اردو غزل میں بازارکی منفرد کیفیت کا اظہار

0
0

ذوالفقار خان زلفیؔ
زہرہ باغ علی گڑھ
موبائل:9058195119

 

جب انسان اس عالمِ وجود میں آیا اور اس نے دوسروںسے تعلق قائم کرنا سیکھا تو وہ اپنی روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک دوسرے پر منحصررہا۔اس نے اشیاء کا لین دین کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں بازار کا نظام وجود میں آیا۔اورجب رپیے پیسے کا چلن نہیں تھا تو انسان ایک چیز کے بدلے میں کسی دوسری کا رددو بدل کر اپنی ضرورت کی تکمیل کرتا تھا جس کے لئے انگریزی میں (BATER SYSTEM) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔پھر دھیرے دھیرے لوگوںنے ایک مقام کا انتخاب کیا جہاںوہ اپنا اپنا سامان لائے اور خرید و فروقت کرنے لگے جسے بازار کہا جانے لگا۔تاریخ شاہد ہے صدیوں سے ہماراملک ہندوستان ایک تجارتی مارکٹ کے طور پر جانا جاتاہے۔عہدِقدیم سے ہی مختلف ممالک سے لوگ یہاں اپنا سامان لے کر آتے رہے ہیں اور خریدوفروقت کرتے رہے ہیں۔پھر جب زبان پروان چڑھنے لگی تو بازار کے اثرات بھی اس پر نمایاں ہونے لگے۔کیوں کہ بازار کی زبان مختلف ہوتی تھی اور مختلف ممالک اور علاقوں سے لوگ آیا کرتے تھے جن کا رہن سہن اور زبان ایک دوسرے سے مختلف ہوا کرتی تھی۔اس کے سبب مختلف زبانوں کے الفاظ ایک دوسرے کے ساتھ ملتے گئے اور ایک نئی زبان وجود میں آئی۔ماہرین کے مطابق ہماری زبان بھی اسی طرح پروان چڑھی ہے۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیںبازار اور اردو زبان و ادب کا ایک انوکھا رشتہ ہے۔اس لئے ہمارے اردو ادب کا شاعر اپنے کلام میں بازار کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔اس مختصر سے مضمون میں اردو غزل میں آئی بازارکی منفرد کیفیت کا اظہار دیکھنے ملتا ہے۔
جب ہم غور و فکر کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ دور حاضر میںبازار ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگوں کا ہجوم ہر لمحہ لگا رہتا ہے۔جہاں لوگ اشیاء کی خرید وفروخت کے لئے جاتے ہیں۔ دکاندر اپنا مال بیچتے ہیں اور خریدار اپنی ضرورت کے مطابق سامان کا انتخاب کرتے ہیںاور اسے خریدتے ہیںاوربازار میں روز مرہ زندگی سے متعلق اشیاء دیکھنے کو ملتی ہیں۔اس بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ بازار ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے ذریعے ہمارا سماج سے رشتہ اور تعلق قائم ہوتاہے۔اسی لئے ہماری زبان و ادب میں بھی بازار کا لفظ ضرب المثال ،محاوروںاور کہاوتوں کی شکل میںدیکھنے کوملتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اردو غزل میں شعراء نے بازار کے موضوع کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے مثلاً یہ اشعار دیکھیں:
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے
مرزا غالبؔ اس شعر میں بازار سے سامان کی خریدو فروخت کی بات بڑے منفرد انداز میں کر رہے ہیں۔وہ بازار میں ملنے والے مٹّی کے پیالوں کو جام جم پر فوقیت دے کر کہتے ہیںکہ آج بازار میں ہرچیز دستیاب ہے۔اسی موضوع کو دوسرے پہلو سے احمدفرازؔکچھ ا س انداز سے ادا کرتے ہیںکہ بازار ایسی جگہ ہے جہاںنفع ونقصان کی ہوس کم نہیںہوتی بلکہ بڑتی جاتی ہے :
