دوچارہے، شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہرچہار سمت آوازیں بلند ہورہی ہیں، اندرونِ ملک سے بیرون ممالک آزادی کے نعرے گونج  رہے ہیں،ملک کا ہرروشن دماغ اور محبت پسند شہری حکومت کے سیاہ کردار،دہرے پیمانے اور جمہوریت کے پس پردہ فرقہ وارانہ ومتعصبانہ خاکوں پر شدید بےچین ہے، مظاہروں کے ذریعے اس کا بھرپور اظہار کر رہا ہے، ملک ہرطرف سے جل رہا ہے، عوام سڑکوں پر اترکر جمہوریت کے تحفظ کو یقینی بنانے کی مانگ کر رہی ہے، ماؤوں بہنوں نے مورچہ سبنھالا ہوا ہے، سخت سردی میں احتجاج کی آگ سرد نہیں پڑرہی، حکومت کی دسیسہ کاریوں، گیدڑ بھبھکیوں، مُحافظوں کی ستم رانیوں اورعصبیت پسند عناصر کی سازشوں نے نہ جوانوں کے حوصلے پست کئے اور نہ بزرگوں کی امیدیں ماند ہوئیں، اس احتجاج نے ہمارے بھائی چارہ کو خوب فروغ دیا، کل ہم جوبکھرے تھے ، جمہوریت کی ڈوبتی نیا نے ہمیں ایک بینر تلے جمع کردیا، جہاں نہ کوئی ہندو ہے نہ مسلمان، نہ سکھ، نہ عیسائی۔۔۔ صرف کراہتا ہندوستان اور  کرب والم میں مبتلا ہندوستانی، اور سب مذہب وقومیت سے اٹھ کر جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایسا کیوں نہ ہوگا،اور اب نہ ہوگا تو پھر کب ہوگا!
جب کہ مذکورہ قانون ملک کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، ملک دشمن، فرقہ وارانہ اور آئین کی دفعہ 14و,15 کے مغائرہے، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کا منکر ہے، ڈاکٹر بھیم راؤامبیڈکر کےسنودھان سے ٹکرا تا ہے، ہندومسلم اتحاد اور بھائی چارہ کی جڑیں کھوکھلی کرنے والا ہے، ملکی یکجہتی کوپاش پاش کرنے والا ہے، سراسرظلم پر مبنی، غیر مفید اور خالص متعصبانہ و ہندوستانی روح کے قطعی مغائر ہے۔
لہذا ضرورت ہے کہ اس ملک دشمن قانون کو جمہوری انداز سے پرزور ریجیکٹ کیا جائے، حکومت کی ملک دشمن، متعصبانہ پالیسیوں کومزید اجاگر کیا جائے، اس کو روکنے کے لیے ہر جائز اور ضروری طریقہ اپنایا جائے، بے خوف ایسے قانون کی مخالفت کا اعلان کیا جائے، اوروقت کا تقاضہ ہے کہ تمام جمہوریت پسند افراد اور جماعتیں اس سیاہ قانون کے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں۔
جب تک کہ زمینوں  پہ نہ آ جائے  زمانہ
جب  تک  نہ  کرے  بند  ہمیں زخم لگانا
جب تک نہ رکے  ظلم  کا  پر ہول فسانہ
آئین  کو  جب  تک  نہ  ملے  اپنا ٹھکانہ
ہم  تا  دمِ   آخر   لبِ   فریاد   رہیں  گے
آزاد   تھے ،  آزاد   ہیں ، آزاد   رہیں   گے
مٹ جائیں گے دشمن، ہمیں آباد رہیں گے
آزاد   تھے ،  آزاد   ہیں ، آزاد   رہیں   گے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا