ٹاٹ کا پردہ

0
0

افسانہ
رگھو!_____وہ ___رگھو رگھو!
مہاویر نے دروازے سے آواز لگائی
بابا تو چلا گیا کام پر شیاما نے دروازے سے باہر جھانکتے ہوئے جواب دیا
چلو اچھا ہوا مہاویر نے چھتری دیوار سیسٹا دی اور گھر کے اندر داخل ہو گیا
تیری ماں کدھر ہے شیاما؟ اس نے پوچھا
شیاما نے جواب دیا ساڑی پہن رہی ہے اندر
اچھا اتنا کہہ کر مہاویر نے جیب سے اٹھننی نکالیں اور اسکی نھنی سی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے بولا جا بھاگ کر نوکڑ والی دکان سے ٹافی لے لے اٹھنی دیکھتے ہی شیاما کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی وہ جھٹ سے ٹافی لینے نکل گئی
تھوڑی دیر بعد جب شیاما نے دروازہ کھٹکھٹایا چندا نے دروازہ کھولا_____ آگئی شیاما؟
ارے واہ!
? ? ?ٹافی منہ میں رکھے رکھے شیامانے گردن ہلائی مہاویر تولیے سے ہاتھ پونچھ کر چپ چاپ باہر نکل گیا
ہر دوسرے دن کا معمول تھا مہاویر ٹھیکیدار تھا کبھی سڑک کاکام تو کبھی عمارتوں کا وہ تو جیسے اس واڑی کا آنّداتا تھا___ گھر کا ایک فرد تو ہوگا ہی جو اس کے دیے کام کی روٹی کھاتا کماتا تھا ______ کبھی مرد تو کبھی عورت زیادہ کام ہوتا تو سارا گھر کام پر جاتا مہاویربھگوان تھا ان کے لیے چٹنی روٹی جو بھی پکتی مہاویر کے سامنے پیش کی جاتی اور وہ خوشی خوشی کھا لیتا
رگھو کے گھراس کا آنا جانا لگا رہتا کبھی چندہ کو کام مل جاتا تو کبھی رگھو کو وہ اکثر کبھی چاکلیٹ تو کبھی پوجا کاپرساد لے آتا اور شیاما کی ہتھیلی پر رکھ دیتا شیاما کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھتی چھ سال کی شیاما مہاویر سیگھل مل گئی تھی
گاؤں میں میلہ لگا تھا وہ بھی باپو اور ماں کے ساتھ
میلہ دیکھنے پہنچی روشنی سے بھرا رنگ برنگی سامان اورکھلونوں نے شیاماکے دل میں ہلچل مچا دی تھی جس بھی کھلونے یا کپڑے کی طرف انگلی اٹھاتی چندہ پیار سے منع کر دیتی اورشیا ما کا منہ لٹک جاتا سبھی لوگوں کے ہاتھوں میں تھیلیاں تھی مگر ایک شیاما تھی کہ نہ کوئی غبارا نہ کوئی گڑیا نہ رنگین کپڑے ایک جگہ آ کر اس کی نظر لال رنگ کے فراک پر اٹک گء وہ چندہ سے بضد ہو گی ماں مجھے فراک دلوا دو _________لال رنگ کی فراک چاہیے___ کچھ بھی نہیں خریدا ہے چندہ نے اسے پیار سے بہلانا چاہا _______ اگلے ہفتے دلانے کا وعدہ کرلیا مگر شیاما نے ٹھا ن ہی لی تھی ک وہ لال فراک لیکر ہی رہے گی مگر رگھوں اور چندہ کہ دل مرجھا گئے ایک ہی بیٹی اور اس کی بھی خواہشوں کو ہم پورا نہیں کرسکتے روتی بلکتی شیاما کو زبردستی گھسیٹ کر لا ہی رہے تھے کی مہاویر کی نظر ان پر پڑی اس نے کچھ نوٹ چندہ کے ہاتھ میں تھمایا اور بولا تم دونوں کیوں شیاما کورلا رہے ہو جاؤ جا کر کپڑے دلادو شیاماکو
شیاماکی نظراٹھی اور وہ دوڑ کرمہاویر سے لپٹ گئی چندا نے نہ چاہتے ہوئے بھی نوٹ مٹھی میں پکڑ لئے دوسریدن ماہا پوجا تھی سبھی لوگ بن سنور کر تیار ہوگئے مندر میں ماہا بوجھ بھی تھا مہاویرنے سائیکل شیا ما کے گھر کے سامنے لگائی اور رگھو کو آواز دیتا اندر چلاآیا رگھوں چارپائی سیدھی کی اور خود زمین پر بیٹھ گیا
جی مالک کیا حکم ہے؟ اس نے سوالیہ نظروں سے مہاویر کی جانب دیکھا کل سے روڈ کا کام شروع ہونے کو ہوئے تعلقہ سے اُنڈر گاؤں پورا ہفتہ ادھر ہی کو رہنا پڑے تیرے کو کام چاہیے تو چل میرے کن___ کل سبیرے سبیرے بانگ ہوتے ہی_________ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی ہووئے مہاویر کی نظریں اندر کی جانب تھی__تبھی پھدکتی ہوئی شیاما اندر چلی آئی____ ارے واہ! فراک تو بڑا پیارا ہے تیرا مہاویر نے لارڈ سے کہا تو شیاما اپنافراک ہاتھوں میں اٹھا کر گول گھوم گئی ماں نے مجھے لال رنگ کی جانگھی بھی لی اور ربن بھی اس نے جھٹ اپنا فراک اوپر اٹھایا مہاویر نے لپک کر اسے اپنی باہوں میں جکڑ لیا بولا ارے پگلی تجھے کب عقل آئے گی؟ اس کے گال کو چومتے ہوئے جیب سے اٹھنی نکالی اور اس کی ہتھیلی پر رکھ دی اسنے کھلکھلاتے ہوئے اٹھننی پکڑی اورنکڑ والی دکان کی طرف پر دوڑ پڑی۔
مہاویر اکثر آتا ہے کبھی شام کے ہاتھوں میں اٹھننی یاپر ساد دے کر اسے باہر بھیج دیتا تو کبھی چندہ کو گھٹکا لانے جب چندہ واپس آتی تو وہ شیاما کے ساتھ کھیل رہا ہوتا.. دن بیت رہے تھے اب شیاما مہاویر سے خوب گپ لگاتی کبھی اسکول کی باتیں تو کبھی دوستوں کی کبھی فلم کی چندہ گٹکا لینے جاتی مگر اس کے پیروں میں جیسے جان نہیں ہوتی شیاما کے گدرایے جسم سے اسے ڈر لگنے لگا تھا مہاویر کا جھکاؤ چندہ سے ہٹ کر شیاما کی طرف بڑھنے لگا تھا
واپس لوٹی تو مہاویر تولیے سے ہاتھ پونچھ رہا تھا اس کا ماتھا ٹھنکا اس نے شیاما کی طرف دیکھا الجھے بالوں اور من ہی من مسکاتی ایک نئی کہانی بیان کر رہی تھی گھٹکیکی پڑیا ہاتھ میں لیکر مہاویر دروازے کے باہر نکل گیا _______اسنیشیاماکا ہاتھ پکڑا اور چارپائی بیٹھالیا کیوری؟ تو ہے سمجھ نا ہے؟
اتنی بڑی قد کاٹھی نکل کو آئیں 15 سال ہونے کو ہے سمجھ نہ آوے کے مردوں سنگ کتنا بتیاں کرے ہر دم کھی کھی، کھی کھی ٹھیک نہ ہے پُرش مانس کا نیت کب بدلے پتہ نہ چلی
شیاما نے حیران نظروں سے ماں کی طرف دیکھا اور بولی پہلے کھونا بولی تو ایسے ماں___؟ مہاویر سنگھ بچپن سے کھیلت آئی!