پہلے پہلے ہوس اک آدھ دکاں کھولتی ہے
پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں
احمد فرازؔ
بشیر بدرؔاپنے ایک شعر میںبازار کی کیفیت کواس طرح قلم بند کیا ہے:
ہم نے تو بازار میں دنیا بیچی اور خریدی ہے
ہم کو کیا معلوم کسی کو کیسے چاہا جاتا ہے
بشیر بدرؔ
شکیل اعظمی اور عطاتراب بازار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ہر گھڑی چشم خریدار میں رہنے کے لیے
کچھ ہنر چاہئے بازار میں رہنے کے لیے
شکیل اعظمی
چاہیئے کیا تمہیں تحفے میں بتا دو ورنہ
ہم تو بازار کے بازار اٹھا لائیں گے
عطا تراب
اور کبھی کبھی شاعر اس موضوع کے پیرائے میںزندگی ا ورخواب کا سہارا لینے سے بھی گریز نہیں کرتا:
ہر خواب شکستہ ہے تعمیر نشیمن کا
ہر صبح کے ماتھے پر بازار کی گرمی ہے
افروز عالم
جب شاعر طنزیہ لہجہ اختیار کرتا ہے تو اس طرح کہتا ہے:
کس نے بیچا نہیں سخن اپنا
کون بازار تک نہیں پہنچا
اجے سحاب
اب ہم بھی سوچتے ہیں کہ بازار گرم ہے
اپنا ضمیر بیچ کے دنیا خرید لیں
اقبال عظیم
کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے
انجم
شاعری پیٹ کی خاطر جاویدؔ
بیچ بازار کے آ بیٹھی ہے
عبد اللہ جاوید
ابلاغ کے لئے نہ تم اخبار دیکھنا
ہو جستجو تو کوچہ و بازار دیکھنا
محسنؔ بھوپالی
جب شاعرعشق کے جذبے میں ڈوبتا ہے تو اس طرح موضوع کو پیش کرتا ہے:
بکھرے ہوئے ہیں دل میں مری خواہشوں کے رنگ
اب میں بھی اک سجا ہوا بازار ہو گیا
افضل منہاس
جب سے گزرا ہے کسی حسن کے بازار سے دل
دل کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بازار ہوں میں
تری پراری
حسن بازار کی زینت ہے مگر ہے تو سہی
گھر سے نکلا ہوں تو اس چوک سے بھی ہو آؤں
شہزاد احمد
کچھ میرے دھڑکتے ہوئے دل نے بھی پکارا
کچھ آپ کو بازار میں دھوکا بھی ہوا ہے
جاذب قریشی
اور بازار سے کیا لے جاؤں
پہلی بارش کا مزا لے جاؤں
محمد علوی
جب شاعر استعارات کا سہارا لیتا ہے تواس طرح اشعار پیش کرتا ہے:
میں بند کمرے کی مجبوریوں میں لیٹا رہا
پکارتی پھری بازار میں ہوا مجھ کو
بمل کرشن اشک
وہ پھول جو مرے دامن سے ہو گئے منسوب
خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے
قیصر الجعفری
سچائی کی خوشبو کی رمق تک نہ تھی ان میں
وہ لوگ جو بازار ہنر کھولے ہوئے تھے
انجم ترازی
اس کے علاوہ بہت ایسے شعر ہیں جن میں بازار سے متعلق علامتوں کو شاعروں نے بڑے پر اثر انداز میں پیش کیا ہے اشعار دیکھیں:
تم شرافت کہاں بازار میں لے آئے ہو
یہ وہ سکہ ہے جو برسوں سے نہیں چلتا ہے
معین شاداب
بازار کے داموں کی شکایت ہے ہر اک کو
پھر بھی سر بازار بڑی بھیڑ لگی ہے
محمد علوی
قاعدے بازار کے اس بار الٹے ہو گئے
آپ تو آئے نہیںپر پھول مہنگے ہو گئے
نعمانشوق
بازار میں اک چیز نہیں کام کی میرے
یہ شہر مری جیب کا رکھتا ہے بھرم خوب
اجمل صدیقی

الغرض ہم سکتے ہیں اردو شعر وا دب اپنے دامن بازار کی تمام تر کیفیات کو سمیٹے ہوئے ہے جس کو ایک مختصر مضمون پیش کرنا ممکن نہیں۔شاعروں نے بہت کچھ اس پر لکھا ہے اور آنے والے شعراء بھی اس پر اپنے قلم کو جنبش دیتے رہیںگے۔آخر میں ہم شہریار کے اس شعر پر اپنی بات مکمل کرتے ہیں:
امید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا