70برس کی منظم جدوجہدوکوششوں کے بعدمرکزجموں وکشمیرسے دفعہ370کوختم کرنے میں کامیاب ہوا، اس خصوصی درجے پہ کلہاڑی چلانے سے قبل حکومت نے اُس قدم کیخلاف اُٹھنے والی ممکنہ آوازوں کو دبادیا،اوربڑے اہتمام اورفرصت کیساتھ اس درجے کوختم کرنے کے بعد ممکنہ عوامی ردِعمل کو سرنہ اُٹھانے دیاجس کی پیشگی تیاریاں کی گئیں،بھاجپاواس کی ہم خیال ہندوانتہاپسندتنظیموں ودیگر کئی اکائیوں کایہ ایک دیرینہ خواب تھاکہ جموں وکشمیرسے دفعہ370کاخاتمہ ہو، 35اے ختم ہو اور یہ ریاست مرکزکیساتھ دوسری ریاستوں کی طرح منسلک ہوجائے، اس جدوجہدمیں اہلیانِ جموں کی اکثریت ان جماعتوں کی بڑی طاقت تھی جنہوں نے اس خواب کو شرمندۂ تعبیرہونے کیلئے بیش بہاکوششیں کیں اورقدم قدم دِلی کاساتھ دیا،تاہم یہ خواب جموں نے بھی ہرگزنہ دیکھاتھاکہ ریاست کادرجہ ختم ہوجائیگااورجموں وکشمیر اور لداخ دوالگ الگ مرکزی زیرانتظام علاقوں میں تقسیم ہوجائیں گے،خیرکسی بڑے مقصدکے حصول کیلئے اس قربانی پرفی الحال جموں صبرکاکڑواگھونٹ پئے کچھ کچھ خاموش ہورہاہے اورکچھ کچھ کے صبرکاپیمانہ لبیرز ہورہاہے،خیراس خاموشی اورصبرکے بیچ جموں وکشمیرکیلئے نئی کوششیں ہورہی ہیں ،ایک نئے کشمیرکی تعمیرکیلئے یہاں صنعتوں کاجال بچھانے کی تیاریاں ہورہی ہیں،متعلقہ حکام صنعتی گائوں تعمیرکرنے کیلئے زمینوں کی نشاندہی کررہے ہیں،کشمیرمیں حیدر آباد میں واقع مشہور ’راموجی فلم سٹی‘ کی طرز پر ایک فلم سٹی کے قیام اور جموں وکشمیر کے لئے ایک نئی فلم پالیسی مرتب کرنے پر سنجیدگی سے حکومت غور کررہی ہے۔دریں اثنا وادی میں 30 برس کے طویل عرصے کے بعد سنیما گھروں کا دوبارہ کھلنا تقریباً طے ہے، گرمائی دارالحکومت سری نگر کے سیول لائنز میں جہاں ایک ملٹی پلیکس (ایک سے زیادہ سکرینوں والے سنیما گھر) کی تعمیر کا کام جاری ہے وہیں قریب تین دہائیوں سے بند پڑے سنیما گھروں کو دوبارہ کھولنے کی کوششیں بھی شروع ہوچکی ہیں،اب دیکھنایہ ہے کہ یہ نیارنگین کشمیراہلیانِ کشمیرکے زخموں پرمرہم لگاپائے گا، کیاروزگارکے نئے مواقع اورایک خوشحال کشمیرکی تعمیرسے اہلیانِ کشمیرعلیحدگی پسندی کے ماحول والے اپنے ماضی کوبھلاکرنیاسفرشروع کریں گے، کیادہلی کے یہ جتن رنگ لائیں گے یاپھرکشمیریوں ہی کبھی جلتاکبھی سلگھتاتوکبھی خاموش رہیگا۔