تب کی بات اور ہووے تب تو چھوٹی تھی اب تو ہی سمجھ لینا ہے کہ تو اب بڑی ہو گئی ہے چندا نے غصے سے کہا
کیا ہوا ماں؟؟” میں تو بچپن سے دیکھت ائی مہاویراور تیرے کو کھیلتے تو بھی تو بڑی تھی نا؟”
”مجھے بھی یہ کھیل اچھا لگنے لگو ہے میں تو نہ چھوڑو کھیلنا ”وہ ڈھٹائی سے بول کر اندر چلی گئی
چندہ کو مانو سانپ سونگھ گیا کیا ہوگیا تھا اس کی شیاما کب بدل گئی؟
مہاویر دونوں ماں بیٹی سنگ کیسا کھیلاکھیل گیا تھا اس کے ہاتھوں اور پیروں میں پسینے آنے لگے تھے جو شخص اسکی جوانی چوس چکا تھا اس کی بیٹی کو بھی ڈس رہا تھا
شام ہوتے ہوتے اُسے بخار پکڑ لیا رگھوں رات کو گھر آیا تو چندہ کی طبیعت دیکھ کر اداس ہو گیا ساری رات تڑپ کر گزار دی صبح بوتیہی حکیم جی سے دوائی لا کر دی اور خود کام پر چلا گیا دوپہر کو مہاویر گھر میں داخل ہوا تو چندہ سو رہی تھی اور شیاما بالوں میں کنگھی کر رہی تھی اس نے چندہ کو سوتے دیکھ شیاما کو اشارے میں پوچھا کیا ہوا اس نے بھی سر کو ہاتھ لگا کر اشاروں میں ہی جواب دیا بخار ہے پھر دونوں مسکراتے ہوئے کمرے میں چلے گئے پھسپھسانے کی آواز سے چندہ کی آنکھ کھل گئی وہ دھیرے سے اٹھی چلنا دوبھر تھا دھیرے دھیرے کمرے کی طرف بڑی ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر دیکھا آنکھوں میں گرم گرم آنسو ابل آئے دھڑکن تھی کہ بس دل پھٹ پڑنے کی حد تک تیز چل رہی تھی اس نے چپ چاپ چادراوڑھ لی اور پھر چارپائی پر لیٹ گئی مہاویر خاموشی سے کمرے سے نکل گیا چندہ کا سوچ سوچ کر برا حال تھا اپنی ہی بیٹی سوت لگ رہی تھی” مہاویر کو مار دوں تو؟” اس نے سوچا مگر شاماں ہلہ کرے گی اس نے کئی پلان بنائے اور توڑے وہ مہاویر کو بانٹنے کسی صورت تیار نہ تھی
سوجتیسوچتے ایک ہفتہ گزر گیا طبیعت میں بھی ٹھہراؤ آ گیا تھا بخارنے اس کے بدن میں گھر بنا لیا تھا اس نیمہاویر سے بات کرنے کی ٹھان لی صبح جب رگھوں چلا گیا اور مہاویر گھر میں داخل ہوا تو وہ چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گئی تو مہاویر نے اسکی مزاج پرسی کی_______”کیوں ری چندہ کیا تو نے کھٹیا پکڑ لی ہے بوڑھا گی ہے کیا؟”
چنداکو مانو آگ لگ گئی تنتنا کر بولی ”ہاں ہاں اب میرا بدن تو کو برا ہی لگے اسی مانس کا ٹکڑا جو بھانے لگو ہے تو کو”! مہاویرنے بھی اس کی طرف حقارت بھری نظروں سے دیکھا اور بولا ”دیکھ چندہ وقت جب تیرا تھا تجھے بھی خوش رکھا کام بھی دیا اور تیرے بدن کی گرمی کابھی دھیان رکھا___کاہے کٹ کٹ کریہے اب بھی تو کام اور پیسہ تیرے ہی گھر آوے ہے!__ ہاں!___ پر اب ٹھنڈے بدن سے مزا نہ آوے”!!!!!!!!!
”اور شیاما میں تو آگ ہے آگ ”
”تو چپ کر کے بیٹھ جا ورنہ رگھو تک بات جائے گی تو ان سب چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گی تیرا منہ جب تک بند رہے گا گھر میں دھان کبھی کم نہ پڑے گا چل منہ سے چادراوڑ لے اور سمجھ کے کچھ نہ ہوا ہے” اس نے چندہ کو دھکا دے کر چارپائی پر لیٹا لیا اور چادر اس کی منہ پر پھینک کر اندر چلا گیا جہاں شیاما چٹائی پر بیٹھ چاول چن رہی تھی
انسوں گلے میں اٹک گئے دانتوں پر دانت کس گئے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگا جب مہاویر چلا گیا تووہ اٹھکرشیاما کے پاس چلی آئی
”دیکھ شیاما بچپن کی بات اور تھی اب تو سمجھ دار ہے جو مہاویر کی چال نہ سمجھیں تو وہ تجھے بھی میری طرح برباد کردے گا وقت رہتے سمبھل جا جلد ہی میں تیرا بیاہ کروا دوں گی اپنی زندگی میں نئے رنگ بھر لے بھول جا مہاویر سنگ کیا ہوا”
”نا ماں میں نہ کہیں جانے کی اور نئے گھر؟وہی دھوپ میں کام.! مر مرکز زندگی گزارو اس سے تو اچھا ہے مہاویر گھر کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ میری مرضی کو دھیان راکھے ہے میں رانی کی طرح رہو اس کی کیوں دھوپ میں جلوں؟ اور کام کرکے کمر توڑوں تو خود ہی اپنا منہ بند رکھ”
”دودھ دہی کھا بڑھاپے میں یہ سب کا فکر نہ کرو مہاویر نے میرے کو سمجھا دیا ہے سب اور ہاسن اگر تو زیادہ ٹرٹر کرے گی میں بابا کو بتا دوں گی کہ تیرے کو دیکھا تو تو میرے پر الزام لگا وے ہے ہاں” اور وہ پلٹ کر باہر نکل گئی
اپنی بیٹی کی اتنی بڑی بات سن کر چندہ کے ہوش اڑ گئے اس نے مر ولی اٹھائیں کل ہی رگون سارے ہتھیاروں کو دھار لگائی تھی اورشیاما کی طرف بڑی وہ چارپائی پر بیٹھی ناخن کھرچ رہی تھی.. آو دیکھا نا تاو پوری طاقت سے مرولی اس کے گردن پر دے ماری
ایک چیخ نکلی اور خون کی دھار فوارے کی طرح اوپر کی طرف اڑنے لگی پڑوسی بھاگ کر گھر میں داخل ہوئے منٹوں میں جنگل کی آگ کی طرح بات سارے گاؤں میں پھیل گئی کھیتی میں کام پر گئے رگھو تک بات پہنچی تو دوڑا دوڑا گھر پہنچا اس کی سمجھ میں کچھ نہ آرہا تھا اندر قدم رکھا تو خون بہہ کر زمین تالاب بن گیا تھا شیاما کا شو آدھا چارپائی پر آدھا لٹک رہا تھا چندا اور مہاویر ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے گاؤں والے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں کو دیکھ رہے تھے
ہر بات اور ہر جواب کے ساتھ رگوں کو لگ رہا تھا مانو کوئی اس کے جسم سے گوشت نوچ نوچ کر نکال رہا ہوں وہ کبھی مہاویر کو دیکھتا تو کبھی چندہ کو بھگوان جان کر جس پر بھروسہ کر رہا تھا وہ تو خود ہی ڈکیت نکلا اور جس لُگائی کو دیوی سمجھا وہ تو کلٹا تھی اور دونوں نے معصوم بچی کے دماغ میں بھی وہی گندگی بھردی تم شیاماکی لاش سے بھی دونوں پر کچھ فرق نہیں پڑ رہا تھا ایک دوسرے کو ننگا کرنے پر تلے تھے سب کی نگاہیں رگھو کو گھور رہی تھی وہ چارپائی کے نزدیک آ کھڑا ہوا اسے دیکھ چندہ دھک رہے گی تب شاید اس کی نظر مجمع پر پڑی سارا گاؤں اور ان کی جلتی ہوئی نگاہیں حیران پریشان لوگ شیاما خون سے سنی لاش وہ
دھم سے نیچے بیٹھ گئی رگھو کی طرف دیکھا مگر رگھو تو جیسے مورت بن گیا تھا وہ جھکا بیٹی کی سر پر ہاتھ رکھااور کمرسیلٹکی کھرپی نکالی اور چینخ کر مہاویر چندہ کی طرف مڑا بس اب تو دونوں کا آخری دی سبھی نے ایک ساتھ سوچا__پھراک چیخ بلند ہوئی اور ایک اور دھار خون کے اس تالاب سے جا ملی رگھونے خود کا گلا کاٹ لیا تھا
کیا کرتا؟
بیوی بیٹی کی لاج کا جنازہ کیسے کندھوں پر اٹھاتا ہے؟
کیسے دنیا کے سامنے آتا اور کس کے لیے جیتا اُس کی آنکھیں شیاما پر ٹِکی تھی اور سانس رک گئی.

 

نگینہ ناز منصور ساکھرکر
واشی نوی ممبئی
9769600126

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا