چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

0
0

! گلستاں میں ہر طرف آزادیوں کی مانگ ہے اور ہر زباں پہ انقلاب انقلاب کا نعرہ ہے،ہاں! اب تو لازم ہے کہ ہم بھی انقلاب کے اگتے سورج دیکھیں گے

تحریر: وزیر احمد مصباحی         پریہار،دھوریہ (بانکا) رابطہ نمبر:6394421415 [email protected]

ہم لے کر رہیں گے آزادی، منوواد، ذات پات، اونچ نیچ، بھید بھاؤ، تانا شاہی،ہٹلر شاہی، غنڈہ گردی، این آر سی، سی اے بی،سی اے اے، این پی آر سے آزادی۔بہن مانگے، بھائی مانگے، تم بھی مانگو!، میں بھی مانگوں، پیاری پیاری، ہے حق ہماری آزادی، وغیرہ یہ سب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرین کے یہاں حالیہ زبان زد ہونے والے وہ الفاظ ہیں، جنھوں نے حکومت وقت کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں. شاہین باغ کی شاہین صفت ماؤں و بہنوں نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ ہمیں کمزور نہ سمجھا جائے، ہم اپنا حق لینے اور سخت کڑاکے کی ٹھنڈی میں بھی مطلب و مقصد پہ عقاب کی طرح نظر جمائے رکھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ابھی ایک دو روز قبل سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے وائرل ہونے والا ایک ویڈیو دیکھا، جس میں ایک ننھی منھی سی کم عمر بچی، جس طرح فلک پیماں حوصلوں سے سرشار ہوکر کھلے آسمان تلے بھرے مجمع میں متنازع شہریت ترمیمی بل کے خلاف خواب غفلت میں پڑے لوگوں کو آواز لگا لگا کر بیدار کرنے کا کام کررہی تھی، وہ اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ جب تک ہماری مانگیں اور جائز مرادیں پوری نہیں ہو جاتیں، جمہوریت کو استحکام نہیں بخشا جاتا اور ایک سو تیس کروڑ ہندوستانی باشندوں کی بہتری کے لیے موجودہ پاس شدہ سیاہ قانون واپس نہیں لے لیے جاتے اس وقت تک نامساعد حالات کے تھپیڑے اور خون جما دینی والی سردیوں کے تیز دھارے ہمارے امنگ و حوصلوں کو نہ تو اپاہیج بنا سکتے ہیں اور نہ ہی آزاد لبوں پر تالے جڑ سکتے ہیں. میرے خیال میں آزاد بھارت کے لیے یہ پہلا موقع ہے کہ اس کی گگن نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اس طرح وطن عزیز کے ہر گوشے میں امنڈتے انسانی ہجوم کا سیلاب دیکھا ہے. معاش و معیشت کی مار، ملک کا دیوالیہ پن کا شکار ہو جانا، حکومت میں بیٹھے نا اہلوں کی بے وقوفی و لاپرواہی، یوگی، مودی و شاہ کی غنڈہ گردی اور سنگھی کٹھ پتلی نظریات کے بڑھتے گراف، یہ سب ایسے واضح اور منحوس امثال ہیں جنھوں نے وطن عزیز کے ساتھ اس وقت اس قدر گہرا رشتہ قائم کر لیا ہے کہ اس کی ترقیوں کے سارے سونت خشک کر دیا ہے. اس وقت سنگھی نظریات کے حاملین افراد کی غنڈہ گردی بھی بالکل عروج پر ہے. آخر یہ غنڈہ گردی ہی تو ہے کہ یوپی کے ضلع میرٹھ میں چند روز قبل ایک پولیس افسر نے مسلمانوں کو دھمکاتے ہوئے پاکستان جانے کی کھلی دھمکی دے دی، عام لوگوں کے املاک و جائداد پر اودھم مچا دیں، یوگی جیسے بھگوا لباس پہننے والے ڈھونگی و شدت پسند لیڈر نے خاکی وردی میں چھپے غنڈوں کو توڑ پھوڑ کی کھلی اجازت دے دی اور اسی درمیان کتنے بے گناہوں کی پیاری پیاری جانیں تک بھی چلی گئیں، مگر امت شاہ ہے کہ آئے دن مختلف چینلوں کے سامنے سیاہ قانون واپس لیے جانے کے حوالے سے اپنی ہٹ دھرمی کا بڑی بیشرمی سے مظاہرہ ہی کرتا چلا جا رہا ہے، چہ جائے کہ وہ ملکی حالات کو سمجھے اور اسے مذہب کے نام پر ٹوٹنے سے بچا لے؟ بھلا بتائیں کہ کیا حکومت میں بیٹھے لوگوں کی یہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جن عوام کے بل بوتے کرسی پائے، آگے چل کر اسی کے خلاف محاذ کھول کر بیٹھ جائے اور بیچارے غریبوں کی چین و سکون بھی چھین لے؟ کیا حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی ہے کہ وہ اپنے ہر ایجنڈے میں بغیر کسی تفریق کے تمام باشندوں کے حقوق کا مساویانہ خیال رکھے؟ ذات پات کے نام پر گندی سیاست نہ کرے اور اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے سر الزامات دھرنے کے بجائے اعتراف حقیقت کر لے؟ جی ہاں! یقیناً یہ ساری ذمہ داریاں ایک انصاف پرور سنجیدہ حکومت پر عائد ہوتی ہیں. مگر یہاں تو سارے معاملات ہی الٹے ہیں. سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت سے ایسی امیدیں پالنا اپنے آپ کو دھوکے میں ڈالنے کے مانند ہیں. ہاں! یہ عمل تو ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی خود اپنی آنکھ میں دھول جھونک دے اور پھر لوگوں سے صاف نہ دکھنے کی شکوہ و شکایتیں کرنے لگ جائے. آخر جو پارٹی ہندو مسلم کر کے ہی حکومت میں آئی ہو، وہ کب اور کیسے ”سب کا ساتھ سب کا وکاس” و ” بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ” جیسے نعروں پہ عمل کر سکتی ہے؟ یہ تو بس عوامی ذہن کو غیر ضروری باتوں میں الجھائے رکھنے کا ایک حربہ ہے اور کچھ نہیں. تین طلاق، دفعہ 370 و 35A کی منسوخی اور بابری مسجد کا قدیم مقدمہ، بنام ہندو مسلم ووٹ بینکنگ ہی کے تو کھلے راستے تھے. اس کے علاوہ اور بھی طرح طرح کے ایجنڈے جیسے: کالا دھن لانے کا وعدہ، نوجوان نسل کو نوکری دینے کا وعدہ اور ہر ایک افراد کے Account میں پندرہ پندرہ لاکھ کی خطیر رقم Transfer کرنے کے خوش کن عہد و پیماں بس دل بہلانے و مین مدعا سے دوسری طرف ذہن مبذول کرانے کے لیے تھے. ہاں جناب! حقیقت تو یہ ہے کہ اس درمیان بڑے بڑے چوروں و مافیا کو بھاری بھرکم رقم دے کر وطن عزیز سے فرار کر دینا تھا. اور یوں ہی رافیل ڈیل کی فائل گم کر کے عوامی پیسوں کو ہضم کر جانے کا حیلہ. خیر جو بھی ہو ___ اس طرح کی اندھ بھکتی نظریات پہ شدت پسندوں و تنظیموں کا مر مٹنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے. کہا جاتا ہے کہ ایک سادہ ذہن میں جو بات ڈالی جاتی ہے، وہ آگے چل کر اسی کی تبلیغ کرنے لگ جاتا ہے اور اسی کو اپنے لیے مستند الیہ تک کا درجہ بھی دے دیتا ہے. کچھ اسی طرح کا معاملہ یہاں بھی ہے. ناگپور کی ہیڈ کوارٹر اور اس کی متعدد شاخوں نے جن آر ایس ایسی چڈی پہننے والوں کو بغض و حسد، نفرت و عداوت، شدت پسندی و فرقہ پرستی کی ٹریننگ دی ہوں، وہ کیسے ان ایجنڈوں سے انحراف کر سکتے ہیں؟       اس وقت جب کہ ان حکومتی کارندوں کے پاس ہندو مسلم کرنے کے لیے کوئی مدعا نہیں ہے…. وہ اس سیاہ قانون کے آڑھ میں میٹھی تھپکیوں سہارے اندھ بھکتوں کو آگے کر کے ایک دفع پھر مذہبی منافرت کا گھناؤنا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں. مگر یہ حسن اتفاق ہے کہ اب ملک بھر کے باشندوں نے اس حقیقت کو اچھی طرح سے بھانپ لیا ہے. وہ اس سیاہ قانون کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتے جو جمہوریت کو تار تار کرنے والا ہے. آزاد بھارت میں یہ پہلا موقع ہے، جب ہر شہری کے زبان پر آزادی و انقلاب کے نعرے ہیں اور وہ اپنی زبردست محنت و مشقت کے بل بوتے انقلاب کی امید میں خوشگوار سحر نمودار ہونے کی راہ بھی تک رہے ہیں. امید ہے کہ سب تاج اچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں اور ہماری و آپ کی یہ امیدیں بار آور ہوں گی. یہ بھی مزے کی بات ہے کہ آزادی کے بعد ہی یہاں مختلف مذاہب کے پیروکاروں نے اسے جس طرح خوبصورت گلستاں بنانے میں زبردست کردار ادا کیا اور متعدد طبقوں و علاقوں کے افراد نے اسے مسکن بنا کر جمہوریت و قومی یکجہتی قائم کیں (جو در اصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں) وہ گنگا جمنی تہذیب کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہو گئی اور برسوں تک اسی روش پر ہمارا یہ ملک گامزن بھی رہا. مگر افسوس کہ اب ادھر چند سالوں سے ہٹلری نظریات کے حاملین نے اسے جس طرح Destroyed کرنے کی ٹھان لی ہیں، اسے تمامیت کا رنگ عطا کرنے میں حالیہ سیاہ قانون (سی اے بی، سی اے اے، این آر سی، این پی آر) نے نہلے پہ دہلا کا کام کیا ہے. مگر یہ بھی اس مایوسی بھرے وقت میں خوش کن بات ہے کہ عوامی جوش و جذبات نے اسے یک لخت ٹھکرا دیا ہے اور سنگھیوں کو یہ چیلنج دے چکا ہے کہ تم اس ملک کی برسوں پرانی گنگا جمنی تہذیب کو پس پشت ڈال کر ہندو راشٹر ہرگز قائم نہیں کر سکتے ہو. اور اب جب کہ تقریباً تین ہفتے بیت جانے کو ہیں، ان فلک پیماں حوصلوں کے مابین کہیں سے بھی تساہلی و تغافلی نے اب تک کوئی قدم نہیں رکھا ہے. (اللہ ان جذبوں کو سلامت رکھے، آمین)       یقیناً آج ہمارا ملک اسی دوراہے پہ کھڑا ہے، جس پہ کبھی فرانس کھڑا تھا. جس مصیبت و پریشانی سے کبھی فرانس جوجھ رہا تھا وہی آلام اس وقت وطن عزیز کو بھی لاحق ہیں. تانا شاہی کا دور دورہ ہے، عوام ہر طرف سے پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں. ہاں! یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت وہی انقلاب دیکھنے کا متمنی ہے، جس کا نظارہ فرانس نے 14،جولائی 1789ء میں کیا تھا. اس وقت ملک جس نئی تاریخ کو لکھنے کی تیاری میں ہے، ہمیں اور آپ کو چاہیے کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں. جی ہاں! اگر آپ ایک بہتر ملک اور اچھے سماج کے لیے نہیں لڑ سکتے ہیں تو لکھیں! لکھ نہیں سکتے تو بولیں! بول نہیں سکتے تو ساتھ دیں! اور ہاں ساتھ بھی نہیں دے سکتے ہیں تو پھر جو لکھ رہے ہیں اور بول و لڑ رہے ہیں ان کی حتی الامکان مدد کریں! آخر کار آج آپ یہ سب نہیں کریں گے، سڑک پہ نہیں اتریں گے، آپ کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے، پولیس کی لاٹھی سے ڈر لگتا ہے اور سرکاری ملازمت وغیرہ چھوٹ جانے کا خطرہ ہے تو یاد رکھیں! یہی ساری چیزیں کل خود آپ کے پاس چل کر آئیں گی. آپ پر لاٹھیاں بھی برسائی جائیں گی، ملازمت سے بھی بیدخل کر دیے جائیں گے اور آپ کی آنے والی نسلوں کو بھی غلام بنا لیا جائے گا. دیکھیے تو سہی! کہ اس وقت جب کہ ملک بھر کی بڑھتی ناراضگی دوسرے کئی ایک ممالک تک میں بھی جا پہنچی ہے، سپریم کورٹ سے یہ بیان جاری ہو جانا کہ ” سی اے اے سے منسلک عرضیوں کی سماعت اس وقت تک نہیں کرے گی جب تک اس سلسلے میں ملک بھر میں جاری تشدد رک نہیں جاتا ‘. کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے کہ بابری مسجد کے قضیہ کی مانند اسے بھی طول دے دیا جائے گا اور پھر گزرتے وقت کے ساتھ اس پہ الٹے سیدھے فیصلے صادر کر دیے جائیں گے؟ (خدا کرے کہ یہ اندازہ غلط ثابت ہو) برا نہ مانیں تو یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ بیان تو بالکل اسی طرح ہو گیا جیسے کوئی ڈاکٹر اپنے مریض سے یہ کہے کہ: ”میں اس وقت تک دوا و مرہم پٹی نہیں کروں گا جب تک کہ زخم سے خون رسنا بند نہ ہو جائے” یوں ہی کوئی سخت دل والدین یہ کہے کہ:”میں اپنے بچوں کو کھانا اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک وہ رونا نہ بند کر دے”.      خیر اس وقت ہمیں اور آپ کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہمیں اپنی محنت سے کسی بھی شرط پہ پیچھے نہیں ہٹنا ہیں. ہماری جد و جہد ضرور رنگ لائے گی، ایک خوشگوار انقلاب برپا ہوگا، جامعہ ملیہ، جے این یو،بی ایچ یو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور ملک بھر کے اعلی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی مانگیں ضرور پوری ہوں گی. بس تحریک کو جوان و زندہ رکھنے کے لیے امن و آشتی کے ساتھ جان و مال کی قربانی اور انقلاب و اتحاد کے سانچے تلے اپنی محنت و مشقت کی رفتار اور تیز کر دینی ہیں کہ __               دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے            لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
رنگ محفل چاہتا ہے ایک مکمل انقلاب           چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا