’ نقاب پوش‘غنڈوں کے مظالم کی کہانی

0
0

 

حنیف ترین

 

میرے بازوئے عمل ہی کے قریں ہے امکان
حوصلو آؤ ابھی زیر نگیں ہے امکان
نئے سال کا پانچواں دن جے این یو کے طلبہ کیلئے ایک تاریخی دن بن گیاجب چیختی بچیاں، روتی ہوئی مائیں اور چلاتے ہوئے قوم کے نونہالوں پر نقاب پوش غنڈوں نے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہوکر حملہ کردیا۔لوہے کی راڈ،لاٹھیوںاور ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر درجنوں طلبہ کوزخمی کرایاگیا۔جے این یو طلبہ یونین کی صدر کے ماتھے پر5انچ لمبا اور ڈیڑھ انچ گہرا زخم آیا جسے آپ نے بھی ٹی وی پردیکھاہوگا۔ جی این یو میں ویسے بائیں بازو کے طلبہ اور اکھل بھارتیہ ویارتھی پریشد(اے بی وی پی) کے درمیان اختلافات اور نظریاتی جھگڑے پہلے بھی ہوتے رہے تھے،لیکن کبھی نوبت ایسی مار پیٹ تک نہیں پہنچی تھی کہ ’باہری نقاب پوش‘غنڈوں کو طلب کر کے طلبہ کی ایسی’مرمت‘ کروائی جائے!
جے این یوصحت مندمباحثہ کی وجہ سے جانا جاتا رہاہے۔ یہاںنظریاتی اختلافات کی وجہ سے کئی بار ایسے حالات پیدا ہوئے، جنہیںناشائستہ کہاجاسکتا ہے، مگر پھربھی ایسے مواقع پرصرف زبانی بحثیںہوتی تھیں۔ دونوں گروپ میں سے کسی نے بھی ایک دوسرے کونہ کبھی دھکے دیے تھے اورنہ ہی گھونسے اورلاتیں ماری تھیں، مگر ہندوستان کی اس مہذب ترین یونیورسٹی میں70-80 نقاب پوش دن دھاڑے کیمپس میں داخل ہوگئے اور لڑکیوںو لڑکوں بلکہ ٹیچروں تک کو ڈنڈوں سے مارمار کر لہو لہان کردیا۔مارنے والے سبھی نقاب پوش تھے اور ان میں ایک دولڑکیاں بھی شامل تھیں۔ یہ حملہ شام کے 4بجے سے رات کے تقریباً8بجے تک چلتا رہا۔ حملہ آوروں نے جن لوگوں کو مارناتھا،باقاعدہ ا ن کی لسٹ بنارکھی تھی ،لہٰذا انھیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کرماراگیا۔ اس کے علاوہ جوبھی ان کے راستے میں آیا اسے زخمی کیاگیا۔ سابرمتی اور گوداوری ہاسٹل اوردوسرے ہوسٹلوں میں گھس کر یہ نقاب پوش کمرے کمرے گھوم کر اوربائیں بازو کے طلبہ کوڈھونڈکرانہیںنشانہ بناتے نظرآئے بلکہ جن کمروںکے اندر امبیڈ کر کی فوٹولگی تھی،وہاں کے طلبہ کو توخاص طور سے پیٹاگیا۔ حدتو تب ہوگئی ،جب انہوںنے بائیں بازو والوں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے ایک نابیناطالب علم کو بھی بری طرح پیٹ ڈالا۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ گودی میڈیا جہاں اس واقعے کو دوگروپوں کی آپسی لڑائی بتاکر جھوٹے دعوے پیش کررہاہے، وہیںکچھ بڑے لیڈر بھی میڈیا کی ہاں میں ہاںملارہے ہیں۔حالانکہ اس دن جے این یو کے طلبہ این آرسی کی مخالفت میں انڈیاگیٹ جاکر احتجاج کرنے والے تھے۔
جے این یو کے نہایت محفوظ کیمپس میں غنڈوں کے ذریعہ کئی گھنٹوں تک معصوم طلبہ کوتلاش کرکرکے ان کی پٹائی کرنا، یونیورسٹی کے رجسٹرار کا اس مسئلے میں اے بی وی پی ممبران کی کھل کرحمایت کرنا، طلبہ کی چیخ پکار کے باوجود وائس چانسلر صاحب کامتحرک نہ ہونااور’غنڈہ گردی‘ کے اس تماشہ کے بعدان کایہ بیان دیناکہ انہوں نے پولیس کومطلع ہی نہیںکیا بلکہ بڑے آفیسروں کو فون کرکے بلایابھی ، کیا ظاہر کرتا ہے،یہ سمجھنے کیلئے کافی ہے۔اس سے یہی تاثرابھرتاہے کہ یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن اس سازش میں ملوث تھا، ورنہ سوال یہ ہے کہ سابرمتی اورگوداوری ہاسٹل کے دونوں وارڈن حادثے کے وقت کہاں تھے؟ کیمپس کی انٹرنیٹ خدمات کا بند کیا جانا، ساتھ ہی واقعہ کے دوران بجلی کاٹ دیاجانا بھی ’سازش‘کے تاثر کو تقویت پہنچاتا ہے۔اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مارپیٹ شروع ہونے کے وقت جب پولیس پہنچ گئی تھی اوریونیورسٹی کے سبھی دروازوں پر پولیس پہلے سے ہی مامور تھی توپولیس عملوں کے سامنے یہ نقاب پوش گینگ کیسے گھس گئے؟ پولیس کے علاوہ یونیورسٹی کی سیکورٹی کیا کررہی تھی؟ خبروں کے مطابق نقاب پوش غنڈوں نے اس کے لیے باقاعدہ وہاٹس ایپ گروپ بنائے اور یونیورسٹی میں مختلف راستوں سے داخل ہوئے ۔
سچائی یہ ہے کہ این آرسی اور سی اے اے کے خلاف طلبہ کے ذریعہ چھیڑی گئی تحریک سے حکومت پریشان ہوگئی ہے، کیوں کہ اب یہ تحریک ملک گیرہوچکی ہے۔اس سے اکثریتی طبقہ بھی نہ صرف جڑا ہے بلکہ جوق درجوق شامل ہورہاہے۔ حکومت یہ سب دیکھ کر بوکھلاگئی ہے اوراس کی فرقہ وارانہ کوششیں بری طرح سے ناکام ہوگئی ہیں۔ یوپی میں پولیس کے قہر سے دودرجن سے زیادہ نوجوانوں کی جانیں جاچکی ہیں ،مسلمانوں کی دکانیں سیل کی گئیںہیں اور آدھی رات ان کے گھروں میں گھس کر انھیں لوٹا گیااور ان کی عورتوں کو ماراپیٹا مگرمسلمان صبر کے گھونٹ پیتے رہے۔اس کے علاوہ افسران طرح طرح کے حملے میڈیا کے ذریعہ کرتے رہے۔ حدیہاں ہوگئی جب بی جے پی کے نظام آباد کے ممبرپارلیمنٹ نے مسلمانوں کے ایک قابل احترام قائد کی داڑھی انھیںکرین سے اُلٹالٹکاکرکاٹنے کی بات کہہ دی—— مگر مسلمانوںنے اس کے باوجود صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑا،جب کہ حکمراں جماعت لگاتار اس کوشش میں ہے کہ یہ معاملہ فرقہ وارانہ رُخ اختیارکرلے تاکہ ملک بھر میں چل رہے احتجاجوں پر بریک لگے مگر وہ اپنی ساری گندی اورفرقہ وارانہ چالوں میں ناکام ہے۔جے این یو کاتازہ واقعہ بھی ہونہ ہو، اسی سے جڑا ہے، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیںکہ جے این یوکے طلبہ ہمیشہ سے سیکولرزم کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے گریزاںرہے ہیں۔ یہ کہناشاید غلط نہ ہوکہ جواہر لال نہرویونیورسٹی کے طلبہ انسانیت ورواداری کااستعارہ بنے رہے ہیں اورجب جب ضرورت پڑی، ظلم وتشدد کے خلاف یہاںکے طلبہ اور اکثراساتذہ سینہ سپر رہے ۔ خاص طور سے جب اقلیتوں پر کہیں بھی ظلم ہوا،یہاں کے طلبہ نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ حکومت کا ایجنڈا صرف اور صرف فرقہ پرستی، نفرت اورنسل واد پرمبنی ہے اور جے این یو ایک ’روڈبلاک‘ کی طرح اس کے ایجنڈے کے سامنے کھڑا رہاہے۔ لہٰذا وہ طاقتیں جو ملک سے جمہوریت ختم کرناچاہتی ہیں، انہوںنے جے این یو کی تہذیب کوختم کرنے کے لیے روڈمیپ تیارکررکھاہے۔ اب تک کی ’فیکٹ فائنڈنگ‘ رپورٹ اور میڈیا کی عمومی خبروں کی بنیادپریہی کہاجاسکتا ہے کہ یہ حملہ جے این یو کے طلبہ پرباقاعدہ پلان کرکے کیاگیا ، جس میں بڑی بڑی طاقتیں شامل ہیں۔ اس حملے کا مقصدتمام طلبہ برادری کومتنبہ کرناہے، جن کے تدبر، محنت اور پلانگ کی وجہ سے آئین دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے والا احتجاج یہاں تک پہنچ چکاکہ اب ایک عام آدمی کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ این آرسی اور سی اے اے کیاہے—— اس حملے کے ذریعہ ہندوستان بھر کے طلبہ کویہ بتلایاجارہاہے کہ تم اب احتجاجوں سے باز آجاؤ ورنہ تمہاراحال جے این یو کے طلبہ سے بھی زیادہ برا ہوگا۔ یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’نقاب پوش غنڈے‘کون تھے؟ میڈیا نے ’غنڈوں‘کا اسٹنگ آپریشن کر کے جس سچ کو سامنے لا یا ہے،وہ ہم سبھی کے سامنے ہے۔
اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ سرکار خود اپنے جال میں پھنس چکی ہے۔ واقعہ کوایک ہفتہ سے زیادہ ہوجانے کے بعد بھی کسی کی گرفتای نہیں ہوسکی ہے۔ ایک دوکارروائی جوہوئی، وہ بھی متاثرین کے خلاف ۔ طلبہ یونین کی صدر جسے بے انتہا پیٹاگیا، اس کے خلاف کیس کیاگیا۔مگر اس معاملہ کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ ملک کی 113یونیورسٹیاں جے این یو کے طلبہ اورٹیچروں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ اس کے علاوہ سیکڑوں قومی اوربین الاقوامی ہستیوں نے اس واقعہ پر اپنااحتجاج درج کرایاہے، جن میں یوروپ وامریکہ کی یونیورسٹیاں اور دنیا کے دوسرے اداروں کی جانی پہچانی ہستیاں بھی شامل ہیں۔مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ نے جہاںاس واقعہ کو 26/11سے موازنہ کیا، وہیں ساری اپوزیشن پارٹیوں نے اس کاالزام حکومت پرلگایاہے۔جے این یو کی ٹیچر ایسوسی ایشن نے اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی بلکہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر جگدیش کمار سے استعفیٰ کامطالبہ بھی کیاہے۔اپوزیشن کے چھوٹے بڑے تمام سیاست دانوںنے بھی وی سی اوررجسٹرار پرکارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔کیوں کہ پورا ایڈمنسٹریشن نقاب پوشوں سے ملاہواتھا اور اس حملے کے ذریعہ وہ ہندوستان بھر کے طلبہ کو ڈرا رہاتھا کہ اب ان کے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے جو جے این یو میں ہواہے۔
دراصل بی جے پی حکومت ہرمحاذ پربری طرح فیل ہوچکی ہے لہٰذا وہ آرایس ایس کے ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلانے اوراپنی مسلم دشمنی کی آڑمیں پورے ملک کو داؤ پرلگا دیناچاہتی ہے۔ ملک کے عوام کو باربارلائنوں میں لگاکر ان کااورملک کا وقت برباد کرناچاہ رہی ہے، مگر سب کچھ الٹاہورہاہے، کروڑوں لوگ اب حکومت کی دوہری پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پرآچکے ہیں۔ جے این یو میں جو حملہ ہوا،وہ ہندوستان کے طلبہ کوہی نہیںبلکہ دنیا بھر کے طلبہ کوسڑکوں پرلانے کا سبب بن گیا۔ حکومت اشتہارات اورپیسوں کے دم پر لوگوں سے اس ’کالے قانون‘ کی حمایت چاہتی ہے۔ حکمراں جماعت اس کے لیے اے بی وی پی ورکروں اورآرایس ایس کارکنان کومیدان میں اُتارکر صحیح اورغلط ہر طریقے سے لوگوں کو اپنے حق میں کرناچاہ رہی ہے مگراس کے خلاف اب اکثریتی فرقہ کے لوگ یعنی ہندوبھائی بھی بیدارہوگئے ہیں اورملک کی جمہوریت اورآئین کو بچانے کے لیے جوق درجوق اس تحریک سے جڑرہے ہیںاور مذہب سے جڑی سیاست کوٹھکرارہے ہیں:
ایک پیغام ہے جن کے لیے شعروں میں حنیفؔ
وہ سمجھ جائیں تو پھر فتح مبیں ہے امکان
¡¡
Dr. Hanif Tarin
صدر’مرکزعالمی اردومجلس‘بٹلہ ہاؤس،جامعہ نگر،نئی دہلی25-
# : 9971730422
[email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا